تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     11-11-2016

تبدیلی

بیپی گریلو ایک اڑسٹھ سالہ اطالوی کامیڈین ہے۔اس نے تعلیم تو اکاؤنٹس کی لی مگر غیر معمولی حاضر جوابی اور خوش طبعی کی وجہ سے طنزو مزاح کے میدان میں آگیا۔ انیس سو ستتر میں اسے ٹی وی پر کام ملنا شروع ہوا اور پھر اس نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ انیس سو اسی کی دہائی میں جب اس کا ستارہ عروج پر تھا تو اس نے اطالوی سیاستدانوں کو مزاحیہ انداز میں نشانہ بنانا شروع کیا۔ ان کی کمزوریاں ، کرپشن اور ملکی فلاح سے لاتعلقی کے سچے واقعات کو وہ لطیفو ں کی شکل میں ٹی وی پر بیان کرتا اور دیکھنے والے ہنس دیتے۔ کچھ عرصے بعد ہی یہ لطائف عوام میں بے چینی پیدا کرنے لگے اور حکومت کو محسوس ہوا کہ بیپی گریلو محض ایک کامیڈین نہیں بلکہ وہ دل موہ لینے والے انداز میں سیاستدانوں کی اخلاقی ساکھ تباہ کرتا جارہا ہے۔ انیس سو نوے میں اس نے اٹلی کے سابق وزیراعظم پر لطیفوں کے ذریعے ایسی تنقید کی کہ اس نے سرکاری ٹی وی کے دروازے گریلو پر بند کردیے۔ حکومت کی ناراضگی دیکھ کر نجی ٹی وی کمپنیوں نے بھی آنکھیں پھیر لیں۔ گریلو نجی محفلوں میں ون مین کامیڈی کرکے لوگوں کو محظوظ کرتا رہا اور ان محفلوں میں بھی اس نے سیاستدانوں کو اپنا ہدف بنائے رکھا۔ انیس سو نوے کے آخر میں جب انٹرنیٹ عام ہوا تو اس نے بلاگ لکھنا شروع کردیا اور اپنی گفتگو ریکارڈ کرکے اس کا حصہ بنانا شروع کردی۔ اس کے بلاگ کو اتنی پذیرائی ملی کہ آج اس کا شمار دنیا کے دس مشہور ترین بلاگز میں کیا جاتا ہے۔ اپنے بلاگ کے ذریعے وہ سیاستدانوں کی کرپشن اور نا اہلی کو بے نقاب کرتا رہا حتیٰ کہ دوہزار چھے میں اس کی ملاقات گیان روبرٹو کاسالیگیو سے ہوئی ۔ 
کاسا لیگیو انٹرنیٹ کا ماہر تھا۔ اس نے گریلیو کو سجھایا کہ سیاستدانوں کی بدعنوانی کے خلاف جدوجہد کے لیے سیاسی میدان ہی موزوں ہے۔ یہ نکتہ اس کے ذہن میں بیٹھ گیا اور اس نے کاسالیگو کے مشورے سے پانچ ستارہ تحریک کا آغاز کیا۔ ان کی تحریک کے پانچ ستارے دراصل پانچ حقوق تھے جو انہیں ریاست سے حاصل کرنا تھے اور وہ حقوق تھے:صاف پانی، اچھی ٹرانسپورٹ، ہموار شرح ترقی، انٹرنیٹ تک رسائی اور صاف ستھرا ماحول۔پانچ ستارہ تحریک کا خیال تھا کہ ان پانچ حقوق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بدعنوان سیاستدان ہیں اور ان کو روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے مقابلے میں الیکشن لڑا جائے۔ گریلو اور کاسا لیگو نے بغیر سرمائے کے سیاست کا تصور دیا اور انٹرنیٹ کو اپنا ہتھیار بنا لیا۔ انٹرنیٹ کے ذریعے انہوں نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور دوہزار تیرہ کے الیکشن میں پانچ ستارہ تحریک دوسری بڑی سیاسی جماعت بن گئی۔ دوہزار سولہ میں اس نے روم کے میئر کی نشست جیت لی۔ تارین نامی شہر جو حکمران جماعت کا گڑھ سمجھا جاتا تھا ، وہاں بھی مئیر کا انتخاب جیت لیا۔ اس تحریک کو ختم کرنے کے لیے حکومت نے ایک ایسی اپوزیشن جماعت کا سہارا لیا جو ہر موقعے پر اس تحریک کے قریب آتی ہے اور پھر دستوراور جمہوری روایات کا بہانہ بنا کر اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ کاسالیگو مر چکا ہے مگر گریلو اب اکیلا نہیں ہے۔ اٹلی کے قانون ساز ادارے میں اس
کے ایک سو پانچ ساتھی موجود ہیں اور اس کی مقبولیت سے صرف اٹلی ہی نہیں یورپ کے کئی ملک لرز رہے ہیں کیونکہ ان کے ہاں بھی پانچ ستارہ تحریکوں نے جنم لے لیا ہے۔ 
بھارت میں دلّی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوا ل کو دیکھ لیں۔ اس شخص نے سرکاری ملازم کے طور پر ایمانداری دکھانے کی کوشش کی تو اس کی پاداش میں اسے عضومعطل بنا کر بٹھا دیا گیا۔ پھر اس نے سماجی خدمت کے میدان میں کام شروع کیا تو اسے معلوم ہوا کہ ریاست کا غلیظ نظام اسے راستہ نہیں دے گا۔ تھوڑی جدوجہد کے بعد پتا چلا کہ اس نظام میں ہر طرف پھیلی کرپشن کے ذمہ دار تو وہ سیاستدان ہیں جو ترقی کے نام پر عوام کولوٹ رہے ہیں۔ اس نے ان سیاستدانوں کے خلاف ہر طرح سے جنگ شروع کردی حتیٰ کہ انا ہزارے کے ساتھ دوہزار گیارہ میں بھارتی لوک سبھا کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ گیا مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ آخر اسے بھی سیاست میں آنا پڑا، عام آدمی پارٹی بنائی اور دوہزار تیرہ میں کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ کانگریس والوں نے دستور اور جمہوریت کے نام پر کرپشن کرنا چاہی تو حکومت چھوڑ کر میدان میں آگیا۔ دوبارہ الیکشن لڑا اور ستر میں سے اڑسٹھ نشستیں جیت کر پھر ڈٹ گیا۔ شاید آج بھی دلّی کی حکومت میں کرپشن ہورہی ہے لیکن کیجریوال اس سے لڑضرور رہا ہے اور بھارتیا جنتا پارٹی کی مضبوط حکومت بھی اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے پریشان ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کو دیکھ لیجیے۔ اس نے دنیا بھر کو بتا دیا کہ امریکا کا سیاسی نظام اتنا ہی بدعنوان ہے جتنا دنیا کے کسی اور ملک کا۔ میڈیا نے نظام اور جمہوریت کے نام پر اس کو ذلیل کرنا شروع کیا تو اس نے میڈیا اورنام نہاد جمہوریت کے درمیان ناجائز تعلق عوام کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ اس نے نام لے لے کر میڈیا کے اداروں کو للکارا اورلوگوں کو بتایا کہ یہ آزادیء اظہار کے نام پر پلنے والے ادارے دراصل امریکی امراء اور اسٹیبلشمنٹ کے ٹٹو ہیں۔ کسی نے اس سے ٹیکس سٹیٹمنٹ مانگی تو اس نے لوگوں کو بتایا کہ عام آدمی سے لیا جانے والا ٹیکس دراصل چوری اور ڈاکے کی حکومتی شکل ہے جس سے بچنا اسے آتا ہے۔ کسی نے فوج کی دہائی دی تو اس نے دو چار کھری کھری سنا دیں۔ کوئی الیکشن کے نتائج کے بارے میں پوچھ بیٹھا تو فرما دیا، ''نتائج بتائیں گے کہ الیکشن منصفانہ تھا یا نہیں‘‘۔ اس نے ریاست کو ایک ایسی خراب مشین قرار دیا جس کی مرمت صرف وہی کرسکتا ہے کیونکہ پرانے سیاستدان دراصل اسے خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں۔اس نے ماضی کی ہر پالیسی کو غلط قرار دیا کیونکہ یہ پالیسیاں ہر امریکی شہری کو روٹی، کپڑا اور مکان نہیں دے سکیں۔ریاست اور عوام کے درمیان کمزور ہوتے ہوئے تعلق پر اس نے کھل کر بات کی اور اس کا ذمہ دار مفاد پرست سیاستدانوں کو قرار دیا۔ امریکا کی خفیہ ایجنسیاں، میڈیا، ملٹی نیشنل کمپنیاں حتیٰ کہ اس کی اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاستدان سب اسے جھوٹا ثابت کرنے میں لگے رہے ۔ عوام سنتے رہے مگر خاموشی سے جاکر اسے امریکا کا صدر بنا آئے۔ 
جب بھارت میں کیجریوال ، اٹلی میں بیپی گریلو اور امریکہ میں ٹرمپ نے اپنے نظام سے بیزاری کا اظہار شروع کیا تقریباً اسی وقت پاکستان میں عمران خان کو سیاسی عروج نصیب ہوا ۔ عمران خان کی زبان، انداز بیان اور اور موجودہ ریاستی نظام کے بارے میں تصورات بھی وہی ہیںجو کیجریوال، گریلو اور ٹرمپ کے ہیں۔ انہیں بھی پیپلزپارٹی کی صورت میں ایک ایسی جماعت سے واسطہ ہے جو پہلے ان کی آواز میں آواز ملاتی ہے پھر اپنے ساز لے کر الگ ہوجاتی ہے۔ انہیں بھی بڑی بڑی کمپنیوں اور میڈیا کی مدد نہیں مل رہی، ان پرنظام سے بغاوت، مشکوک کردار اورغیر جمہوری رویے کے وہی الزامات ہیں جو ان جیسے باقی تینوں راہنماؤں پر لگے ہیں۔عمران خان اور ان تینوں میں اتنی مماثلت ہے کہ جب کیجریوال خبروں میں تھے تو وہ پاکستان کے کیجری وال کہلائے اور جب ٹرمپ موضوعِ گفتگو بنے تو انہیں پاکستان کا ٹرمپ کہا جانے لگا۔ عمران خان،کیجریوال، گریلواور ٹرمپ میںقدرِ مشترک یہ بھی ہے کہ ان کے بارے میں دنیا کے ہر سیاسی تجزیہ کار کا ہر اندازہ غلط ثابت ہوا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved