تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     13-11-2016

…محترمہ کلثوم نواز ہی مداخلت فرمائیں!!

یہ کرب محض جسٹس(ر) ناصرہ جاوید اقبال کا نہ تھا‘ محفل میں موجود سبھی خواتین و حضرات اس میں شریک تھے۔ نہر کنارے رومی فورم کے ہیڈ آفس میں‘ یہ علامہ کی یاد میں محفل تھی۔ 15جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد ترکی میں فتح اللہ گولن کی حزمت موومنٹ کریک ڈائون کی زد میں آئی تو لگتا تھا کہ پاکستان میں رومی فورم اور پاک ترک ایجوکیشن فورم جیسے اداروں کے لیے بھی کام کرنا مشکل ہو جائے گا لیکن الحمد للہ خیریت رہی۔ آج بھی پاکستان کے گیارہ شہروں میں‘ اٹھائیس پاک ترک سکول‘دس ہزار طلباء طالبات کوزیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں۔ یہاں پندرہ سو کے لگ بھگ اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ اور تربیت یافتہ سٹاف میں 95فیصد سے زائد پاکستانی ہیں۔ رومی فورم پیر رومی اور اقبال کی فکر کے فروغ کے لیے ایک انٹلیکچوئل فورم ہے‘ جس کے لیے مسٹر مسعود ڈائیلاگ‘ ڈسکشن اور سیمینارز کا اہتمام کرتے رہتے ہیں‘ خواتین میں ان کی اہلیہ میرال مسعود سرگرم رہتی ہیں۔
اس محفل میں شریک خواتین و حضرات میں سبھی اقبال شناس تھے۔(ایک یہ کالم نگار تھا جسے اس حوالے سے طفلِ مکتب کہہ لیں)محفل میں محترمہ ناصرہ جاوید اقبال مرکزِ نگاہ تھیں‘ علامہ کی بہو علم و فضل کے حوالے سے اپنا حوالہ بھی رکھتی ہیں۔ اس طرح کی محفل ہو یا کوئی بڑا سیمینار‘ ان کی گفتگو کی اپنی آن بان اور شان ہوتی ہے۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک ''مصرع‘‘ میں پوری ''غزل‘‘ کہہ جاتی ہیں‘ وہ جو دریا کو کوزے میں بند کرنا کہا جاتا ہے''لوگ پہلے وکیل کیا کرتے تھے‘ اب جج کر لیتے ہیں‘‘ والی بات سب سے پہلے ناصرہ جاوید اقبال ہی نے کہی تھی‘ الطاف صاحب کو یاد ہے‘ پاکستان کے عدالتی نظام پر‘ برسوں پہلے یہ ''پائنا‘‘ کے زیر اہتمام سیمینار تھا‘ جس میں ناصرہ نے یہ بات کہی اور پھر یہ زبان زدِ عام و خواص ہو گئی۔ ؎
ہم نے جو طرزِ فغاں کی تھی قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے
رومی فورم کے زیر اہتمام اس نشست میں محترمہ ناصرہ جاوید اقبال نے اپنی گفتگو کا آغاز علامہ کے حوالے سے بعض غیر حقیقی قصے کہانیوں کی تردید سے کیا‘ مثلاً علامہ کے والدِ محترم نے ملازمت کر لی تو والدہ نے اس اندیشے کی بنیاد پر کہ ان کی تنخواہ میں کوئی حرام کا عنصر بھی ہو سکتا ہے‘ ننھے اقبال کی پرورش کے لیے ایک بکری پال لی اور اس میں بھی یہ احتیاط کہ اس کا چارہ خالصتاً حلال سے ہو۔ محترمہ کا کہنا تھا‘ اقبال کے والدِ گرامی شیخ نور محمد نے کبھی ملازمت کی ہی نہ تھی۔ وہ درزی تھے اور (اُس دور میں) برصغیر کی مسلم خواتین میں مروج''شٹل کاک‘‘ برقعے کی ٹوپیاں سیا کرتے۔ صوم و صلٰوۃ کے پابند‘ صوفی منش شیخ نور محمد رزقِ حلال کے بارے میں ساری عمر محتاط اور حساس رہے۔
''اُم الخبائث‘‘ سے علامہ کو ہمیشہ نفرت رہی۔ ایک بار کوئی سردار جی ملنے آیا یہ علامہ کے آرام کا وقت تھا۔ علی بخش نے انتظار کے لیے برآمدے میں بٹھا دیا اور اس کی خواہش پر پانی اور گلاس لا دیا۔ ''بوتل‘‘ وہ اپنے ساتھ لایا تھا جس کا علی بخش کو علم نہ تھا۔ اسی اثناء میں علامہ جاگ گئے تھے۔ کھڑکی سے سردار جی کو مے نوشی کرتے دیکھا تو علی بخش کو بلا کر سخت ڈانٹ ڈپٹ کی اور سردار جی کو گھر سے نکال دینے کا حکم دیا۔
آخر بات یوم اقبال کی تعطیل تک پہنچ گئی۔1977ء تک ‘ یوم اقبال کی سرکاری تعطیل 21اپریل کو ہوتی تھی(علامہ کا یوم وفات) فیلڈ مارشل ایوب خاں کے دور میں‘ آمریت کی گھٹن میں یہ تازہ ہوا کاجھونکا ہوتا۔ لوگ پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے وسیع و عریض ہال میں منعقد ہونے والے یوم اقبال کا سال بھر انتظار کرتے۔ آغا شورش کاشمیری نقیبِ مجلس ہوتے۔ فرزندِ اقبال ‘ ڈاکٹر جاوید اقبال خصوصی مقالہ پڑھتے۔ آمر کی چٹکیاں لیتے اور آمریت تلملا کر رہ جاتی۔ ایسی ہی ایک تقریب کے مہمانِ خصوصی سید مودودیؒ تھے۔
طویل ریسرچ کے بعد 9نومبر علامہ کا یومِ پیدائش قرار پایا تو 1977ء سے اسے سرکاری سطح پر یوم اقبال کا درجہ حاصل ہو گیا ۔نیا سال آتا ہے تو یکم جنوری کو سال بھر کی گزٹیڈ تعطیلات کا اعلان بھی ہو جاتا ہے۔ گزشتہ سال2015ء کی اعلان کردہ تعطیلات میں 9نومبر بھی تھا‘ جسے بعد میں منسوخ کر دیا گیا ترقی کے لیے قوم کو چھٹیوں کی نہیں‘ کام کام اور کام کی ضرورت ہے اور اس میں جو واحد تعطیل کام آئی‘ وہ بے چارہ یوم اقبال تھا۔ 
اس سال 2016ء کی سرکاری تعطیلات میں 9نومبر شامل نہ تھا۔ لیکن اِدھر نومبر آیا‘ اور اُدھر کسی ستم ظریف نے 9نومبر کی سرکاری تعطیل کا جعلی سرکاری نوٹیفکیشن ''جاری‘‘ کر دیا‘ فرض شناس وزارتِ داخلہ نے جس کی تردید میں تاخیر نہ کی۔
اور پھر9نومبر کو قومی منظر یہ تھا کہ دو صوبوں میں یوم اقبال پر سرکاری تعطیل تھی جبکہ وفاق اور دو صوبوں میں یہ ورکنگ ڈے تھا۔ بیگم ناصرہ کا کہنا تھا‘ چھٹی ہو یا نہ ہو‘ لیکن اقبال کو متنازع تو نہ بنائو۔ حکومت پنجاب نے علامہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا نرالا ڈھنگ نکالا۔ یوم اقبال سے ایک روز پہلے8نومبر کو اخبارات کے صفحۂ اول پر نصف صفحے کا اشتہار‘ علامہ کی بڑی سی تصویر کے ساتھ جناب وزیر اعظم اور خادم پنجاب کی تصاویر اور اس کے ساتھ یہ الفاظ''عظیم قومی ورثہ کے تحفظ کا عزم... تاریخی پس منظر‘ کل نیا منظر لیے‘‘ اس اشتہار کا مطلب اور مفہوم کیا تھا؟
محفل میں بعض تعلیمی اداروں کے اساتذہ بھی تھے۔ ان کے بقول‘ ان اداروں کی انتظامیہ نے اپنے طور پر اقبال کو یاد کرنے کا اہتمام کیا۔ سرکار کی طرف سے اس کے لیے کسی حکم نامے کا تکلف نہیں کیا گیا تھا۔
محترمہ ناصرہ جاوید اقبال کا دُکھ ایک اور حوالے سے تھا۔ چند روز قبل مزارِ اقبال پر فاتحہ کے لیے گئیں تو وہاں تالہ پڑا تھا۔ استفسار پر پتہ چلا کہ یہ اقبال کو دہشت گردوں سے بچانے کے لیے ہے۔ ان کے ''پُرشور‘‘ اصرار پر تالہ کھول دیا گیا۔ وہ فاتحہ پڑھ کرلوٹیں تو اقبال کو دوبارہ ''حفاظتی حراست‘‘(Protective Custody)میں لے لیا گیا۔ خود ہم بھی اس المناک صورتِ حال سے دوچار ہو چکے ہیں۔ ایک بار ہم ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے ماس کمیونی کیشن کے طلبہ و طالبات کو مسلم برصغیر کے عظیم الشان ورثے سے روشناس کرانے‘ لاہور کے شاہی قلعے اوربادشاہی مسجد لے گئے۔ مزار اقبال پر فاتحہ بھی شیڈول میں شامل تھی۔ لیکن مسجد کی سیڑھیوں سے آگے بیریئر تھا اور مزار اقبال پر تالہ پڑا ہوا تھا۔ سعودی عرب میں قیام کے دوران ہم نے دیکھا(اور متعدد بار اس میں شریک بھی ہوئے) کہ خیرو برکت کے لیے لوگ اپنے بچوں کا نکاح حرمِ مکی یا مسجد نبوی میں پڑھاتے ہیں( مریم نواز کی صاحبزادی مہر النساء کا نکاح بھی مسجد نبوی میں پڑھا گیا) لاہور میں بعض لوگ اس کے لیے بادشاہی مسجد کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہم بھی ایک تقریب میں شریک ہوئے اور اب بھی مزارِ اقبال پر فاتحہ کی حسرت لیے لوٹ آئے‘ اقبال حفاظتی حراست میں تھے۔ خود بادشاہی مسجد کی حالت بھی اطمینان بخش نہیں۔ ماہرینِ فنِ تعمیرات اس حوالے سے اندیشوں کا شکار ہیں۔ پانچ‘ چھ ماہ پہلے جناب وزیر اعظم نے لاہور کے گورنر ہائوس میں بعض اخبار نویسوں کوشرفِ ملاقات بخشا تو شامی صاحب نے ان کی توجہ بادشاہی مسجد کی اس حالت کی طرف دلائی۔ خادم پنجاب بھی موجود تھے۔ گزشتہ دنوں شامی صاحب بتا رہے تھے کہ اس کے لیے ایک خصوصی کمیٹی قائم ہوگئی ہے‘ جو ان سے رابطہ میں ہے۔
گزشتہ شام کونسل آف نیشنل افیئرز کی نشست میں بھی اس پر بات ہوئی۔ یہ ''دلیل‘‘ کسی کو اپیل نہیں کرتی کہ اقبال کی یہ ''حفاظتی حراست‘‘ اِسے دہشت گردوں سے بچانے کے لیے ہے ۔ لاہور میں داتا دربار سے مناواں پولیس سینٹر اور واہگہ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب سے گلشن اقبال تک بدترین دہشت گردی کا نشانہ بنے اور ضروری انتظامات کے بعد یہاں معمولات بحال ہو گئے۔ تو کیا یہ مان لیا جائے کہ ایلیٹ فورس سے ڈولفن تک‘ امن و امان کے ذمہ دار رنگ برنگ ادارے بادشاہی مسجد کے پہلو میں‘ ایک ڈیڑھ مرلے پر مشتمل مزار اقبال کا تحفظ نہیں کر سکتے۔
تو اقبال کو اس ''حفاظتی حراست‘‘ سے نجات دلانے کیلیے کیا کیا جائے؟ محترمہ کلثوم نواز سے اپیل؟ کہ وہی اس کار خیر کے لیے اپنا کردار ادا کریں‘ کہ نہ صرف خود اقبال سے والہانہ عقیدت رکھتی ہیں بلکہ انہوں نے اپنے بچوں کو بھی‘ ان کے بچپن ہی میں فکر اقبال سے روشناس کرانے میں ذالی دلچسپی لی اور اس کا بھر پوراہتمام کیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved