تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     10-11-2016

نریندر مودی کی کرکٹ ٹیم

''بھارت کی انٹر نیشنل کرکٹ ٹیم میں مسلمان کھلاڑیوں کی شمولیت کو روکا جائے ‘‘ سیکولر بھارت کا یہ خفیہ حکم کسی اور نے نہیں بلکہ اس کے وزیر اعظم کی جانب سے انڈین کرکٹ کنٹڑول کو دیا گیا ہے دنیا بھر میں کرکٹ کے شائقین انسانی حقوق سمیت جمہوریت کا سبق دینے والی ریاستوں اور تنظیموں کو بھارت کا یہ'' چمکتا‘‘ چہرہ سامنے رکھنا ہو گا ۔۔۔۔ انتہائی الرٹ سکیورٹی کے حصار میں گھری ہوئی بھوپال جیل سے 31 اکتوبر کی رات بیڑیوں میں جکڑے ہوئےSIMI ( سٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا) کے آٹھ لڑکوں جن میںکھنڈوا کا رہائشی گڈو، مہدی پور کا عبد المجید، کھنڈوا کے سلم ایریا کا ذاکر حسین،امجد خان،محمد عقیل خلجی،محمد خالد،محمد صادق،مجیب شیخ شامل تھے۔ بھوپال جیل کے اندر اور اس کے ارد گرد کے تمام حصار توڑتے ہوئے جیل کے چاروں جانب کھڑی کی گئی تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے بھاگ نکلے خبر ہونے پر پولیس اور سکیورٹی اداروں نے ان کا پیچھا کیا اور بھوپال کے مضافات میں ان کے ساتھ سخت مقابلے کے بعد ان تمام دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا لیکن حیران کن طور پر سکیورٹی اداروں کے کسی ایک اہل کار کو ہلکی سی خراش بھی نہ آئی اور اس قدر ہائی پرو فائل جیل سے یہ آٹھ لوگ کیسے بھاگ نکلے؟۔یہ وہ سوال تھا جومیڈیا‘ وزیرمملکت داخلہ امور کرن ریجو سے بار بار پوچھ رہا تھا تو اس نے یہ کہتے ہوئے بات ختم کر دی کہ اس وقت ملکی سرحدوں پر صورت حال انتہائی نازک ہے اور ہمیں اپنے ملکی سلامتی کے اداروں بارے اس قسم کی باتوں سے گریز کرنا چاہئے ۔۔۔۔لیکن بھارت سرکار کے تمام سکیورٹی ادارے اور مدھیہ پردیش حکومت کے ترجمان اس وقت گنگ ہو کر رہ گئے جب انہیں اس ''پولیس مقابلے‘‘ کی وہ فوٹیج دکھائی گئی جس میں سکیورٹی فورس کا ایک جوان چند قدموں کے فاصلے سے اپنی سب مشین گن کا پورا برسٹ ہاتھ پائوں بندھے ہوئے ذاکر حسین کے جسم میں اتار رہا تھا ؟۔
بھارت کے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے بھی مدھیہ پردیش حکومت کے چیف سیکرٹری، ڈی جی پولیس اور محکمہ جیل کے ڈی جی کو بھیجے گئے نوٹس میں پوچھا ہے کہ یہ 8 طلبا جن کی بیرک کے باہر ہر وقت چار مسلح کمانڈوز ڈیوٹی دیتے تھے جیل سے کیسے بھاگے ؟۔ انہوں نے جیل کی اونچی اونچی دیوا ریں کیسے پھلانگیں؟۔جس پر جیل حکام نے کہا یہ تمام طلبا جیل کے ایک گارڈ کو چمچے سے زخمی کرنے کے بعد دانت صاف کرنے والے ٹوتھ برش سے اپنی بیرک کے تالے توڑ کر نکلے اور پھر جیل کی پندرہ فٹ اونچی دیواریں پھلانگتے ہوئے باہر کود گئے؟ ہیومن رائٹس تو کیاکوئی عقل کا اندھا بھی بھارت سرکار کی یہ کہانی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔
سیکولر اور سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے بھارت کی مسلم دشمنی تو اپنی جگہ ان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے مذہبی شدت پسندی کی انتہا کر تے ہوئے تمام اہم محکموں میں اقلیتوں کے رستے بند کرنے شروع کر دیئے ہیں۔اس کیلئے آخری حد عبور کرتے ہوئے مسلمان کھلاڑیوں کی بھارت کی کسی بھی قومی ٹیم میں شمولیت کم سے کم کرنے کی ہدایات دے دی ہیں ۔وجہ اس کی یہ بتائی جا رہی ہے کہ مسلمان کھلاڑ ی ہوٹلوں کے کمروں، دوران کھیل اورڈریسنگ روم میں نماز سمیت قرانی آیات کی تلاوت کرتے تھے جس سے ہندو کھلاڑیوں کے متا ثر ہونے کے خدشات بڑھ رہے تھے کیونکہ ٹیم منیجر کی رپورٹ کے مطا بق بیرونی دوروں کے دوران چند بھارتی کھلاڑی اپنے ساتھی مسلمان کھلاڑیوں کے ساتھ لائے ہوئے انگریزی میں لکھے ہوئے قران پڑھتے ہوئے دیکھے گئے تھے جس کی رپورٹ بی سی سی آئی اور وزارت خارجہ کو بھی دے دی گئی تھی۔یہ ہیں ہاتھی کے وہ دانت جو بھارتی جمہوریت نے دنیا سے چھپا کر اپنی اقلیتوں اور ان کے حقوق دکھانے کیلئے رکھے ہوئے ہیں۔
خود کو گائو رکھشا سمیتی اور آر ایس ایس کا کارکن بتائو اور بھارت میں کمزور، غریب اور اقلیتوں پر جب چاہے جس طرح کا چاہے ظلم ڈھاتے جائو یہ وہ نعرہ ہے جوShinning India کی پہچان بنتا جا رہا ہے ۔ریاست ہریانہ کے ضلع میوات کے گائوں ڈنگر ہری میں دس کے قریب ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے ایک گھر پر حملہ کرتے ہوئے ابراہیم اور اس کی بیوی رشیداں بی بی کو قتل اور عائشہ اور اس کے خاوند جعفر الدین کو شدید زخمی کرنے کے بعد گھر میں موجود دو نوجوان لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی۔ پور اگائوں دیکھتا رہا پولیس کو اطلاع دی گئی لیکن کسی ایک کی بھی آگے بڑھ کر ان کو بچانے کی ہمت نہ ہو سکی۔۔۔کیونکہ یہ سب بلوائی آر ایس ایس کے غنڈوں پر مشتمل تھے اور ان میں سے ایک بلوائی اور ملزم امر جیت سنگھ تو نریندر مودی کے ساتھ اپنی کھنچوائی گئی تصویر ہروقت اپنے سینے پر سجائے رکھتا ہے جس پر '' مسلا تو اب جائے‘‘ لکھا ہوا ہے اور دوسرا ملزم راہول ورما آر ایس ایس کا مقامی غنڈہ ہے جس نے ابھی اپریل ہی میں اس میں شمولیت اختیار کی ہے اور فیس بک پر اس کا پروفائل دیکھیں تو ان کی انتہاپسندی پر مبنی نظریات اور پروپیگنڈا سائبر ایکٹ کے تحت سنگین جرائم میں آتے ہیں۔ 8 انتہا پسند ہندو وحشیوں کے جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی 21 سالہ زبیدہ نے امر جیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا میری آنکھوں کے سامنے میرے ماں اور باپ کو قتل کرنے کے بعد یہ غنڈے مجھے اٹھا کر کمرے کے اند رلے جانے لگے جس پر میں نے مزاحمت کی تو اس شخص نے میرے دو سالہ بیٹے کی گردن پر چھری رکھتے ہوئے دھمکی دی کہ اسے قتل کر دیں گے ۔۔۔۔ان میں سے چار انتہا پسندوں کو مختلف این جی اوز اور سوشل میڈیا کے بھر پور احتجاج پر گرفتار تو کر لیا گیا لیکن انصاف ملاحظہ کیجئے کہ ان کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر میں انڈین پینل کوڈ کی دفعہ459-460 کا اندراج کیا گیا ہے جبکہ اجتماعی زیا دتی اور302-307 کا اندراج ہی نہیں کیا گیا جبکہ قتل کئے جانے والے دونوں میاں بیوی کی لاشیں اور شدید زخمی کئے جانے والے دونوں میاں بیوی سخت زخمی حالت میں ہسپتال میں ہیں ۔ لواحقین کے شدید احتجاج پر قتل کئے جانے والے میاں بیوی کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم بھی نہیں کیا گیا اور یہ لاشیں کئی دن ہسپتال ہی میں پڑی رہیں۔پانی پت کے قریب ایک گائوں کے باہر درخت سے لٹکی ہوئی ایک مسلمان لڑکے اور ہندو لڑکی کی لاشوں کے گرد ا ک ہجوم جمع تھا جن کے بارے میں پتہ چلا کہ لڑکے کا نام نسیم اور لڑکی کا نام کو سوم ہے اور ان دونوں نے چھپ کر شادی کی تھی اس لئے انتہا پسندو ہندوئوں کی پنچایت کے فیصلے نے ان دونوں کو درخت سے لٹکا کر پھانسی دے دی۔ ایک ایسا شخص جس نے انتخابات میں ہندو ووٹ لئے ہی اس اعلان اور منشور کے ساتھ ہوں کہ وہ ان مسلمانوں کو یہاں سے نکال کر ہی دم لے گا تو وہاں مسلمان اور دیگراقلیتیں کس طرح محفوظ رہ سکتی ہیں ۔دلت، عیسائی، سکھ اور مسلمان صرف اس صورت میں امن اور چین سے بھارت میں رہ سکتے ہیں جب وہ اپنی حیثیت ختم کرتے ہوئے ہندوئوں کے سامنے ہر وقت سرجھکائے کھڑے رہیں اور وہ اپنی کسی بھی عبادت گاہ چاہے وہ مسجد ہو یا چرچ، گرودوارہ ہو یا کوئی اور اس سے دور رہتے ہوئے ہندوئوں کے ہر دیوی دیوتا کے سامنے احترام سے سر نیوائے رکھیں۔ گجرات میں 2300 سے زائد مسلمانوں کا قتل عام کرانے کے بعد درگا مائی کے آگے سیس نواتے ہوئے مودی نے کہا تھا کہ '' درگا ماں مجھے شکتی دے تاکہ تیری دھرتی بھرشٹ کرنے والوں کا صفایا کر سکوں‘‘۔ یہ الفاظ مودی نے اپنی انتخابی مہم شروع کرتے ہوئے کہے تھے اور اب حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ نے بھی ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے سختی سے ہدایات جاری کی ہیں کہ ہمارے سالانہ Navdurga Festival میں کسی بھی مسلمان کو شرکت کی اجا زت نہ دی جائے!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved