ہمارے سنجیدہ اور پڑھے لکھے طبقے کو امریکہ کے سیاسی افق پر اچانک نمودار ہونے والے مسٹر ٹرمپ نے صدارتی امیدوار بن کر حیران کر دیا۔ تجربے کار اور روایتی سیاست دان‘ ہیلری کلنٹن نے بہت محنت کی۔ کتابیں پڑھیں۔ عوامی مزاج کا مطالعہ کیا۔ عملی سیاست میں اعلیٰ پیمانے پر وسیع تجربہ حاصل کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہیلری نے بطور سیکرٹری خارجہ ہی سوچ لیا تھا کہ مستقبل میں وہ امریکہ کی پہلی خاتون صدر بنیں گی‘ لیکن یہی ان کی کمزوری تھی۔ سیاست دان زیادہ پڑھ لکھ جائیں تو وہ عوام سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ مسٹر ٹرمپ سے پہلے امریکہ میں 44 صدور منتخب ہوتے آئے ہیں۔ ان میں فوجی بھی تھے‘ سکالرز بھی‘ مختلف علوم کی مہارت سے بہرہ ور اور ماہرین تعلیم بھی۔ روایتی طور پر امریکی سیاست میں ہمیشہ اعلیٰ ذہنی صلاحیتیں‘ مختلف مہارتیں اور فنون پر دسترس رکھنے والے سیاست دان ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوا کرتے تھے۔ مثلاً ڈاکٹر ہنری کسنجر‘ جان ایف کینیڈی‘ جمی کارٹر جیسے ممتاز سیاست دان‘ جو اعلیٰ ترین ذہنی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ بہت کم امریکیوں کو یاد ہو گا کہ انتخابی مہم کے دوران صدارت کے امیدوار کھلے مباحثوں میں حصہ لیا کرتے تھے۔ مجھے یہ کل کی بات لگتی ہے‘ لیکن پہلا مباحثہ جان ایف کینیڈی اور لائیڈن بی جانسن کے مابین ہوا۔ مباحثوں کی بانی دونوں شخصیتیں‘ صدارت کے منصب پر فائز ہوئیں۔ پہلے کینیڈی‘ ان کے بعد جانسن صدر بنے۔ کینیڈی کا قتل ہونا اور جانسن کا صدر بننا‘ امریکہ کے دو بڑے المیے تھے۔ اگر دونوں مذکورہ شخصیتوں کا موازنہ کیا جائے تو کینیڈی‘ امریکہ کے دانشور صدور میں سے ہیں‘ اور جانسن گھڑے گھڑائے سیاست دان تھے۔ کینیڈی بے حد حسن پرست مگر باذوق تھے۔ فرصت کے لمحات میں وہ امریکہ کی حسین اور دانشور خواتین سے ملاقاتیں کرتے اور نامور ایکٹریسوں سے تبادلہ خیال۔ مگر مجھے امریکہ کا ایسا کوئی صدر یاد نہیں جس نے تجارت کے ساتھ پہلوانی بھی کی ہو‘ حسینائوں کے مقابلے بھی کرائے ہوں اور ضرورت پڑنے پر گینگسٹرازم کے عملی مظاہرے بھی کئے ہوں۔
میں اپنے ملک کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ امریکہ جہاں چوالیس صدور کے بعد پہنچا‘ ہم اللہ کے فضل و کرم سے اپنے پہلے ہی جمہوری عہد میں داخل ہو گئے تھے اور ایسے داخل ہوئے کہ دور دور تک باہر نکلنے کا راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ قائد اعظمؒ قیام پاکستان کے ایک ہی سال بعد دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کے بعد پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان1951ء میں جام شہادت نوش کر گئے‘ اور پھر چل سو چل۔ اقتدار اسی کے پاس گیا‘ جس کے پاس طاقت تھی۔ یہ قدرت کا وہ تحفہ ہے جو امریکہ کو چوالیس صدور کے بعد نصیب ہوا جبکہ ہمیں ایک ایسے سیاست دان کی قیادت جلد نصیب ہو گئی‘ جو مسٹر ٹرمپ سے بہتر ثابت ہوں گے۔ مسٹر ٹرمپ نے تو ابھی تک حلف نہیں اٹھایا جبکہ ہمارے ممتاز ترین سیاست دان‘ اللہ کے فضل و کرم سے اٹھارہ سال پہلے ملک کے وزیر اعظم بن گئے تھے۔ اس سے پہلے وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے‘ پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے اور ان کے برادر عزیز شہباز شریف بھی ان گنت مرتبہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ وہ صوبے کی حاکمیت سے اتنے تنگ آ چکے ہیں کہ اب اپنے آپ کو خادم اعلیٰ کہلاتے ہیں۔ اگر ان کے سیاسی کام دیکھے جائیں تو ان کے خادم اعلیٰ بننے کی بڑی مثال نظر نہیں آتی۔ سڑکوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو میاں نواز شریف خادم اعلیٰ ہیں۔ تعمیر و ترقی کی روشنی میں دیکھا جائے تو بھی جناب نواز شریف ہی خادم اعلیٰ کہلائیں گے۔ اپنی جماعت کے امیدواروں کی انتخابی کامیابیوں پر نظر ڈالی جائے تو اس شعبے میں بھی نواز شریف ہی خادم اعلیٰ ثابت ہوں گے۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنے دورِ شباب میں ہمیشہ زیرو میٹر گاڑیاں استعمال کرتے تھے جبکہ شہباز شریف نے خادم اعلیٰ بننے کے بعد کوئی زیرو میٹر گاڑی نہیں خریدی۔ بات امریکہ سے چلی تھی۔ میں خواہ مخواہ دوسرے ایشو میں جا اٹکا۔ موازنہ پاکستانی اور امریکی قیادت کے مابین ہو رہا تھا۔ امریکیوں کو جو صدر‘ 44 صدور کے بعد نصیب ہوا‘ ہمیں اپنی قومی زندگی کی پہلی صدی کے دوران ہی میسر آ گیا۔ روایت یہی ہے کہ امریکہ کے کسی صدر کا دور اقتدار8 سال سے زیادہ نہیں ہوتا‘ جبکہ اللہ کے فضل و کرم سے ہمارے لیڈر‘ سیاسی دور شباب میں ہی‘ تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن چکے ہیں۔ اگر امریکہ کے نو منتخب صدر‘ مسٹر ٹرمپ کے حکومتی دور کے پہلے سال میں ان کے مستقبل کا اندازہ لگائیں تو وہ ہم سے بمشکل ہی آگے بڑھ سکیںگے۔ میں کوئی ستارہ شناس نہیں ہوں لیکن ہمارے لیڈر ''شیر‘ اک واری فیر‘‘ کہلانے لگے ہیں۔ ہمارا شیر غیر سیاسی مشاغل میں امریکہ کے نو منتخب صدر سے کہیں آگے ہے۔ آگے کیا؟ دائیں بائیں بھی معجزہ فن سے اپنے نِکے نِکے شیروں کو فیض یاب کرتے رہتے ہیں۔ امریکہ بہرحال امریکہ ہے۔ انہوں نے اب جو اپنا شیر ایجاد کیا ہے‘ کوئی مغربی قوم اتنی دیدہ دلیری کا مظاہرہ نہیں کر سکتی۔ امریکی شیر وہ ہے جو لکی ایرانی سرکس والوں کو بھی نصیب نہیں ہوا ہو گا۔ اسے کشتی میں کمال دکھانے کا بہت شوق ہے۔
طاقتور اور شیر جیسی خوبیاں رکھنے والا یہ پہلوان‘ اپنے حریفوں کو ان گنت کشتیوں میں شکست دے چکا ہے۔ ہمیں صرف ٹیلی ویژن پر‘ امریکی شیر کے فن کے مشاہدے کا موقع ضرور ملا مگر یہ ایسا وقت تھا‘ جب مقابلہ کرنے والی شیروں کی جوڑی‘ رِنگ سے باہر زمین پر آ گری تھی۔ اس وقت مسٹر ٹرمپ غضب ناک موڈ میں تھے۔ وہ مقابل پہلوان کو گھٹنوں سے بھی کچل رہے تھے۔ کہنیوں سے بھی ان کے ٹانکے ادھیڑ رہے تھے۔ کشتیاں لڑنے والے امریکی پہلوانوں میں بہت کم ایسے ہوں گے جو مسٹر ٹرمپ جیسے فن پہلوانی کا مظاہرہ کر سکتے ہوں۔ انہوں نے اپنے جسم کے سارے اعضا کو کشتی میں دھکیلتے ہوئے جوش و خروش میں اپنے جانگیے کے اندر سے بال کترنے والی ایک مشین نکالی۔ پتہ نہیں کہاں سے صابن کا جھاگ پیدا کیا اور شکنجے میں آئے ہوئے حریف کی ٹِنڈ کرنا شروع کر دی۔ مسٹر ٹرمپ اپنا کوئی بھی کام مفت میں نہیں کرتے۔ بہت بڑے تاجر ہیں۔ اپنے والد سے تھوڑا سا جیب خرچ لے کر تجارت شروع کی اور پھر بڑھتے ہی چلے گئے۔ اس وقت وہ اربوں ڈالر کے مالک ہیں۔ ان کے تجارتی مشاغل میں سے ایک مقابلہ حسن بھی ہے جو وہ ہر سال اپنے شوقِ جواں سال کی خاطر منعقد کرواتے ہیں۔ ان سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ اتنے بڑے تاجر ہیں‘ مقابلہ حسن کس لئے کراتے ہیں؟ موصوف نے جواب دیا ''اپنے لئے‘‘۔
مسٹر ٹرمپ نے یہ بات حسِ ظرافت کا مظاہرہ کرنے کے لئے نہیں کی تھی۔ انتخابی مہم کے دوران یہ راز بھی کھل گیا کہ وہ مقابلہ حسن کیوں کراتے ہیں؟ مخالفین نے مسٹر ٹرمپ کا یہ راز افشا کیا کہ وہ محفلوں میں‘ مجلسوں میں‘ دعوتوں میں اور کچھ نہ ہو تو خالی رش میں‘ خواتین کے قریب سے گزرتے ہوئے اپنے ہاتھوں پر قابو نہیں رکھ سکتے۔ جب ان کا یہ راز انتخابی جلسوں میں کھلا‘ تو ان کے ووٹ بڑھتے چلے گئے۔ ہمارے سیاست دان‘ اس میدان میں مسٹر ٹرمپ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ایسی بے حیائی صرف امریکی ہی کر سکتے ہیں۔ ہمارے سیاست دان‘ زیادہ سے زیادہ ٹیلی فون پر مظاہرہ فن کر سکتے ہیں مگر اس کا ذکر کیا جائے‘ تو خفا ہو جاتے ہیں۔ مجھے یوں لگ رہا ہے‘ جیسے میں اپنے ممتاز ترین سیاست دان کو‘ نئے امریکی صدر کے سامنے ذرا ''ماٹھا‘‘ کرکے دکھا رہا ہوں۔ یہ بات ہرگز نہیں۔ عہدِ شباب میں جتنی کشتیاں ہمارے ممتاز سیاست دان نے لڑی ہیں‘ مسٹر ٹرمپ نہیں لڑ پائے ہوں گے۔ سیاست میں آ کر اقتدار کی جتنی بلند کوہ پیمائیاں ہمارے ممتاز ترین سیاست دان ابھی تک کر چکے ہیں‘ مسٹر ٹرمپ شاید بیس سال میں بھی نہ کر پائیں۔ ہم تواپنے شیر کے ساتھ پچیس تیس سال اقتدار کے مزے لے چکے‘ مسٹر ٹرمپ کو تو ابھی‘ پچیس تیس دن انتظار میں گزارنا پڑیں گے۔ ہمارے کسی سیاست دان کو انتظار میں اتنے دن گزارنا پڑیں تو امید ہی میں وہ‘ پِدی بن کر رہ جائے گا۔