مزے کی بات یہ ہے کہ میرے انیس روزہ قیام ہندوستان میں کہیں سقوط ڈھاکا اور قیام بنگلہ دیش مشرقی پاکستان کے خاتمے وغیرہ کا ذکرنہیں آیا، حالانکہ پاکستان ہر جگہ موضوع بحث بنتا رہا۔ ہاں تو بات ہندوستان جانے نہ جانے کی ہو رہی تھی۔ پہلے تولیے دیئے رہے شکیل۔ لیکن جب میں نے بہت خاکساری دکھائی ، باقاعدہ خوشامد کی تحریری درخواست پیش کی اور اس کا یقین دلایا کہ جس سے ملوں گا تنہا ملوں گا، تب فرمایا، بھائی جائو وہاں کی سیر کرو، لوگوں سے ملو، بڑے بڑے ادیب اور شاعر ملیں گے۔ وہاں روپے پیسے کی فکر نہ کرو۔ میں تو یوں کرتا رہا تھا۔ یہ لوگ تمہارے ساتھ ہیں، امرناتھ ہمارا یار ہے، موٹر بھی تمہارے حوالے کریں گے اور مالی تعاون تو ظاہر ہو گا۔ حسن ہاشمی سے انگریزی مسودہ تیار کرنے کے لیے کہا گیا اور پھر اپنے قلم سے بھرپور اور نک سک سے درست کیا کردیا، ازسرنو لکھ دیا۔ دلی میں مجھے اس خط کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ امرناتھ ہندوستان سے باہر گئے ہوئے تھے، ان کے صاحبزادے اور سٹار پبلی کیشنز کے کرتا دھرتا سے دو تین بار دکان ہی پر گپ بھی ہوئی اور چائے بھی چلی۔ دکان صرف ہندی اور انگریزی کتابوں سے بھری ہوئی تھی، اردو برائے نام بھی نہیں، شکیل کا خط دیکھئے۔
پیارے امرجی نمسکار
ایک بار پھر میں آپ کے دروازے پر ذاتی کام کے لیے دستک دے رہا ہوں۔ یہ عنایت میں اپنے دوست حامل رقعہ ہذا جناب انیس شاہ جیلانی کے لیے چاہتا ہوں جن کی شناخت ان کے چہرے پر رقم ہے۔ یعنی بڑی بڑی مونچھیں۔ جناب انیس شاہ جیلانی صادق آباد سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ جگہ ملتان سے بہت قریب ہے۔ پیشے کے لحاظ سے ''وڈیرے‘‘ ہیں۔ فطرت کے لحاظ سے بہت پیارے شخص
ہیں۔ خود بھی قلمکار ہیں اور خاکہ نویسی میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی ذاتی بہت وسیع لائبریری ہے۔ آج کل کچھ اور ادیبوں اور شاعروں کے ایک گروپ کے ساتھ انڈیا کا دورہ کر رہے ہیں۔ یہ ان کا پہلا پہلا سفر ہند ہے اور ہندوستان میں اپنی تنہائی اور اجنبیت کے بارے میں فکر مند ہیں، اس لیے میں انہیں آپ کی طرف بھیج رہا ہوں‘ اس التماس کے ساتھ کہ ان کے ساتھ ایسا ہی برتائو کیجئے کہ گویا میں خود آپ کے پاس آیا ہوں، انہیں آپ کی اخلاقی اور یقینا قلبی مدد کی ضرورت ہوگی۔ کچھ مالی مدد بھی ازراہ نوازش۔ انہیں محسوس نہ ہونے دیں کہ ہندوستان میں ان کا کوئی بھی شناسا نہیں ہے، میرا مطلب ہے کہ ان کی ہر لحاظ سے مدد کیجئے۔ یہ اس بارے میں مشوش ہیں کہ ہند میں ان کے ساتھ کیا گزرے گی۔ میں نے ان کو یقین دلایا ہے کہ وہاں کچھ مثالیت اور روحانیت باقی ہے۔ مجھے بھی ہندوستان آنا تھا لیکن میری والدہ جلد ہی پاکستان آ رہی ہیں۔ اس لیے فی الحال میں نے یہ دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ میں ''ایڈورٹائزنگ کانفرنس‘‘ میں شریک ہوتا لیکن دعوت نامہ بہت دیر میں موصول ہوا۔ بہرحال، امید ہے جلد ملاقات ہوگی۔ بھابی کو آداب، انیل اور بہورانی کو پیار، آپ کا ...شکیل
شکیل نے ایک خط پروفیسر عنوان چشتی کے نام بھی دیا تھا۔ انجمن ترقی اردو (نئی دہلی) میں آمنا سامنا تو ہوا، لیکن خط میں پانچ سو روپے کا تقاضا بھی تھا۔ اس لیے میں نے یہ اضافہ کرکے حوالہ ڈاک کردیا، اگر اجازت ہو تو پہنچوں۔ موصوف نے پلٹ کر رسید ہی نہیں دی۔ بلائے بے درماں بنتا تو وہ ظاہر ہے شرمندہ ہوتے۔ کچھ کپڑا اور خط والدہ اور بھائی کفیل عادل زادہ کے نام تھے وہ میں تو امروہہ اور مراد آباد جانہ سکا۔ محمود صاحب کے حوالے کیے جو بحفاظت تمام مراد آباد پہنچے۔ ڈاکٹر محمد حسن سے ملاقات نہ ہوسکی۔ شکیل نے میری تعریف میں جو کچھ لکھا ہے وہ یہ ہے: ڈاکٹر صاحب قبلہ، آداب، رسا چغتائی صاحب اپنی ملازمت سے ایسے گھبرائے کہ کسی سے ملے بغیر واپس آ گئے۔ اب یہاں آ کر بھی نادم نہیں ہیں، یہ ہے کٹھ حجتی۔ صورت یہ ہے کہ میرے دوست جناب انیس شاہ جیلانی ہندوستان آئے ہوئے ہیں۔ یہ یوں تو رئیس صاحب گروپ آف گڈول میں شامل ہیں لیکن ان کا گمان ہے کہ یہ ہجوم میں رہتے ہوئے بھی تنہا رہیں گے۔ میں نے ان سے کہا ہے کہ آپ سے ملیں، یہ پڑھے لکھے آدمی ہیں، صادق آباد کے وڈیرے ہیں۔ اچھی ذاتی لائبریری ہے خاصی معقول۔ خاکہ نگاری کمال کی کرتے ہیں، شاید سب سے منفرد۔ زمینداری کے باوجود اصل مشغلہ تو ان کا ادب داری ہے۔ یہ وہاں جاتے ہوئے گھبرا رہے ہیں، آپ کی تسلی، تشفی، نگرانی اور مہربانی کی انہیں قدم قدم پر ضرورت پڑے گی۔ اس سے زیادہ مجھے کچھ نہیں لکھنا ہے، پروفیسر جانِ جاناں جمیل اختر خیریت سے ہیں۔ تفصیلی خط کا وقت نہ مل سکا، بہرحال یہ چند سطور حاضر ہیں۔ آپ کب آ رہے ہیں، اب تو بہت دن ہوگئے۔ بھابی کو سلام، بچوں کو پیار۔
آپ کا شکیل عادل زادہ
محترم قبلہ ڈاکٹرمحمد حسن صاحب، زادمجدۂ ......
جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، دلی
شکیل نے یہ خط اپنے شاندار بنگلے کے سجے ہوئے کمرے میں ٹیلی ویژن پر کرکٹ میچ دیکھتے ہوئے لکھے۔ دھیان بٹا ہوا تھا مگرلکھے۔ درجن بھر اور خطوط پاکستانی دوستوں نے ہندی دوستوں کے نام دیئے، میں تو من مانی کروں گا، خط کچھ تو اور درج بیاض ہونا چاہئیں۔ اسلام آباد میں نظیرصدیقی سے ملاقات نہ ہوسکی، یارانہ ہمارا مدتوں کا ہے، وہ میرے اور میں ان کے لیے کھلی کتاب ہیں۔ بڑی پیاری اور غلیظ گفتگوئیںزبانی بھی ہوتی ہیں اور خطوں کو بھی چھپا کر پڑھنا پڑتا ہے، سنبھال کے رکھنا پڑتا ہے۔ نہ میں نے کبھی چھپا کے رکھا، نہ نظیرنے دل کی بات زبان پر لانے سے احتراز کیا۔ حمام ایک ہے اور ننگے ہم دونوں کے دونوں۔ دڈنیا میں کوئی تو ایسا ہو جسے ہمارے عیب و ہنر کا بخوبی علم ہو۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے ''عالم الغیب‘‘ ہیں، یہ سب کچھ ہے لیکن اس کا کیا ہو ہمارا یار بیوی سے خائف اس حد تک ہے کہ گھر کا پتہ آج تک نہ دیا۔
دفتر عید کی چھٹیوں کی وجہ سے بند تھے، تاہم ایک خط تو مجروح سلطان پوری کے نام بھجوایا۔ وہ ممبئی میں ہیں اور بمبئی میں جانہ سکا۔ بمبئی ہی کے سردار جعفری کے نام دوسرا خط بھی نظیر نے عطا کیا، تیسرا خط عتیق صاحب کے نام، میری ملاقات سترہ دن دہلی میں رہنے کے باوجود عتیق صاحب سے نہ ہوسکی۔
شعبہ اردو، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد،4 اکتوبر 1982ء
محترم ڈاکٹر عتیق اللہ صاحب، تسلیم!
کئی خط بھیجے مگر ہر ایک کے جواب سے محروم رہا، اگر جدید اردو غزل ''ایک مطالعہ‘‘ کی طباعت آپ کے لیے ممکن نہ ہو تو برائہ کرم مسودہ حامل ہذا سید انیس شاہ جیلانی کے ہاتھ واپس بھیج دیں۔
خاکسار نظیر صدیقی
بخدمت جناب ڈاکٹر عتیق اللہ، شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی
شعبہ اردو، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد، 4اکتوبر 1982ء
بھائی مجروح، حامل ہذا سید انیس شاہ جیلانی میرے نہایت عزیز دوست اورآپ کے قدردانوں اور پرستاروں میں سے ہیں، انہیں اردو شعر وادب سے گہری دلچسپی رہی ہے، لکھتے لکھاتے بھی رہے ہیں، خصوصا خاکہ نگاری میں بڑی اچھی مہارت رکھتے ہیں، پہلی مرتبہ بمبئی جا رہے ہیں، انہیں آپ سے اور ادبی حلقے کے دوسرے لوگوں سے ملنے کا اشتیاق ہے۔ امید ہے کہ آپ دونوں کی ملاقات خوشگوار رہے گی...!
آج کا مطلع
اگرچہ مہر بلب ہوں سنائی دے رہا ہوں
کہ ہوں کہیں بھی نہیں اور دکھائی دے رہا ہوں