جذبۂ حب الوطنی انسان کو ہمیشہ اپنے وطن کی محبت اور اس کے تحفظ پر آمادہ کرتا رہتا ہے۔ 1965ء میں سیالکوٹ اور لاہور کے محاذ پر پاکستانیوں نے بھارتی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ہر سال ستمبر کا مہینہ پاکستانی مسلمانوں کو اس عظیم واقعہ اور دفاع کی یاد دلاتا ہے۔ وطن سے محبت کی بہت بڑی وجہ آزاد فضا کے ساتھ ساتھ ہمارے والدین اور آباؤ اجداد کی اس وطن سے نسبت بھی ہوتی ہے۔ جذبہ ٔ حب الوطنی جہاں دنیا کے مختلف علاقوں میں بسنے والے انسانوں کو اپنے وطن کے دفاع پر آمادہ کرتا ہے، اس سے کہیں بڑھ کر جذبۂ ایمانی انسان سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے دفاع کے لیے بھی ہمہ وقت تیار رہے۔ یہ دونوں وہ عظیم شہر ہیں جن کو عظمت اورفضیلت اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل اور انتخاب سے حاصل ہوئی۔ مکہ مکرمہ کی فضیلت کی بہت بڑی وجہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اللہ تبارک وتعالیٰ کا گھر تعمیر کرنا اور اس کے بعد سیدالمرسلین ، خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اس علاقے میں دعوت توحید کو عام کرنا تھا۔
مکہ مکرمہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس میں واقع مسجد الحرام میں ادا کی گئی نماز کو دنیا کی باقی مساجد میں ادا کی گئی نماز کے مقابلے میں ایک لاکھ گنا زیادہ فضیلت دی ہے۔ جب یہاں جماعت کے ساتھ نماز ادا کی جاتی ہے تو نمازی کو 27 لاکھ نمازوں کی ادائیگی کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ کعبۃ اللہ کی عمارت میںنصب حجر اسود ایک ایسا پتھر ہے جس کو چومنا، چھونا اور اس کا استلام کرنا ہر اعتبار سے قابل سعادت ہے۔ اسی عمارت میں رکن یمانی جیسا پتھر بھی نصب ہے۔ کعبۃ اللہ کے قریب ہی مقام ابراہیمؑ ہے جہاں طواف کرنے والے کو نوافل کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے۔ کعبۃ اللہ کی عمارت کے کچھ ہی فاصلے پر صفا اور مروہ وہ پہاڑیاں ہیں جو شعائر اللہ میں شامل ہیں ۔ ہماری روحانی ماں اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ بی بی ہاجرہؑ پانی کی تلاش میں جب صفا اور مروہ کے درمیان گھوم رہی تھیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے قدموں کے نیچے سے ہی آب زم زم کو جاری فرما دیا۔ آب زم زم دنیا کا وہ واحد پانی ہے جس کے اندر اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوںکے جمیع امراض کی شفا رکھ دی ہے۔آب زم زم پینے والا شخص جو بھی دعا اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں مانگتا ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو قبول ومنظور فرما لیتے ہیں۔
جس طرح مکہ مکرمہ کا تاریخ اسلام اور رسول اللہﷺ کی ذات گرامی سے بہت گہرا تعلق ہے کہ مکہ آپ کو مولد و مسکن ہے، اسی طرح مدینہ طیبہ کی بھی حضورﷺکی ذاتِ بابرکات کے ساتھ انتہائی گہری نسبت ہے۔ حضرت رسول اللہﷺکی زندگی کے آخری دس برس مدینہ میں بسر ہوئے اور آپ ؐ نے مکہ کی فتح کے باوجود مدینہ طیبہ کو خیر باد کہنا گوارا نہیں فرمایا۔ رسول کریم ﷺکو مدینہ طیبہ سے والہانہ محبت تھی اور اہلِ مدینہ نے آپ ؐسے جس محبت اور خلوص کا مظاہرہ کیا،اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں پیش نہیں کی جا سکتی۔
رسول اللہﷺ نے مدینہ طیبہ کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے خود ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے کہ مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں۔ اس میں نہ کبھی طاعون پھیل سکتا ہے نہ دجال داخل ہو سکتا ہے۔ مدینہ منورہ میں قیام کرنا بہت بڑی سعادت کی بات ہے اور اگر ممکن ہو تو مسلمان کو مدینہ طیبہ میں مرنے کی آرزوکرنی چاہیے۔ جامع ترمذی میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص مدینہ منورہ میں رہ سکتا ہو (یعنی اپنے آخری ایام یہاں گزار سکتا ہو) اسے ضرور مدینہ میں مرنا چاہیے کیونکہ میں اس شخص کے لیے سفارش کروںگا جو مدینہ میں مرے گا۔
نبی کریم ﷺ نے مدینہ طیبہ کے لیے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس میں مکہ مکرمہ کے مقابلے میں دو گنا برکت پیدا فرما۔ اس طرح نبی پاک ؐنے یہ بھی فرمایا کہ جس نے مدینہ طیبہ میں مشکلات اور مصائب پر صبر کیا، میں اس کی گواہی دوں گا، یا فرمایا میں اس کی سفارش کروں گا۔ مدینہ کے شرف میں یہ بات بھی شامل ہے کہ فتنوں کے دور میں بھی مدینہ میں ایمان اور اسلام پوری طرح سلامت رہے گا۔ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایمان مدینہ میں سمٹ کر اس طرح واپس آ جائے گا جس طرح سانپ پھر پھرا کر اپنے بل میں واپس آ جاتا ہے ۔ مدینہ منورہ کی کھجور انتہائی خوش ذائقہ ہے اور اس میں پیدا ہونے والی کھجوروں کی ایک خاص قسم عجوہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ تاثیر رکھی ہے کہ اس میں زہر اور جادو کا علاج ہے۔ جامع ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عجوہ کھجور جنت کا پھل ہے اور اس میں زہر کے لیے شفا ہے۔ بخاری شریف میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص ہر روز صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھائے گا، اس کو زہر اور جادو نقصان نہیں پہنچائے گا۔
رسول اللہ ﷺ نے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ ہجرت فرمائی تو آپ ﷺ نے مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے قبل مسجد قبا کو تعمیر فرمایا اور جب آپ مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو آپ نے مسجد نبوی کو تعمیر کیا۔ مسجد نبوی شریف بیت اللہ شریف کے بعد دنیا کا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے اور اس میں ادا کی گئی نماز بیت اللہ میں ادا کی گئی نماز کے بعد سب سے زیادہ افضل نماز ہے۔ مسجد نبوی کی زیارت کرنا اور اس میں ثواب حاصل کرنے کے لیے عبادت اور نماز ادا کرنے کی جدوجہد کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حصولِ ثواب کے لیے تین مساجد کی طرف لمبا سفر کرنے کا حکم دیا ہے جن میں بیت اللہ، مسجد نبوی اور بیت المقدس شامل ہیں۔ مسجد نبوی شریف ہی کے ایک گوشے میں حضرت رسول اللہ ﷺ کی لحد اطہر ہے جو درحقیقت رسول اللہ ﷺ کی رہائش گاہ تھی اور وہیں آپ کا انتقال ہوا تھا۔ انبیاء علیہم السلام جس زمین پر انتقال فرماتے ہیں ان کی تدفین کا عمل بھی اسی مقام پر مکمل کیا جاتا ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ کی تدفین آپ کے اپنے گھرمیں ہوئی۔ انسان جہاں مسجد نبوی شریف میں بکثرت فرض نمازوں، سنتوں اور نوافل کا اہتمام کرتا ہے، وہیں اس کو آپ ؐ کی لحد مبارک پر آ کر درود شریف پڑھنے کا موقع بھی میسر آتا ہے۔ جو شخص رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ دس مرتبہ اس کی ذات پر درود بھیجتے ہیں اور جو بھیجتا ہی رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی تمام خطائوں کو معاف فرما دیتے اور تمام غموں کو دورکر دیتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کی لحد مبارک اور آپ ؐکے منبر مقدس کا درمیانی فاصلہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے والے کی خوش نصیبی ہوتی ہے کہ اسے 'روضۃ من ریاض الجنۃ‘ میں نماز اور نوافل ادا کرنے کا موقع میسر آ جاتا ہے۔
مسجد نبوی شریف سے کچھ ہی فاصلے پر بقیع کا قبرستان ہے جس میں ہزاروں صحابہ کرامؓ، امہات المومنین ؓ، امام نافع رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ جیسے عظیم انسان مدفون ہیں اور اس قبرستان میں دفن ہونا یقیناً ہر مومن اور مسلمان کی خواہش ہے ۔ اسی قبرستان میں کھڑے ہو کر والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیررحمہ اللہ نے دعا مانگی تھی، اے اللہ تعالیٰ مجھے یہاں پر دو گز زمین عطا فرما دے۔ اللہ تعالیٰ نے صرف ایک مہینے بعد ہی ان کی دعا کو قبول فرما لیا اور وہ بقیع میں محبان رسول کی ایک بڑی جماعت کے ہمراہ حشر کے روز تک محوِ خواب ہو گئے ۔ بقیع کے قبرستان میں رسول اللہﷺ خود تشریف لاتے اور اہل بقیع کی مغفرت کے لیے بھی آپ نے دعا مانگی ۔
مدینہ منورہ کے تاریخی مقامات میں رسول اللہ ﷺ کا محبوب پہاڑ کوہ احد اورمسجد قبلتین بھی شامل ہے۔ مسجد قبلتین میں نمازی کی ادائیگی کے دوران صحابہ کرامؓ نے اپنے چہرے کا رخ بیت المقدس سے بیت اللہ کی طرف کرکے اتباع رسول کا جو درس دیا وہ قیامت کی دیواروں تک کے لیے ہر مسلمان کے لیے نمونہ ہے۔
مکہ اور مدینہ جیسے عظیم شہر کچھ عرصے سے عالمی سامراج اور ان کے ایجنٹوں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور انسانیت اور اسلام کے دشمن مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ میں خوف وہراس اور دہشت کو پھیلانے کی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں۔ ان مقدس شہروں کا دفاع صرف سعودی عرب کے حکمرانوں اور شہریوں کی ذمہ د اری نہیں بلکہ دنیائے اسلام کا ہر فرد مکہ اور مدینہ کے دفاع کے لیے اپنا تن من دھن لٹانے کے لیے تیار ہے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کے دفاع کے لیے پاکستان کے حکمرانوں کوسعودی عرب کو ٹھوس پیغام دینا چاہیے کہ پاکستان کی افواج، غیور پاکستانی مسلمان ، پاکستان کے علماء اور دینی ادارے دفاع حرمین کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے گریز نہیں کریں گے اور ان مقدس مقامات کے دفاع کے لیے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے ساتھ ہر قسم کے تعاون پر آمادہ رہیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مکہ اور مدینہ کو سازشیوں، حاسدوں اور دین کے دشمنوں کے شر سے محفوظ و مامون فرمائے۔ آمین!