تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     14-11-2016

ٹرمپ کی فتح سے حاصل ہونے والا سبق

بریگزٹ کے فوراً بعد ٹرمپ کو حاصل ہونے والی کامیابی باکسنگ کے دوران ''ون ٹو کے کمبی نیشن‘‘ میں لگنے والے والا دوسرا کاری پنچ تھا۔ بریگزٹ کا ہائی کورٹ (اور پارلیمنٹ کی طرف ریفر کردیا گیا ہے) میں جائزہ لیا گیا، لیکن ٹرمپ کی کامیابی کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ ہزاروں لوگ نتائج کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیںلیکن یہ حقیقت اپنی جگہ پر موجود کہ امریکیوں نے فیصلہ سنا دیا ہے۔ ایسا حالیہ برسوں میں پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ ملٹی بلین پول انڈسٹری کے سروے اور لگائے گئے اندازے غلط ثابت ہوئے ۔ بریگزٹ سے ایک دن پہلے تمام تک تمام پول سروے کہہ رہے تھے کہ یورپی یونین کے ساتھ رہنے والوں کے موقف کی جیت ہونے جارہی ہے ۔ گزشتہ سال بھی انہی پول سرویز نے معلق پارلیمنٹ کی پیش گوئی کی تھی لیکن نتیجہ کنزرویٹو کی واضح برتری کی صورت میں سامنے آیا۔
تاہم دنیا بھر کے سیاسی مبصرین نیم کامیاب ٹریک ریکارڈ کے حامل ان پول سرویز کی آراء کو قبول کرتے ہیں اورانہی کی بنیاد پر تبصرے کرتے ہیں۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ موجودہ امریکی انتخابات کے بعد یہ تمام مبصرین اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ۔ اگرچہ مجھے خود بھی غیب بینی کا دعویٰ نہیںلیکن مجھے ایک پریشان کن شک ضرور تھا کہ لبرل میڈیا نہ صرف ہیلری کلنٹن کی غیر مقبولیت کو نظر انداز کر رہا تھا بلکہ ٹرمپ کے حامیوں کے جذبات کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا تھا۔ آٹھ نومبر کی کہانی یہ کہتی ہے کہ بہت سے ڈیموکریٹس نے گھر سے نکل ووٹ ڈالنے کی زحمت بھی نہیں کی ، جبکہ جوشیلے رپبلیکنزغیر معمولی انداز میں گھروں سے نکل کھڑے ہوئے۔ میں نے حالات کا اندازہ کرتے ہوئے ٹرمپ کی کامیابی پر ایک چھوٹی سے شرط لگائی تھی اور جیتنے میں کامیاب رہا۔ 
اب غیر متوقع نتائج پر بھی انہی مبصرین ، ماہرین ِ شماریات اور سیاسی پنڈتوں کے لامتناہی تبصرے جاری ہیں۔ میرے پاس ان غیر متوقع نتائج کی وجوہ ہیں لیکن جس دوران عوام اور سیاست دان اپنے پیش گوئیوں کے الٹ جانے پر حیران ہیں، ہمارے پاس سیکھنے کے لیے ایک سبق یقینی طور پر موجود ہے کہ رائے دہندگان ان جائزوں کے ذریعے اپنے ارادوں کو ظاہر نہیں کرتے۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ اقلیتیں کوئی بہت بڑا ووٹنگ بلاک نہیں ہیں کہ فیصلہ کن طاقت ثابت ہوسکیں ۔ اس طرح ٹرمپ کو افریقہ نژاد امریکیوں اور ہسپانوی باشندوںکے ووٹ بھی ملے ، جو روایتی طور پر ہیلری کلنٹن کو ملنے تھے ۔ 
اب یہ سوال کہ امریکہ کے لیے ٹرمپ کی صدارت کا کیا مطلب ہے ؟ یہ یقینا بری خبر ہے ۔ اُنھوں نے اوباما کی وراثت کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے ، خاص طور پر ''اوباما کیئر‘‘( ہیلتھ انشورنس) جو کہ ایڈمنسٹریشن کے لیے باعث افتخار تھی۔ اگرچہ اس کی بھاری سیاسی قیمت چکانی پڑی لیکن اس کی وجہ سے لاکھوں امریکیوں کو پہلی مرتبہ ہیلتھ کور ملا۔ اگرچہ ٹرمپ نے اسے ختم کرکے کوئی اور نظام لانے کا کہا ہے لیکن اُنھوں نے تاحال اس کے خدوخال بیان نہیں کیے۔ ماحولیات کو جھٹکا لگنے کا خدشہ اپنی جگہ پر موجود ، طویل اور تلخ بحث و تکرار کے بعد کاربن اخراج پر ہونے والا پیرس معاہدہ بھی خطرے میں ہ، کیونکہ ٹرمپ نے متعدد بار کہا کہ گلوبل وارمنگ کا ہوّا کھڑ ا کرنا چین کا حربہ ہے جس کا مقصد امریکی صنعت کو نقصان پہنچانا ہے ۔ اُنھوں نے چینی مصنوعات کی درآمد پر بھاری ٹیکس لگانے کا بھی عندیہ دیا ہے ، لیکن اس پالیسی کے نتیجے میں امریکی صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ مقامی صنعت ، جو موجود نہیں ہے، کی بحالی میں بہت وقت لگ جائے گا۔ 
بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد برطانیہ میں نسلی بنیادوں پر ہونے والے حملوں کے واقعات میں اضافہ ہوا، اور یورپی یونین سے اخراج کے زیادہ ترحامی غیرملکیوں کومشکوک اور ناپسندیدہ نظروںسے دیکھتے رہے ۔ یہ بات دیکھی جانی ہے کہ کیا ٹرمپ کی کامیابی کے بعد نسل پرستی کی لکیر گہری ہوتی ہے اور کیا یہ جذبات پرتشدد شکل اختیار کرتے ہیں؟ان انتخابات نے لبرل امریکیوں، جو ڈیموکریٹس کے ووٹرز ہیں، اور سفید فام محنت کش طبقے ، جس نے ٹرمپ کو ووٹ دے کر کامیاب کیا ، کے درمیان تنائو پیدا کردیا ہے ۔ چنانچہ اس مرحلہ پر ایک ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے مریکیوں کو یکجان کرنے صلاحیت رکھتا ہو، لیکن ٹرمپ سے اس صلاحیت کی توقع کرنا عبث ہوگا۔ ایک فیکٹر جسے لبرل میڈیا نے متواتر نظر انداز کیے رکھا، وہ عام افراد کا بینکاروں اور کارپوریٹ بزنس چلانے والوں کے خلاف گزشتہ دو عشروں سے بڑھنے والا اشتعال ہے ۔ عوام دیکھ رہے ہیں کہ معاشرے کا یہ ایک فیصد زیادہ تر وسائل کو کنٹرول کرتا ہے ۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے موقع پر بھی یہی جذبات دکھائی دیے ۔ جب آمدنی میں فرق بڑھتا جارہا ہو اور بھاری بھرکم تنخواہیں اور ہوشربا بونس وصول کرنے والا طبقہ عوام سے الگ ہوکر اشرافیہ میں شامل ہوجائے توہیری کلنٹن جیسے سیاست دان اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی بجائے اس کے حامی دکھائی دیں تو اُنہیں عوامی ناراضی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ 
یہ بات واضح ہے کہ کلنٹن کی بجائے برنی سنڈرز ٹرمپ کے خلاف کہیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ۔ جیسا کہ وکی لیکس سے انکشاف ہوا، ڈیموکریٹ قیادت نے برنی سنڈرزکو شکست دینے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ جب ہیلری کلنٹن نے بائیں طرف جھکتے ہوئے اپنے حریف کے ترقی پسندانہ ایجنڈے کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی تو وال سٹریٹ بیک گرائونڈ کی وجہ سے اُن پر اعتماد نہ کیا گیا۔ برنی کی طرف سے پیش کیے گئے چیلنج کو ابتدائی رائونڈز میں شکست دیتے ہوئے ہیلری کو علم ہوگیا تھا کہ وہ سینڈرز کے نوجوان پرجوش حامیوں کی حمایت حاصل نہ کرپائیں گے۔ ان نتائج سے ہم نے ایک اور چیز سیکھی ہے کہ امریکی انتخابات میں نام اور پیسہ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اس عمل کے آغاز میں ہمارا خیال تھا کہ جیب بش (Jeb Bush) اور ہیلری کلنٹن اپنے غیر معروف حریفوں کو آسانی سے زیر کرکے نامزدگی حاصل کر لیں گے ۔ تاہم جیب بش تو شروع میں ہی رنگ سے باہر ہوگئے ۔ ٹرمپ کے مقابلے میں اُن کے پاس توانائی کا فقدان دکھائی دیا۔ دوسری طرف ہیلری کلنٹن کو نامزدگی کے لیے ایک مشکل جنگ لڑنا پڑی ۔ ٹرمپ نے مہم زیادہ اپنی رقم سے ہی چلائی تھی۔ اُنہیں عطیات کی مد میں چھوٹی چھوٹی رقوم ملیں، جبکہ ہیلری کو بھاری بھرکم عطیات ملے ۔ اُن کی مہم دولت میں کھیلتی دکھائی دی۔ تاہم نتائج ہمارے سامنے ہیں، اب ہیلری کا طویل سیاسی کیرئیر اختتام پذیر سمجھیں۔ 
بیرونی دنیا کے لیے ٹرمپ کی صدارت کے مضمرات فی الحال غیر واضح ہیں۔ اُنھوںنے عندیہ دیا ہے کہ وہ مشرق ِوسطیٰ سے امریکی دستے واپس بلالیں گے اور ایران کے ساتھ کیا گیا جوہری معاہدہ پھاڑ کر پھینک دیں گے ۔ تاہم امیدوار انتخابی مہم کے دوران زمین و آسمان کے قلابے ملانے والے دعوے کرتے ہیں لیکن کامیابی کے بعدسرکاری افسران اور ماہرپالیسی ساز اُنہیں امریکی مفاد کے بارے میں بتا کر حقائق آشنا کردیتے ہیں۔ چنانچہ ٹرمپ اپنے دعووں کے مطابق انقلابی تبدیلی لاتے دکھائی نہیں دیں گے ۔ بہرحال ٹرمپ نے پہلے تو رپبلکن سے نامزدگی حاصل کرتے اور پھر ہیلری کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے دنیا کو دومرتبہ حیران کردیا ۔ دیکھتے ہیں کہ اب مزید وہ پٹاری سے کیا نکالتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved