تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     11-11-2016

پاکستانیوں کا ٹرمپ کارڈ؟

دنیا کی سب سے طاقتور‘ صدیوں پرانی جمہوریت نے وائٹ ہاؤس کی پہلی خاتون امیدوار کو مسترد کر دیا۔ خالص مردانہ جمہوریت کا شاہکار، ڈونلڈ جے ٹرمپ ریاست ہائے متحدہ کا منتخب صدر ٹھہرا۔ امریکہ کی جمہوریت نے ہمارے اقبال کا کہا نہ مانا۔ بندوں کی کثرت (popular Votes) نے اگرچہ خاتون صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن کے حق میں واضح میجارٹی کے ساتھ فیصلہ دیا‘ مگر خاتون صدارتی امیدوار چند سو کی اقلیت سے پھر بھی ہار گئی۔ امریکی انتخابی نظام کا کمال یہ ہے کہ الیکٹورل کالج کے 300 سے بھی کم ووٹوں نے کروڑوں ووٹروں کو مات دے دی‘ اور ڈونلڈ جے ٹرمپ کی کامیابی کو یقینی بنا دیا۔ امریکی سرزمین میں صحیح معنوں میں 9/11 کا ایکشن ری پلے ہو گیا‘ جس کے نتیجے میں دنیا بھر کے سیاسی ریکٹر سکیل پر عالمی درجے کے 11/9 زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ ڈونلڈ جے ٹرمپ کے آتے ہی پاکستان سمیت ساری دنیا کی سٹاک مارکیٹیں کریش کر گئیں۔ امریکی ڈالر سستا ہو گیا۔ یورپی یورو، جاپانی ین اور برطانونی پاؤنڈ کی قیمت بڑھ گئی۔ خام تیل (پٹرول، ڈیزل، مٹی کا تیل وغیرہ) مزید سستا ہوا (اگر خام تیل دنیا میں مفت بھی ملے تو اطمینان رکھیں ''اللہ کے فضل و کرم سے‘‘ پاکستان میں قائم ہونے والی تاجرانہ جمہوریت پاکستانی عوام کے لیے اسے کبھی سستا نہیں کرے گی)۔ ٹرمپ کارڈ کی کامیابی کا اعلان ہوتے ہی لندن، ٹوکیو، شنگھائی، سڈنی،ممبئی اور دیگر عالمی بازار حصص میں سٹہ بازوں کے اربوں ڈالر فوراً ڈوب گئے۔
بات ہو رہی تھی ہلری کلنٹن کی شکست کی‘ جو زیادہ (پاپولر) ووٹ لینے کے باوجود الیکٹورل ووٹ میں ہار گئیں۔ اس کھلی واردات میں امریکی جمہوریت نے پاکستان کے ایشین ٹائیگر کے نقشِ قدم کو فالو کیا‘ جہاں لوڈ شیڈنگ سے بچنے کے لیے ہر ہفتے دو چھٹیاں کرنے والی اصلی تے وڈی مسلم لیگی حکومت نے مصورِ پاکستان کا یومِ ولادت منانے کے لیے پاپولر ووٹ کو چھٹی دینے سے انکار کر دیا‘ حالانکہ علامہ اقبال صاحب صرف عالمی برادری کے فرد ہی نہیں بلکہ جمہوریت کی پسندیدہ یعنی کشمیری برادری سے تعلق بھی رکھتے ہیں۔
محترم مجید نظامی صاحب اگر حیات ہوتے تو وہ کشمیری حکمرانوں کی تاجرانہ حکومت کو دو باتوں پر ضرور جھنجھوڑتے۔ ایک یومِ ولادتِ اقبال کی چھٹی منسوخ کرنے پر‘ اور دوسرے شاعرِِ مشرق کے پوتے ولید اقبال ایڈووکیٹ پر لاٹھی چارج‘ اور ان کی غیر قانونی حراست پر۔ بہر حال، جو لوگ اقبال، فکرِِ اقبال اور اقبالیات کے نام پر بننے والے اداروں پر براجمان ہیں‘ یومِ اقبال کی چھٹی منسوخ ہونے پر ان کی خاموشی کا ہرگز یہ مطلب نہ نکالا جائے کہ وہ جابر سلطان سے پوچھ لینے کے بعد ہی کلمہء حق کہنے کی سکت رکھتے ہیں۔ امریکی الیکشن سے پوری طرح واضح ہو گیا کہ وہاں ملک کی اکثریتی آبادی یعنی خواتین صدارتی امیدوار تو بن سکتی ہے‘ مگر صدر کبھی نہیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی طے ہو گیا کہ امریکی الیکشن میں بندوں کو تولا تو جا سکتا ہے‘ گنا نہیں جا سکتا۔ الیکٹورل کالج کے چند سو ووٹر امریکہ کے کروڑوں لوگوں کی اکثریت کے ووٹ کو ویٹو کر نے کا اختیار رکھتے ہیں۔
مجھے اور میری پسندیدہ جمہوریت کو ذاتی طور پر ٹرمپ بالکل پسند نہیں آیا۔ اس کی اصل وجہ قوم سے چھپانے کی بالکل ضرورت نہیں۔ یہی کہ ہماری جمہوریت نے اپنی لابی کرنے والی فرموں اور امریکہ میں اپنے تاجر دوستوں کے ذریعے ہلری کلنٹن کی انتخابی مہم پر بھاری سرمایہ کاری کی تھی۔ یہ بھاری بھر کم سرمایہ کاری کرنے کی دوسری اور تیسری وجہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں‘ جبکہ پہلی وجہ تو آپ پہلے سے جانتے ہی ہیں۔ پہلی وجہ تاجرانہ جمہوریت کی تاجرانہ ذہنیت ہے‘ جس کے مطابق تاجرانہ جمہوریت کا خیال ہے کہ دنیا میں ہر شخص اور ہر چیزکی ایک قیمت ہے۔ تاجرانہ جمہوریت ذاتی محفلوں میں اس قیمت کو (Price -Tag) کہہ کر پکارتی ہے۔ اس کی دوسری وجہ پاکستانی جمہوریت کی لابی کرنے والے سرمایہ کار اور کرائے کے لابی گر ہیں۔ ان ہر دو کو ہلری کلنٹن تک آسانی سے رسائی حاصل تھی۔ ہلری کلنٹن نے دوائیاں بنانے والی فرموں کے لیے لابی کرنے کی باقاعدہ فیس وصول کر رکھی ہے۔ یہ الزام نہیں بلکہ ہلری کلنٹن کا اعترافی بیان ہے۔ لہٰذا الیکشن کے دنوں میں سرمایہ کاری کے لیے ہلری کا انتخابی کیمپ بڑا ''ہاٹ فیورٹ‘‘ سمجھا گیا۔
دوسری جانب ڈونلڈ جے ٹرمپ نیو یارک کے ایسے بڑے سرمایہ دار کا بیٹا ہے‘ جس نے بطور باپ اپنے لڑکے کو کاروبار کے آغاز پر ایک ملین ڈالر Seed-Money کے طور پر ہدیہ کیے۔ یہ سیڈ منی ڈونلڈ جے ٹرمپ کو تب ملی جب 70ء کے عشرے میں وہ ویتنام جنگ میں شریک ہونے کے لیے میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہوا۔ میڈیکل بورڈ نے ڈونلڈ ٹرمپ کو جو سرٹیفکیٹ جاری کیا‘ اس میں صرف اتنا لکھا تھا ''تم فوج کی نوکری کے لیے اَن فٹ آدمی ہو‘‘۔ لہٰذا ڈونلڈ جے ٹرمپ کو چندہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ اس کا ایک ہلکا پھلکا ثبوت اس دن سامنے آیا جب ڈونلڈ جے ٹرمپ کے ہینڈ پِِک کیے گئے نائب صدر کا بھاری بھرکم طیارہ لینڈنگ کرتے وقت رن وے سے پھسل کر نیچے گر گیا۔ جہاز کے مسافروں کی قسمت اچھی تھی۔ اس حادثے میں کوئی جانی نقصان نہ ہوا‘ لیکن اس کے چند گھنٹے کے اندر اندر ڈونلڈ جے ٹرمپ نے اپنے نائب صدر کو ایک دوسرا بھاری بھرکم جہاز بھجوا دیا تھا۔ یہاں ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔ جو مصدقہ اطلاعات بتائی جا رہی ہیں‘ ان کے مطابق امریکہ میں ڈالروں کے عوض امریکہ پرست اقتداریوںکی لابی کرنے والی فرموں کے ذریعے پاکستان میں ''اللہ کے فضل و کرم سے‘‘ اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد میں کئی گروپ اور سیاسی شخصیات شریک تھیں‘ مگر لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں ڈونلڈ جے ٹرمپ کے سیاسی کیمپ کی طرف کسی کی توجہ تک نہیں گئی‘ جس کی بڑی وجہ امریکہ کا کارپوریٹ (Main-Stream) میڈیا تھا۔ اس میڈیا کے اندازے اور تبصرے بری طرح سے پِٹ گئے۔ جھوٹ کے اس اہرامِ مصر کو ڈونلڈ ٹرمپ نے کاٹھ کی ہنڈیا کی طرح دھڑام سے نیچے گرا دیا۔ امریکہ کا کوئی سروے کرنے والا ادارہ ایسا نہیں تھا جس نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھوئے ہوں‘ لیکن اس طرح کے Paid -Content پر مبنی سروے کرنے والے فن کار ہماری پنجاب حکومت کے حق میں سروے کرنے والوں کی طرح کچھ زیادہ ہی آگے نکل گئے۔
امریکی صدارتی الیکشن سے 24 گھنٹے پہلے ایک ایسے ہی سروے کو سوشل میڈیا پر بڑی پذیرائی ملی‘ جس میں 96 فی صد ووٹ ہلری کے حق میں دکھائے گئے‘ جبکہ صرف 8 فیصد رائے ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں گئی۔ اس نادرِ روزگار سروے کو سماجی میڈیا نے فوراً اُچک لیا‘ کیونکہ اس میں 100 فیصد سے بھی آگے نکل کر 104 فیصد عوام نے رائے دے رکھی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کامیابی سے پہلے کئی اور عالمی میڈل بھی جیتے۔ مثلاً مہاجر دشمنی کا میڈل، مسلم مخالفت کا میڈل، امریکی عورتوں کی ہتک کا میڈل‘ اور مؤثر ترین الیکشن مہم کا میڈل۔ 
ڈونلڈ جے ٹرمپ کی کامیابی نے امریکی الیکشن مہم میں پاکستانی سرمایہ کاروں کے منہ لٹکا دیے۔ یہ سرمایہ کار سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ نے دنیا کا سب سے بڑا 'سٹیٹس کو‘ توڑا ہے‘ اسٹیبلشمنٹ کی امیدوار کو چاروں شانے چِت گرا کر۔ ڈونلڈ جے ٹرمپ کو روسی ایجنٹ کہا جاتا ہے۔ اس کی ترجیح میکسیکو کے ساتھ دیوار تعمیر کرنا ہے۔ اس کے پاس پاکستان میں 'سٹیٹس کو‘ کی باقیات کو بچانے کے لیے وقت نہیں ہو گا۔ انہیں ایک اور فکر بھی کھائے جا رہی ہے۔ ایک طرف صدر کلنٹن، صدر اوباما، ہلری کلنٹن، مشعل اوباما، الگور، سارے اداکار، سارے کھلاڑی، ساری گانے والیاں اور امریکہ کے تمام سلیبرٹیز اکٹھے تھے‘ دوسری جانب ایک پاگل آدمی‘ جس کی سیاست محض 2 سال تھی‘ باغیانہ انتخابی مہم جوئی کر رہا تھا۔ پاکستان میں 'سٹیٹس کو‘ کے ہرکارے کل سے لکھ کر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں ظلِ الٰہی کو کورنش بجا لانے کی بجائے الزام، اتہام، دُشنام اور ہنگام کی سیاست کامیاب ہو جائے گی۔ اسی لیے سیاسی اشرافیہ اور 'سٹیٹس کو‘ کی بدمعاشیہ‘ دونوں گلے مل کر آہ و زاری کرنے میں مصروف ہیں۔ 100 فیصد ویسے ہی جیسے سی این این‘ جسے ڈونلڈ ٹرمپ نے کلنٹن نیوز نیٹ ور ک کا نام دیا۔
امریکہ‘ جسے مواقع کی سرزمین کہتے ہیں‘ کا عام آدمی اپنے لیے ایک نیا موقع ڈھونڈ لایا۔ اس موقع پر یہ یاد کرنا مناسب ہے کہ جو لوگ تین سال سے کہہ رہے تھے، نواز شریف کے ''مینڈیٹ‘‘ کا احترام کرو اور بدترین جمہوریت کی حمایت کرو۔ اب وہ کیا فرماتے ہیں‘ ڈونلڈ ٹرمپ کے مینڈیٹ کے احترام کے مسئلے کے بیچ میں؟؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved