تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     12-11-2016

دیواریں کھڑی کرنے والے جیت گئے!

ری پبلکن پارٹی کے نامزد کردہ امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی الیکشن جیت گئے ہیں۔ ایک دن پہلے اونجلین عاطف اپنی ساس کی عیادت کے لئے ہمارے گھر آئی تو وہ نروس تھی۔ وہ ان سینکڑوں رضاکاروں میں شامل تھی‘ جو ٹرمپ کی ڈیموکریٹک حریف ہلری راڈم کلنٹن کے لئے کام کر رہے تھے۔ رات ڈھائی بجے ہلری نے ڈونلڈ کو ٹیلی فون کیا اور اپنی شکست تسلیم کی۔ اس طرح اْس خون خرابے کا خطرہ جاتا رہا جس کا ملفوف وعدہ مسٹر ٹرمپ نے کیا تھا‘ اور سارے انتخابی عمل کے ''رگ‘‘ ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ مسز کلنٹن کو 60212217 پاپولر ووٹ پڑے تھے جبکہ ان کے حریف نے 59875788 پاپولر ووٹ حاصل کئے تھے اور مدمقابل سے 336429 کم ووٹ پا کر بھی وہ فتح یاب قرار دیے گئے‘ کیونکہ ان کے ووٹ‘ الیکٹورل ووٹوں کے ''جادوئی ہندسے‘‘ 270 سے زیادہ تھے۔ یہ رائے عامہ کی بجائے ''سسٹم‘‘ کے سامنے سرنگوں کرنے کے مترادف تھا‘ جو ''ہجوم کی حکومت سے بچنے‘‘ کی ترکیب کے طور پر اختیار کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود ہلری نے اسے ''ہماری جمہوریت کی شان‘‘ کہا۔ اگلے روز صدر اوباما نے بھی انہیں مبارک دینے کے لیے فون کیا‘ مگر سسٹم پر کوئی تنقید نہیں کی۔ ڈیموکریٹ اس سسٹم کی خاطر اور بھی قربانیاں دے چکے ہیں۔ حالیہ تاریخ سے ایک مثال ایل گور کی ہے‘ جنہوں نے سسٹم کی خاطر جارج بش سے شکست کھائی تھی۔ اس انتخابی نتیجے کے خلاف وائٹ ہاؤس کے سامنے اور کچھ دوسرے شہروں میں چھوٹے چھوٹے مظاہروں سے قطع نظر‘ یہ روایت اتنی پرانی اور مستحکم ہے کہ اس پر کوئی مباحثہ کامیاب نہیں ہوتا۔ کانگرس کے دونوں ایوانوں میں بھی ریپبلکن اکثریت برقرار رہے گی مگر منتخب صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں جو وعدے کئے ہیں انہیں کون پورا کرے گا؟ 
ستر سالہ ارب پتی‘ جنہیں حکومت کا کوئی تجربہ نہیں‘ تعمیرات اور ٹیلی وژن میں نام کماتے ہیں اور گوری ورکنگ کلاس کو مزید نوکریوں کا یقین دلا چکے ہیں‘ مگر ان کا کہنا ہے کہ وہ ملک کو ایک کمپنی کی طرح چلائیں گے۔ تجدید و ترقی میں ان کا تازہ ترین شاہکار وائٹ ہاؤس کے بازو میں ڈاک خانے کی بوسیدہ عمارت تھی‘ جسے خرید کر انہوں نے جدید سہولتوں سے لیس ایک مہنگے ہوٹل میں بدل دیا۔ چند انتخابی ووٹوں سے ہلری کلنٹن کی شکست سے ظاہر ہوا کہ مقابلہ کانٹے کا تھا اور نتیجے میں دو باتیں ثابت ہوتی ہیں: اول‘ امریکی تاریخ میں پہلی بار ایک سیاہ فام کے بعد ایک عورت‘ ملک کی صدر اور کمانڈر انچیف بنتے بنتے رہ گئیں‘ اور دوم‘ وہ بڑی حد تک دنیا میں صدر بارک حسین اوباما کی پالیسی جاری رکھنے کی ضامن ہو سکتی تھیں۔ رائے دہندگان نے حالات کو جوں کا توں رکھنے کا نظریہ تو مسترد کر دیا مگر ایک قوم کو متحد کرنے کا سوال فتح سے بھی زیادہ سخت ہو گا۔ مسٹر ٹرمپ نے امریکہ کو کالے اور گورے میں تقسیم کرنے کی ملفوف کوشش کی تھی اور انہیں بعض طاقت ور ریپبلکن ووٹ بھی حاصل نہیں تھے۔ ایک سال پہلے ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز مسلمانوں‘ سابق فوجیوں‘ کالوں اور دوسرے رنگدار لوگوں کو گالی دے کر اور عورتوں کا منہ چڑا کر کیا تھا۔ امیدواروں کے مباحثے‘ جو عوامی مسائل سے کورے اور ذاتی توہین سے پْر تھے‘ امیدواروں کی تعداد کم کرنے کے سوا کچھ نہ کر سکے۔ بطور وزیر خارجہ مسز کلنٹن کی ای میل کے افشا کے لامتناہی سلسلے‘ غیر ملکی جاسوسوں کی مداخلت اور وفاقی پولیس کی جانب سے الزامات کی تفتیش‘ جو غالباً منگل کے طے شدہ انتخابی دن سے آگے تک جائے گی‘ ان کے علاوہ ہیں۔ وہ چھوٹے اور دور افتادہ ملک‘ جو امید کرتے ہیں کہ امریکہ جمہوری اقدار کے لئے سینہ سپر ہو گا‘ انتخابات میں ان کی پامالی پر حیران تھے‘ اور آزاد صحافت‘ قانون کی حکمرانی‘ سب کچھ عام انتخابات کی رو میں بہہ گیا ہے۔ دیرینہ اتحادی بالخصوص مغربی یورپ کی قومیں سوچ رہی ہیں کہ آیا بنیادی امریکی کردار بدل گیا ہے اور کیا وہ بوقت ضرورت کام آ سکتا ہے؟
یہ قدامت پسندی (کنزروٹزم) کے مقابلے میں روشن خیالی (لبرل ازم) کی ہار بھی ہے۔ پینتالیسویں صدر ٹرمپ کا نعرہ تھا کہ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں گے۔ ہلری نے جواب دیا: اگر امریکہ کی اساسی اقدار ہی بحال کر لو تو غنیمت سمجھا جائے گا۔ ٹرمپ نے کہا: میکسیکو کے لوگو ں کو اپنے ملک کے اندر رکھنے کے لئے ہم ایک دیوار بنائیں گے (اور بل میکسیکو کی حکومت کو بھیجیں گے) انہیں جواب ملا کہ ہم بل ادا نہیں کریں گے۔ ہلری کا جواب تھا: ہم دیواریں نہیں پل بناتے ہیں۔ سانحہ پیرس سے اگلے دن ٹرمپ نے کہا: امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ مشروط کر دیا جائے‘ اور اس پر تمام تارک وطن خوفزدہ ہیں۔ پاکستان کو اس انتخابی نتیجے کا کیا فائدہ ہو گا؟ کچھ نہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پہلے ہی متوازن ہو رہے ہیں اور ان میں ''امداد‘‘ کا عنصر کم ہو گیا ہے۔ مسز کلنٹن نے مسلمانوں کے ووٹ پر انحصار کیا جبکہ ان کے حریف کا تکیہ ہندو ووٹ پر تھا اور آخر میں ایک وڈیو میں ہندی بھی جھاڑی تھی (اب کی بار مودی سرکار) ہلری کا زیادہ انحصار لاطینو اور ٹرمپ کا زیادہ تکیہ گوروں کی لہر (سرج) پر تھا۔ چین اور روس امریکہ کے خالی کردہ میدان میں داخل ہو رہے ہیں اور پاکستان تاخیر سے سہی دونوں کا خیر مقدم کر رہا ہے۔ اقتصادی راہداری کے چینی منصوبے کی دیکھا دیکھی یورپ بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ایک کنسورشیم نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان میں موٹر سازی کا ایک کارخانہ قائم کیا جائے گا۔ امریکی معیشت کی بنیاد بھی موٹر سازی کی صنعت نے رکھی تھی جبکہ پہلا کارخانہ مشی گن میں قائم ہوا۔ 
سربراہ حکومت (مملکت) کا دورہ اس وقت ہوتا ہے جب دونوں ملکوں کے تعلقات خوشگوار ہوتے ہیں‘ اور ایک یا ایک سے زیادہ معاہدے دونوں حکومتوں کے سربراہوں کے دستخط کے منتظر ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد پہلا سرکاری دورہ ایک ریپبلکن صدر آئزن ہاور نے کیا‘ جو اس ملک کے جنگی ہیرو تھے۔ ڈیموکریٹ جان کینیڈی خود تو نہ آ سکے مگر انہوں نے اپنی اہلیہ
جیکی کو کراچی بھیجا اور صدر محمد ایوب خان نے ان کا بھی خیر مقدم کیا۔ پھر انہوں نے اپنے نائب لنڈن جانسن کو کراچی بھیجا۔ وہ پاکستانی ساربان بشیر کو امریکہ لے گئے اور تعلقات عامہ کے دوسرے کام بھی کئے۔ جنرل محمد یحییٰ پاکستان کے واحد صدر تھے‘ جنہوں نے پاکستان نہیں بلکہ امریکہ کی ا مداد کی۔ ریپبلکن صدر رچرڈ نکسن کے دورہء چین کو خفیہ رکھا‘ اور یوں امریکہ اور چین میں تجارتی تعلقات شروع ہوئے۔ اس کے بعد سات ڈیموکریٹ اور ریپبلکن صدر ہوئے مگر کوئی امریکی سربراہ پاکستان کے دورے پر نہیں گیا۔ نکسن نے بھی لاہور میں یحییٰ سے ملاقات کی تھی۔ اگر مسٹر ٹرمپ سچے ریپبلکن ہیں اور پاکستان سے انہیں واقعی محبت ہے تو 20 جنوری کو منصب کا حلف اٹھانے کے بعد وہ اسلام آباد جائیں اور ہندوستان کے ساتھ اس کا جھگڑا چکائیں۔ آخر امیرالبحر چسٹر نمٹز امریکی ہی تھے‘ جنہیں اقوام متحدہ نے کشمیر میں رائے شماری کا کام سونپا تھا‘ اور جو ہندوستان کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی اچانک موت اور دونوں ملکوں میں تعلقات کے بگاڑ کے باعث ادھورا رہ گیا۔ قائد اعظم کا وہ خواب کہاں گیا‘ جس کے بارے میں انہوں نے ایک امریکی اخبار نویس کو بتایا تھا کہ جب پاکستان بنے گا تو ہندوستان سے اس کے تعلقات ویسے ہوں گے جیسے کہ امریکہ اور کینیڈا کے ہیں۔ اگر نئے صدر کشمیر اور فلسطین کے حل کو پٹڑی پر چڑھا سکیں تو ان کا صدارتی ورثہ سنور جائے گا۔
بیلٹ پر دو سیاسی پارٹیوں کے علاوہ اور نام بھی تھے‘ جو ظاہر کرتے تھے کہ ملک میں اور پارٹیاں بھی ہیں‘ مگر ان کا کوئی نام نہیں لیتا۔ لبرٹیریئن اور گرین پارٹیوں کے امیدوار کھڑے تھے۔ آزاد امیدوار ان کے علاوہ تھے۔ رائے دہندگان کو ''رائٹ ان‘‘ کی بھی سہولت دی گئی تھی‘ جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ جسے چاہیں ووٹ دیں۔ یہ ایک آزاد امیدوار ( برنی سینڈرز) ہی تھا جس نے ہلری کلنٹن کی انتخابی مہم پر زبردست اثر ڈالا۔ نئے ووٹر‘ جو ابھی کالجوں میں تھے‘ اس کے شیدائی تھے کیونکہ وہ فیس کی معافی اور صحت کے مفت بیمے کی بات کرتا تھا۔ وہ بالآخر ہلری کے حق میں بیٹھ گیا‘ کیونکہ اس کے پاس بڑی عمر کے ووٹ نہیں تھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved