تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     12-11-2016

وزیر ِاعلیٰ کے نام ایک خط

جب وفاقی وزیر ریلوے ،سعد رفیق نے حال ہی میں آپ کی پارٹی سے کہا کہ وفاقی حکومت پر تنقید کرنے سے پہلے اپنی سندھ حکومت کی افسوس ناک کارکردگی میں کچھ تو بہتری لائیں تویہ بات تلخ،لیکن درست تھی۔ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اس شہر، جسے میں اپنا گھر قرار دیتا ہوں، کو ناقص گورننس کی ایک مثال بنا کر پیش کیا جائے ، لیکن میری حقیقت پسند فطرت کو یہ تسلیم کرتے ہی بنتے ہے کہ کراچی کا شمار اُن گندے ترین بڑے شہروں میں ہوتا ہے جو میں نے کبھی دیکھے ہوں۔بہت سی سڑکوں کے کنارے لگے گندگی کے ڈھیرایک ایسی حقیقت ہیں جنہیں قالین کے نیچے نہیں چھپایا جاسکتا۔ 
مجھے احساس ہے کہ آپ کو ابھی حال میں وزیر ِاعلیٰ سندھ نامزد کیا گیا ہے،چنانچہ آپ کو مسائل کا انبار وراثت میں ملا ہے ۔ اس دوران یہ بھی ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ کم و بیش غیر فعال قائم علی شاہ کو اتنے عرصے تک اس اہم عہدے پر فائز رکھنے سے عوام کو اس بات کا پتہ چل گیا کہ پی پی پی گڈ گورننس کو کتنی ترجیح دیتی ہے ۔اگر آپ خیال کرتے ہیں کہ میں مبالغہ آرائی سے کام لے رہا ہوں تو اجازت دیجیے ، میں آپ کو کراچی کا چکر لگواتا ہوں اور پھر ہم اپنی سڑکوں پر بکھری گندگی، گڑھے اور خستہ حالی کواپنی آنکھوںسے دیکھیں گے ۔ یا پھر آپ اس شہر کے پلانر، عارف حسن کو اپنے ہمرا ہ لے لیں۔ اُنھوںنے حال ہی میں ایک انگریز ی اخبار میں اس موضوع قلم بہت کچھ لکھا ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ آپ کے بہت اچھے گائیڈ ہوں گے ۔
میں جب بھی لاہور جاتا ہوںتو مجھے احساس ہوتا ہے کہ صفائی اور انتظام کے حوالے سے کراچی کتنا پیچھے رہ گیا ہے ۔ یاد ہوگا، 80ء کی دہائی میں میرے لاہور ی دوست پاکستان کے سب سے بڑے شہر،کراچی کو رشک بھری نظروںسے دیکھتے اور اسے ایک ماڈل شہر سمجھتے، تاہم آج شہر کو اس حالت میں دیکھ کر ہمیں خود تاسف آمیز غصہ آتا ہے ۔ یہ بات درست ہے کہ گزشتہ تین عشروںسے کراچی نے بے پناہ تشدد اور شورش جھیلی ہے ۔ آج یہ شہر جس نہج کو پہنچا ، اُس کی ذمہ داری پی پی پی اور ایم کیو ایم، دونوں پر عائد ہوتی ہے ۔ دوسری طرف اندرون سندھ کی حالت بھی بہت اچھی نہیں، اسے بھی افسوس ناک حد تک نظر انداز کیا گیا ۔ سیاسی مداخلت نے پولیس اور سول انتظامیہ کو مفلوج کررکھا ہے ۔ 
سندھ میں ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ پنجاب نے اس لیے زیادہ ترقی ہے کیونکہ وہ ترقیاتی اسکیموںپر زیادہ رقم خرچ کرتا ہے ۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ 2016-17ء میں سندھ کا ترقیاتی بجٹ 865 بلین روپے ، جبکہ پنجاب کا صرف 550 بلین روپے ہے ۔ چونکہ آبادی کے لحاظ سے سندھ پنجاب کی نسبت بہت چھوٹا ہے ، اس لیے اعدادوشمار یہ کہتے ہیں کہ سندھ میں یہ رقم ساڑھے پندرہ ہزار فی کس تقسیم ہوتی ہے ، جبکہ پنجاب میں فی کس حصہ صرف پانچ سوچوالیس روپے بنتا ہے ۔ ایک اخبار ہمیں اطلاع دیتا ہے کہ گزشتہ اپریل کے اختتام تک ، جبکہ مالی سال ختم ہونے میں صرف دوماہ باقی تھے، سندھ اپنے ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کردہ رقم کا صرف 43 فیصد ہی خرچ کرپایا۔ چنانچہ بدعنوانی کے علاوہ عشروںسے جاری ناقص ایڈمنسٹریشن نے بھی صوبے کی حالت بگاڑکر رکھ دی ہے ۔ 
میں ایک سال یا کچھ عرصہ پہلے کی ایک مثال دیتا ہوں۔ میری ملاقات ایک نوجوان ڈسٹرکٹ کمشنر سے ہوئی جنہوں نے پنجاب میں بھی خدمات سرانجام دی تھیں، اور اب وہ اپنے آبائی صوبے ،سندھ میں تعینات تھے ۔ میں نے دونوں مقامات پر کام کرنے کے تجربے کے بابت دریافت کیا تو اُنھوںنے بتایا کہ پنجاب میں ڈسٹرکٹ کمشنرز کو ٹھیک صبح ساڑھے سات بجے وزیرِاعلیٰ کا پرائیویٹ سیکرٹری لینڈ لائن پر فون کرکے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ وہ اپنے دفاتر میں موجود ہیں۔ دوسری طرف سندھ میں کوئی اس بات کی زحمت ہی نہیں کرتا، چنانچہ وہ بڑے آرام سے کوئی گیارہ بجے دفتر جاتے ہیں۔ 
محترم وزیر ِاعلیٰ صاحب، بدعنوانی کی بہت سی مثالیں ہیں جن کا آپ کے پیش رو بوجوہ تدارک کرنے میں ناکام رہے ۔ پانی کی مثال لے ہیں،آپ کے بہت سے دوست کراچی کے سب سے مہنگے علاقے، ڈیفنس سوسائٹی میں رہتے ہوںگے، ذرا اُن سے پوچھ کر دیکھیں کہ کیا اُن کے نلکوں میں پانی آتا ہے ؟یہ اسکینڈل اتنی دیر سے جاری ہے کہ ہم اسے زندگی کا ایک معمول سمجھنے لگے ہیں۔ یقینا کوئی بھی پیاس سے نہیں مررہا، دولت مند افراد اپنے باغات کو پانی سے سیراب کرتے ہیں، اُن کے سوئمنگ پول پانی سے لبریز ہیں، چنانچہ پانی کی قلت نہیں،لیکن یہ ملتا رقم خرچ کرکے ہے ۔ ہزاروںروپے خرچ کریں ، آپ کے گھر پانی کا ٹینکر پہنچ جائے گا۔ 
کسی اور بڑے شہر کو اس مسئلے کا سامنا نہیںکیونکہ یہ مسئلہ قدرتی نہیں، مصنوعی ہے ۔ بہت سے مافیا واٹر ٹینکرز سے پانی کی سپلائی کو کنٹرول کرتے ہیں۔ شہر کے افسران بھی اُن سے اغماض برتتے ہیں۔ مقتدر ادارہ، جو ہائوسنگ سوسائٹیز چلانے کابھی قابل ِفخر اعزاز رکھتا ہے ، اسے حل کرنے میں تاحال ناکام ہے ۔ اسی طرح شہری اور صوبائی حکومتیںبھی بے بس دکھائی دیتی ہیں۔ چند سال پہلے کچھ انگریز سیاح کراچی میں بسوںکی چھتوں پر لوگوںکو سفر کرتے دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے ۔ پہلے تو اُنھوں نے گمان کیا کہ شاید یہ کسی ایکشن مووی کی سین بندی ہے ، لیکن جب پتہ چلا کہ ''عوام ‘‘ ہیں تو اُنھوںنے اپنی کار روکی اور اُن کی کئی ایک تصاویر اتاریں اور انگلینڈ اور سری لنکا میں اپنے دوستوں کو یہ حیران کن منظر دکھایا۔ خوش قسمتی سے اُنھوں نے ہماری گلیوں میں موجود گندگی کے ڈھیروں پر اپنے کیمرے نہ آزمائے ۔ 
میں جانتا ہوں کہ آپ پاکستان بھر سے اس شہر میں آئے ہوئے انسانوں کے سمندر میں بہتر زندگی کی مٹھاس گھولنے کے لیے بہت کچھ نہیں کرسکتے ۔ اس کے ہر طرف کچی آبادیوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، شہر اونچی، بدنما اور تاریک عمارتوں کے بلاکس میں کہیں چھپ گیا ہے اورآ بادی کے بے پناہ دبائو کی وجہ سے کراچی میں شہری سہولیات کی کچی ڈور ٹوٹنے کے قریب ہے ۔ یہ سب اپنی جگہ پر، لیکن سڑکوں پر کارڈیلرز کے قبضے کا کیا جواز ہے ؟پیدل چلنے والوں کے لیے راستہ کیوں نہیں بچا؟ کیا ہم نے یہ سڑکیں کارشورمز میں تبدیل کرنے کے لیے بنائی تھیں ؟یقینا ان تمام مسائل کا حل آپ کی پہنچ سے باہر ہے، لیکن آپ کم از کم کارڈیلروںسے فٹ پاتھ تو واگزار کراسکتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved