تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     13-11-2016

امریکی المیہ

سب کچھ اتنا عجیب سا اور غیر حقیقی معلوم ہو رہا ہے۔ صدمے کی وجہ سے ہمارے اعصاب شل ہو رہے ہیں۔ انتہائی دکھ محسوس ہو رہا ہے۔ ہمیں تو امید یہ تھی کہ آٹھ نومبر کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل ہمیں پھر کہیں دکھائی نہیں دے گی۔ پچھلے تین مہینے ہم نے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ڈونلڈ ٹرمپ کی اصلیت کے بارے میں ماہرین کی آرا سننے میں ضائع کئے۔ یہ شخص اپنی زن بیزاری، نسلی تعصب، جابرانہ اطوار اور تمسخرانہ حد تک بے لگام زبان کے لئے بدنام ہے۔ گو بعض اوقات اس کی حماقتیں ہمارے لئے محظوظ کن بھی رہی ہیں، لیکن قوی امید ہمیں یہی تھی کہ انتخابات میں یہ شخص شرمناک شکست سے دوچار ہو گا؛ تاہم اس کی بجائے شکست کا بار بیچاری ہلری کلنٹن کو اٹھانا پڑا ہے۔ ہمیں اس خاتون کے لئے بہت افسوس ہو رہا ہے۔ ہمیں یقین نہیں آرہا کہ اٹھاون فی صد امریکی اس شخص ہی کا حقیقی پرتو ہیں جسے انہوں نے چُنا ہے۔ ایک بدلتے ہوئے امریکہ کے بارے میں اس سے کیا پتہ چلتا ہے؟ ہمیں امریکہ کے وسط مغربی علاقے سے ایک ڈاکٹر کی ای میل موصول ہوئی ہے جنہوں نے ہلری کلنٹن کی شکست کے اسباب کی تشریح اپنی سوچ کے لحاظ سے کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر انہیں عہدہء صدارت کے حصول کے حوالے سے ہلری کلنٹن کی کاوشوں کے لئے کسی لفظِ واحد کا انتخاب کرنا پڑے تو وہ انہیں ''ساکھ سے عاری‘‘ یا ''غیر معتبر‘‘ ٹھہرائیں گے۔ بقول ان کے لوگوں کو ہلری پہ اعتبار نہیں۔ ان کے شوہر کے خلاف عوامی جذبات کا بھی اس سارے معاملے میں ایک کردار رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نامزدگیوں کے لئے ہونے والے انتخابات کے وقت سے اس بارے میں عام امریکیوں سے بات کرتے رہے ہیں۔ ان میں اکثریت ان کے مریضوں کی تھی۔ ان کے علاوہ عام مزدوروں اور مکینکوں سے بھی ان کی بات ہوتی رہی ہے‘ جن سے انہوں نے ہلری کلنٹن کی جیت کے امکانات کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ ان سب کا ایک ہی جواب رہا۔ سبھی نے یکساں طور ہلری کو غیر معتبر اور دروغ گو قرار دیا۔ ہلری کلنٹن کے ای میل سرور کے مسئلے نے اس خیال کو مزید تقویت دی ہے۔ دوسری بات یہ کہ انہوں نے صدر اوباما کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرکے بہت بڑی غلطی کی۔ بارک اوباما کم تعلیم یافتہ مگر محنت مزدوری کرنے والے سفید فام مردوں اور عورتوں کی نظر میں ایک ناکام صدر رہے ہیں‘ جو ان لوگوں کو غربت کی دلدل سے نکال نہیں پائے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ہلری کلنٹن اشرافیہ کے حلقے میں دکھائی دیتی رہی ہیں اور اس وجہ سے عام آدمی نے ان سے مزید اجنبیت محسوس کی۔ ان کے مقابل ڈونلڈ ٹرمپ نے صرف اپنا آپ عوام کے سامنے پیش کیا۔ آٹھ نومبر کو سفید فام امریکیوں کی ایک بڑی تعداد ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں ووٹ ڈال کر ایک انقلاب برپا کرنے باہر نکلی۔ ہلری کلنٹن نے ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کو ناپسندیدہ اور قابلِ مذمت لوگوں کی ٹولی قرار دیا تھا، لیکن نیویارک اور واشنگٹن میں بیٹھے سیاسی پنڈت اور ماہر تجزیہ نگار ایسی ٹولیوں کے ممکنہ سیلاب سے بے خبر ہی رہ گئے۔ ان لوگوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی صدارت کا تاج تو پہنا دیا ہے لیکن سوال اب یہ ہے کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ ان کی امیدوں پہ پورا بھی اتر سکے گا؟ یہی وہ بات ہے کہ جو ایک امریکی المیے کے امکان کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو وائٹ ہائوس پہنچانے والے وہ غریب لوگ ہیں جو صدر اوباما کے ایسے معاشی منصوبوں کے ڈسے ہوئے ہیں‘ جن کا بڑا فائدہ مالدار طبقے کو فوری طور پر حاصل ہو جاتا ہے‘ لیکن غریب طبقے تک ان کے فوائد کم مقدار میں بتدریج پہنچ پاتے ہیں۔ چنانچہ ڈونلڈ ٹرمپ جب امیروں کو امیر تر اور غریبوں کو غریب ترین بنانے لگے گا تو یہی لوگ سب سے پہلے محسوس کریں گے کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ عالمی سطح پر بھی ذرا تصور کیجئے کہ امریکہ میں ایک ایسا آدمی جوہری دھماکوں کے بارے میں فیصلے کا مجاز ہو گا اور یہ طے کرے گا کہ کون سا ملک امریکی بالادستی کو للکار رہا ہے کہ جو خود منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا اور جس کی تربیت بچپن ہی سے ایک جھوٹے اور متعصب شخص کے طور پر ہوئی۔ پاکستان آئے ہوئے ایک پاکستانی نژاد امریکی سے جب پوچھا گیا کہ اب امریکہ میں مسلمانوں کی قسمت کیا ہو گی تو اس کا کہنا تھا کہ کچھ بھی نہیں ہو گا۔ پاکستانی نژاد امریکی نواز شریف کے زیرِ اقتدار کرپٹ، کثرتِ آبادی کے شکار گند اور آلودگی سے اٹے پاکستان میں لوٹ آنے کی بجائے ٹرمپ کے زیرِ اقتدار امریکہ میں رہنا زیادہ پسند کریں گے۔ ہماری ایک امریکی پڑوسی خاتون کہتی ہیں کہ ٹرمپ کے حامی جس طرح کونوں کھدروں سے اُمڈ اُمڈ کر ووٹ ڈالنے آئے تو یہ سب کچھ دیکھ کر ان کا دل خراب ہو رہا تھا۔ انہیں یہ تسلیم کرنے میں دشواری ہو رہی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ ڈالنے نکلے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ کسی بھی ایسے ملک میں نہیں رہنا چاہتیں جہاں ایسے جاہل، متعصب اور زن بیزار لوگوں کی اکثریت ہے‘ جو ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص کی حمایت کرتے ہیں۔ ''یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ مذہب سے ہلکا سا تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص کس طرح ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے ووٹ ڈال سکتا ہے؟ کسی بھی عورت کا ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے ووٹ ڈالنا ایک ایسی بات ہے جو عقل تسلیم ہی نہیں کرتی‘‘۔ عالمی امن کے لئے بھی یہ کوئی نیک شگون نہیں۔ روسی صدر پوٹن پھولے نہیں سما رہے ہوں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اعلان کہ وہ مسلمانوں کو امریکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے بذاتِ خود امریکی دستور کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
لندن میں رہنے والے ایک پاکستانی نے ہمیں ای میل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ امریکی مسائل کی بنیاد پر نہیں بلکہ جذباتیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹ ڈالتے ہیں۔ بالکل آخری لمحات میں ایف بی آئی کی تحقیقات والا معاملہ بھی ووٹوں کے توازن پہ یقیناً اثر انداز ہوا ہو گا۔ ایف بی آئی کی جانب سے ہلری کلنٹن کی برّیت کے اظہار سے قبل ہی چار ملین ووٹ ڈالے جا چکے تھے۔ اس وجہ سے ایک رجحان کا آغاز پہلے ہی سے ہو گیا تھا۔ اس کے بعد پھر بھیڑ چال شروع ہو گئی۔ اب اگر انسان کھلم کھلا اپنے نسلی تعصب کا اظہار کرتا پھرے، بے چاری عورتوں کے جسمانی استحصال کے فخریہ تذکرے کرتا ہو، مسلمانوں اور لاطینی نسل کے لوگوں کے لئے تنفر کا اظہار کرتا ہو، خود ذہنی عدم تحفظ کا شکار ہو، دھوکہ دہی میں ملوث ہو، جھوٹ بولنے کا عادی ہو، ریاستی نظم و نسق چلانے کا تجربہ اس کا صفر ہو اور بے سوچے سمجھے جو منہ میں آئے بک دیتا ہو تو یہ سب کرتا رہے کیونکہ یہی باتیں اب امریکی صدارت کے امیدوار کی ساکھ کے لئے مثبت ٹھہر گئی ہیں۔ پاکستان میں ہمارے ایک ڈاکٹر دوست ہیں جنہوں نے اس سارے معاملے کے ایک الگ ہی پہلو پہ توجہ مرکوز رکھی ہے۔ انہیں ہمیشہ سے یقین تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ہی وائٹ ہائوس کے نئے مکین ہوں گے۔ اپنی ای میل میں انہوں نے ہم سے مبارکباد طلب کی ہے۔ فلوریڈا میں رہنے والے اپنے ایک دوست کو انہوں نے تحریک بھی کی تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسلام مخالف ہی سہی اور چاہے وہ انہیں ناپسند ہی ہو‘ پھر بھی ووٹ انہیں اسے ہی ڈالنا چاہئے۔ ہمارے ان دوست کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھارت اور ایران دونوں ہی کے لئے ایک بڑی خبر ہے۔ ایران کو اس کا احساس بھی ہے لیکن بھارت اس سے بے خبر ہے؛ تاہم ڈونالڈ ٹرمپ کی اصل پالیسیاں ابھی نہیں بلکہ جون سن دو ہزار سترہ تک ظاہر ہوں گی۔ ایک اور پاکستانی نژاد امریکی ہیں جو نیویارک ٹائمز میں باقاعدگی سے لکھتے رہتے ہیں۔ انہوں نے بھی ٹرمپ کی جیت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں‘ ''اس ملک کا منتخب لیڈر اب ایک ایسا شخص ہے جس نے علی الاعلان ہمارے لوگوں کے اس ملک میں داخلے پہ پابندی لگانے کے ارادے ظاہر کئے ہیں۔ ہمیں امید تو یہ تھی کہ اگلی صبح جب ہماری آنکھ کھلے گی تو امریکہ میں پہلی خاتون صدر کے انتخاب کی خوش خبری ہم سنیں گے‘ لیکن جو کچھ ہمارے کانوں نے سنا وہ موت کے آوازے سے کم نہیں۔ اٹھاون فی صد سفید فام امریکیوں نے جس طرح ایک انتہائی نااہل شخص کی حمایت کی ہے اسے ہم اور کیا سمجھیں؟ یہ شخص ہمارے لوگوں کی انتہائی چھان بین کی باتیں کرتا رہا ہے، لاطینی نسل کے افراد کو عادی جنسی غاصب قرار دیتا ہے اور عورتوں کی تحقیر سے کبھی باز نہیں آتا! میں ایک امریکی مسلمان ہوں، ایک باپ ہوں، ایک شوہر ہوں، میرے والدین پاکستان سے نقل مکانی کرکے امریکہ میں آباد ہوئے۔ آخر مجھے کس طرح محسوس ہو گا کہ امریکہ اب عظیم تر ہو گیا ہے؟ بلکہ کیا یہ احساس اب کبھی بھی مجھے ہو سکے گا؟‘‘
اس موضوع پہ انہی کالموں میں بات جاری رہے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved