تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-11-2016

’’بیٹی پیدا ہی کیوں ہوئی؟‘‘

ہم زندگی بھر جو فلمیں دیکھتے ہیں اُن میں سے چند ایک کا غیر معمولی اثر قبول بھی کرتے ہیں۔ ایک دور تھا کہ پاکستان میں بھی معیاری فلمیں بنا کرتی تھیں۔ بہت سی اصلاحی فلمیں عام آدمی کو اس قدر متاثر کرتی تھیں کہ وہ اپنی اصلاح پر مائل ہو جاتا تھا۔ اُس دور میں کہانی کو کسی نہ کسی طور سبق آموز رکھنے کا رواج سا تھا۔ بالی وڈ میں آج بھی ایسی فلمیں بنائی جارہی ہیں جو دیکھنے والوں کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ ڈالتی ہیں۔ ''گنگا جل‘‘ بھی ایک ایسی ہی فلم ہے۔ 
29 اگست 2003 کو ریلیز ہونے والی اسکرین پلے رائٹر، ڈائریکٹر پرکاش جھا کی فلم ''گنگا جل‘‘ میں ایماندار پولیس افسر امیت کمار (اجے دیو گن) کو شہر کے مشہور سیاسی غنڈے سادھو یادو (موہن جوشی) اور اس کے عیّاش بیٹے سندر یادو (یشپال شرما) کا سامنا ہے۔ باپ اور بیٹے نے مل کر دہشت پھیلائی ہوئی ہے اور پولیس کا بھی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ سندر یادو ایک ایماندار پولیس افسر بچّہ یادو (مکیش تیواری) کا خون بھی کردیتا ہے۔ سندر ایک لڑکی پر مَر مٹتا ہے اور اُسے ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جب اُس لڑکی کا رشتہ کہیں اور کردیا جاتا ہے تو سندر یادو کے غصے کا ٹھکانہ نہیں رہتا اور وہ بارات کو روک کر دولھا کو بیچ سڑک پر سب کے سامنے قتل کردیتا ہے! لڑکی اور اس کی ماں خوفزدہ ہوکر پولیس سے مدد مانگتی ہیں تو ڈی سی پی امیت کمار انہیں دلاسا دیتا ہے۔ سندر یادو لڑکی کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور اُسے حاصل کرنے کو انا کا مسئلہ بنالیتا ہے۔ لڑکی اور اس کی ماں کو عدالت میں بیان کے لیے بلایا جاتا ہے تو وہ ڈی سی پی امیت کمار کی بھرپور یقین دہانی کے باوجود خوفزدہ رہتی ہیں اور ایسا بیان ریکارڈ کراتی ہیں جس سے امیت کمار کی پوزیشن کمزور ہوجاتی ہے۔ مگر وہ چونکہ ماں اور بیٹی کی مجبوری سمجھتا ہے اس لیے اِس بیان کا بُرا نہیں مانتا۔ 
جب معاملہ بہت بگڑ جاتا ہے یعنی سندر یادو لڑکی کو کسی بھی قیمت پر حاصل کرنے پر تُل جاتا ہے تب لڑکی کی ماں اپنے مقدر پر لعنت بھیجنے کے بعد بیٹی کو دو ہتڑ مارتے ہوئے کہتی ہے، ''یہ سب کچھ اِس ابھاگن کا کیا دھرا ہے۔ یہ پیدا ہی کیوں ہوئی؟‘‘ 
یہ دو جملے پورے برصغیر کی ذہنیت کی عکاسی کے لیے کافی ہیں۔ جب کسی گھر میں بیٹی جوان ہوتی ہے تو والدین کی نیند اڑ جاتی ہے۔ مثل مشہور ہے کہ جس گھر میں بیری ہو وہاں پتھر تو آتے ہی ہیں۔ یہ معاشرے کی عمومی روش ہے۔ کیا شہر اور کیا گاؤں، جہاں بھی کسی کو کوئی لڑکی پسند آجائے تو سوچے سمجھے بغیر اُسے اپنانے پر تُل جاتا ہے۔ معاملات کو بگاڑنے یعنی جلتی پر تیل چھڑکنے میں میڈیا (بالخصوص فلم اور ٹی وی) نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ؎ 
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار 
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں 
اخبارات اور چینلز پر اس طرح کی خبریں نمودار ہوتی رہتی ہیں کہ کوئی کسی پر فِدا ہو بیٹھا اور پھر اُسے پانے کے لیے ایسا بے تاب ہوا کہ جب لڑکی نے ہاں نہ کی تو اُس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا یا پھر قتل کرکے بھاگ گیا۔ بعض ''غیرت مند‘‘ قسم کے عاشق اِس نوعیت کے قتل کے بعد خود کشی بھی فرمالیتے ہیں! 
بیٹیوں والے گھرانوں پر لوگوں کا متوجہ ہونا حیرت انگیز نہیں، بالخصوص اس وقت جب وہ بیٹیاں خوش شکل بھی ہوں۔ ایسے میں کچھ نوجوان آؤٹ آف دی وے بھی جاسکتے ہیں اور باضابطہ رشتے بھی آسکتے ہیں۔ تو کیا ایسے گھرانوں میں والدین کے پاس اپنی بیٹیوں کو امتحان، عذاب یا لعنت سمجھنے کا آپشن رہ جاتا ہے؟ اگر بیٹیوں والا کوئی شخص اپنے نصیب کا رونا روتا ہوا پایا جائے یا رات دن بیٹیوں کو مصیبت کی جڑ قرار دیتا پھرے تو؟ یقیناً لوگ اُسے احمق یا جاہل ہی گردانیں گے۔ 
ہم جس دنیا میں جی رہے ہیں اُس میں اب شَر اِس قدر نمایاں ہوچکا ہے کہ خیر کے لیے بظاہر یہ آپشن بچا ہے کہ منہ چُھپالے، گوشہ نشین ہو جائے۔ ابھی کل تک جو کچھ خوبیوں میں شمار ہوتا تھا اُسے اب خرابیوں کی جڑ بتایا جاتا ہے۔ کل تک یوں تھا کہ کسی کی شرافت کی قسم کھائیے تو وہ فخر محسوس کرتا تھا۔ اب اگر کسی کو شریف تسلیم کیجیے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ اُس کی شخصیت سے کوئی بڑی ''ڈِز کوالیفکیشن‘‘ جوڑی جارہی ہے! معاملہ یہ ہے کہ اب ہم ہر خوبی اور اہلیت سے بچنے کی روش پر گامزن ہیں۔ پوری دیانت کے ساتھ کام کرنے والوں کی ایسی بے توقیری عام ہے کہ لوگوں کو دیانت اور جاں فشانی کے ساتھ کام کرنے کی تحریک نہیں ملتی۔ 
عمومی اور اجتماعی ذہنیت یہ ہوگئی ہے کہ اگر کسی خاصیت یا خوبی کے ہاتھوں پریشانی کا سامنا ہو تو ہم زمانے کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے اپنی متعلقہ خوبی یا خصوصیت ہی کو بوجھ سمجھ کر اس سے گلا خلاصی کی تدبیر کرنے لگتے ہیں۔ اگر کوئی اچھی عادت معاشرے میں چلن کا درجہ نہ رکھتی ہو تو ہم چاہتے ہیں کہ وہ عادت ہم میں بھی نہ پائی جائے! 
سیدھی سی اور سامنے کی بات ہے کہ فی زمانہ اعلٰی اخلاقی اقدار کا حامل ہونا انگاروں پر چلنے جیسا ہے۔ سچ بولنے سے پیدا ہونے والی مشکلات نے حق گوئی کو ہماری ترجیحات سے خارج کردیا ہے۔ جھوٹ بولنا بہت سی خرابیاں پیدا کرتا ہے بلکہ کرتا ہی رہتا ہے مگر پھر بھی ہم جھوٹ بولنے پر مائل رہتے ہیں کہ یہی زمانے کا چلن ہے۔ 
سچ بولنا یقیناً مشکلات پیدا کرتا ہے مگر خاص طور پر ان کے لیے جن کردار اور مزاج میں خامیاں پائی جاتی ہیں۔ جھوٹ عموماً بولا ہی اُس وقت جاتا ہے جب اپنے وجود میں کمزوریاں موجود اور نمایاں ہوں۔ 
یہی حال وعدے یا عہد کی پاس داری کا ہے۔ کسی سے کوئی عہد کیا ہے تو نبھانا لازم ہے کہ بات نہ بگڑے، وجود کا وقار سلامت رہے۔ مگر لوگ عمومی روش پر گامزن رہتے ہیں، جیسے سب ہیں ویسے ہی بنے رہنا چاہتے ہیں۔ عہد سے مُکر جانا عمومی روش ہے اِس لیے سب اِس پر گامزن رہنا چاہتے ہیں۔ 
بگڑتے بگڑتے ہمارا معاشرہ اب اُسی صورتِ حال سے دوچار ہے جس کا سامنا ''گنگا جل‘‘ میں بیٹی کو بد دعائیں دینے اور کوسنے والی ماں کو تھا! عمومی اخلاقی حالت یہ ہے کہ لگتا ہے اوصافِ حمیدہ کی اب چنداں ضرورت نہیں رہی۔ جو لوگ مسلّمہ اخلاقی اقدار کے ساتھ دین کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا چاہتے ہیں اُن کے لیے قدم قدم پر رکاوٹیں، بلکہ دیواریں ہیں۔ 
معاشرے میں ہر طرف برائیوں کی افزائش دیکھ کر لوگ یہ گمان کر بیٹھتے ہیں کہ اوصافِ حمیدہ کا دامن تھامے رہنے کے نتیجے میں وہ صرف گھاٹے کا سَودا کرتے رہیں گے۔ ماحول جھوٹ کو آگے بڑھا رہا ہو تو سچ سے وابستہ رہنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ عہد شِکنی شباب پر ہو تو عہد کی پاس داری کرنے والے عجیب دکھائی دیتے ہیں۔ 
پاکستانی معاشرہ بھی اُس منزل میں ہے جہاں سب کچھ الٹ اور پلٹ چکا ہے۔ جھوٹ نے سچ کی مسند پر قبضہ جما رکھا ہے اور سچ کو بیٹھنے کی تو کیا، کھڑے رہنے کی جگہ بھی میسر نہیں۔ حرام اور حلال کے درمیان بظاہر کوئی فرق نہیں رہا۔ لوگ اپنی ضرورتوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں اور پھر حلال میں حرام کا تناسب بڑھاتے جاتے ہیں۔ یہ جتنی بھی خرابیاں دکھائی دے رہی ہیں، ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں۔ خرابیوں اور خامیوں کو خوبیوں پر حاوی ہونے کے بھرپور مواقع فراہم کیے گئے ہیں۔ اور اچھائی کے ہر معاملے کو ہاتھ سے جاتا دیکھ کر بُرائی کو اچھائی کے ''نعم البدل‘‘ کے طور پر گلے لگالیا گیا ہے۔
اِس میں کیا شک ہے کہ دینی تعلیمات کی روشنی میں تمام بنیادی اخلاقی اقدار کو اپناکر ہم ہر اعتبار سے کامیاب اور بھرپور زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ زندگی آج بھی ان کے لیے کسی اعتبار سے خسارے کا سَودا نہیں جو اوصافِ حمیدہ سے متصف رہتے ہوئے جینا چاہتے ہیں۔ سوال بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں اترنے کا ہے۔ ہر اچھائی کماحقہ تیاری چاہتی ہے۔ بُرائی بھی اُسی وقت پنپتی ہے جب اُسے پنپنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اچھائی کو بھی موقع دیجیے۔ اگر ہم معیاری زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو اِس کی تیاری میں کمی چلے گی نہ کوتاہی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved