جب سے انسان نے زمینوں اور سمندروںکے درمیان سے اپنے لئے راہیں نکالنا شروع کی ہیں‘ کل گوادر میں ہونے والا واقعہ تاریخ کے روشن ترین لمحات میں سے ایک تھا۔ انسان نے ترقی کی دشوار ترین راہیں نکالیں اور راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا۔ لیکن جنوبی ایشیا سے براہ راست یورپ کی منڈیوں تک پہنچنے کا تجربہ نہیں کیا تھا۔ ترقی کے اس دور میں جہاں روس جیسا باوسیلہ اور طاقتورملک پوری ایک صدی گرم پانیوں تک پہنچنے کے جتن کرتا رہا۔ افغانستان میں داخل ہو کر‘ اس نے پیش قدمی کی کوشش بھی کی اور وہاں ایسا پھنسا کہ بمشکل بچ کر اپنے گھر واپس جا پایا۔ مگر اللہ کی دی ہوئی نعمت پاکستان کے پاس تھی اور ہم ایسے نکھٹو کہ گھر میں پڑا سونا بھی اٹھا کر بیرونیوں کے حوالے کر دیا۔ ہمارا صوبہ جہاں خدا کی دی ہوئی نعمت صدیوں سے صاحبان نظروعمل کی منتظر تھی‘ اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا جا سکا۔ یہ نعمت گوادر ہے۔ ہمارے حکمرانوں اورماہرین کو اس نعمت کا احساس تب ہوا‘ جب دوسرے ممالک کے درمیان گوادر کے سوال پر رسہ کشی منظر عام پر آئی۔ مگر ہم کیا کرتے کہ ایک بڑی بندرگاہ بنانا آسان کام نہیں ہوتا۔ ہم سے زیادہ مالی وسائل رکھنے والے ملک ہزاروں میل سے آ کر‘ اس بندر گاہ کو استعمال کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ حقیقت حال صرف تقدیریں بنانے والے قادر مطلق کے علم میں تھی۔ ایک طرف ہم نکھٹو تھے کہ گوادر پر ایک دوسرے کے ساتھ کش مکش میں مبتلا بڑی طاقتیں دست و گریباں رہیں۔ مگر وہ جگہ جسے گوادر کہتے ہیں‘ وہاں زیرآب قدرت کی نعمت محفوظ پڑی رہی۔ غیروں سے زیادہ ہمارے اپنے‘ پاکستان کی سرزمین سے فائدہ اٹھا کر اربوں کھربوں کمانے والے خود کچھ نہ کر پائے۔ وہ صرف اوپر رکھی ہوئی رقم سمیٹ کر بیرونی ملکوں میں منتقل کرتے رہے۔ انہیں پورا علم تھا کہ گنواروں کی پاکستانی قوم‘ محنت کر کے کھانا نہیں جانتی۔ کوئی دوسرا ہی اسے پلیٹ میں رکھ دیتا تو رکھ دیتا۔ قدرت ہمیں لٹیروں سے کہیں زیادہ بہتر جانتی تھی۔ اس نے ہمیں اسی طرح دیا‘ جس کے ہم قابل تھے۔ یہ معجزہ جو رونما ہونے کے لئے ہماری نالائقیوں کی انتہاتک پہنچنے کا منتظر تھا‘ وہ لمحہ آخر آ ہی گیا اور قدرت کا نظام دیکھئے ‘ آیا بھی اس وقت جب ہم ایک سمندری کشتی تیار کرنے کے بھی قابل نہیں تھے۔ ہم نے قطر سے گیس خریدی تو اسے اپنے ساحل پر لا کر‘ خود استعمال کرنے کے اہل نہیں تھے۔
ہمارے ہم وطن لٹیروں نے پوری قوم کو جھانسہ دے کر ‘ اپنے وطن میں استعمال کے سارے انتظامات کرنے کے بعد اطلاع دی کہ قطر سے آئی ہوئی گیس کو ذخیرہ کرنے اور پھر استعمال کے لئے اسے نکالنے کا پورا انتظام کر لیا ہے اور اب ہمیں گیس ملنا شروع ہو جائے گی۔ گیس ملنا شروع ہو گئی۔ لیکن اسے ایسے بازاری نظام کے کنٹرول میں دے دیا‘ جو ہمارے ملک کے غریب عوام کو کوئی رعایت دینا نہیں جانتے۔ ابھی چند روز پہلے ہمارے وزیراعظم نے قوم سے گیس کی قیمتوں میں کمی کاوعدہ کیا۔ نتیجہ اس کے الٹ نکلا۔ گیس کے نرخ کم کرنے کے بجائے بڑھائے جا رہے ہیں اور یہ ''خوشخبری‘‘ کسی بھی لمحے عوام تک پہنچ جائے گی۔ فی الحال میں آپ کو اس خوشخبری کی تفصیل بتانا چاہتا ہوں ‘جسے جاننے کے بعد میں پھولا نہیں سما رہا۔
خلیج کے علاقے میں درجن بھر سے زیادہ ملک واقع ہیں۔ ان میں سے بیشتر کے ہاں تیل بھی نکلتا ہے۔ لیکن سعودی عرب کے سوا کسی کے پاس بڑی بندر گاہ بنانے کی گنجائش نہیں تھی۔ سعودی عرب کے پاس گہرے سمندروں کے ساحل موجود ہیں‘ جہاں سے وہ تیل کے بھاری ٹینکر‘ بیرونی ملک کو فروخت کرتا ہے۔ لیکن خود سعودیوں نے خاص زحمت نہیں کی۔ امریکیوں نے اپنی ایک کمپنی بنائی۔ وہاں ''آرامکو‘‘ کے نام سے ایک دیوہیکل بندرگاہ کھڑی کی‘ جس سے دن بھر بڑے بڑے ٹینکر بھر کے‘ باہر لے جائے جا رہے ہیں۔ سعودیوں کی''آرامکو‘‘ والی آرام پسندی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ امریکی دونوں ہاتھوں سے ان کا تیل لوٹ رہے ہیں۔ چینی عوام نے اپنی طویل
جدوجہد‘ لامحدود قربانیوں اور دنیا پر چھائے ہوئے سرمایہ دار ملکوں کی باہمی کشمکش کو انہی کے حوالے کر کے‘ اتنی تیزرفتاری سے تجارت کی منڈی میں چھلانگ لگائی کہ آج وہ عالمی سرمائے کا سب سے بڑا ذخیرہ جمع کر کے‘ اس سے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں کہ تمام سرمایہ دار ملکوں کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ چین نے بڑی خاموشی سے اس قدرتی انعام کو استعمال میں لانے کی تیاریاں جاری رکھیں۔ ہمارے احمق حکمرانوں نے قدرت کا یہ تحفہ جاپانیوں کے سپرد کر دیا۔ اس کے بعد پاکستانی قوم کو طویل کشمکش کے بعد اس مالیاتی جن کے قبضے میں گیا ہواخزانہ چین نے اپنی بڑھتی ہوئی طاقت‘ حکمت عملی‘ جستجو‘ انتھک محنت اور سائنسی ریسرچ سے گوادر کی وہ نعمت جاپانیوں کے چنگل سے نکلوا کر‘ ہمارے سپرد کر دی اور کل 13نومبر کے دن دنیا کی ایک بڑی بندرگاہ زیراستعمال آ گئی۔ اس بندرگاہ تک پہنچنے کے لئے چین اور پاکستان کو جو قربانیاں دینا پڑیں‘ وہ صرف دونوں ملکوں کے عوام اور ماہرین ہی جانتے ہیں۔
چین کے وسط سے شروع ہونے والی ایک نئی عظیم شاہراہ اتنی خاموشی اور پردہ داری کے ساتھ تعمیر کی گئی کہ کل جب افتتاح ہو رہا تھا‘ تو دنیا بھر کے سرمایہ دار اور تجارتی راستوں پر قابض ممالک حیرت کے عالم میں اس کارنامے کو دیکھ رہے تھے۔ اس سڑک کی تعمیر میں ہر طرح کی دشواریاں سامنے آئیں۔ زمین کی قدرتی ساخت‘ دور دور تک پھیلے ویرانے‘ راستے میں بلند و بالا پہاڑ‘ جن کے اوپر سے یہ سڑک گزرنا تھی‘ گزرنا کیا تھی؟ الوالعزمی اور ناقابل شکست ہمت کو
بروئے کار لاتے ہوئے‘ پاکستان اور چین کے محنت کشوں اور انجینئرز نے ان دشوار گزار راستوں کے اندر سے سڑک نکال کر دکھا دی۔ دونوں ملکوں کی فوج نے اپنی اپنی جغرافیائی حدود کے اندر سڑک کی تعمیر کی ذمہ داری نبھائی۔ ہر نوعیت کی قدرتی رکاوٹوں کا مقابلہ کرتے ہوئے‘ دونوں ملکوں کے حصے میں آئے ہوئے دشوار گزار رقبوں پر‘ انسانی عزم و ہمت کی بالادستی ثابت کر دی۔ مشترکہ پہاڑوں کی بلندیاں اور بلوچستان کے صحرائوں کی ہمواریاں ‘ کوئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی اور 13 نومبر کی صبح ساری دنیا چونک اٹھی کہ برآمدی سامان سے بھرے ہوئے ٹرکوں کی ایک لمبی قطار ٹی وی پر دکھائی دی اور پھر اس نے گوادر پر کھڑے ہوئے بھاری بحری جہازوں میں سامان لادنا شروع کر دیا۔ دوپہر کے وقت وزیراعظم پاکستان افتتاح کے لئے آئے‘ تو نظربد سے بچانے کے لئے اپنے ساتھ ایک مولانا صاحب کو بھی لیتے آئے۔ مولانا صاحب اس افتتاحی تقریب میں دولہا کی طرح یوں اترائے اترائے دکھائی دے رہے تھے‘ جیسے وہی قراقرم کے پہاڑوں میں روپوش ہوئے ہوں۔ بلوچستان کے صحرائوں میں بھٹکتے بھٹکتے ‘ ریت کے آغوش میں پردہ نشینی اختیار کی ہو۔ ایک موقع پر تو انہوں نے کسی پرچم کو بلند کرنے کے لئے اسے کھینچنے والی رسی پر بھی ہاتھ ڈال دیا۔ وزیراعظم کے کسی مددگار نے جھٹکا دے کر مولانا کا ہاتھ ہٹایا اور وزیراعظم کو موقع ملا کہ وہ رسی کھینچ کر وہ پرچم بلند کر دیں۔ مولانا کے نخروں اور ادائوں سے یوں لگ رہا تھا‘ جیسے گوادر کو دریافت اور تعمیر کرنے کا سہرا انہی کے سر ہو۔ حقیقت میں یہ اعزاز بلوچستان کے منتخب وزیراعلیٰ کا تھا۔ لیکن پاکستان کے سیاسی کلچر کی بدنمائی دیکھئے کہ عوام کے منتخب نمائندے پیچھے کھڑے تھے اورمولانا نے بارہ تیرہ بندوں کا جگا گروپ بنا کر ‘ اقتدار کے بازار میں ایسی دکانداری چمکائی کہ وزیراعظم بھی ان سے ڈرتے ہیں۔ بلوچستان کے نمائندے بھی ان سے خوفزدہ ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں بھی مولانا کی دھاک ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں بھی یہ فٹیج دیکھی گئی‘ وہاں کے عوام ‘ مولانا سے بہت مرعوب ہوئے ہوں گے اور ہر کوئی سوچ رہا ہو گا کہ جدید دور کے جو بڑے بڑے تعمیراتی کارنامے انجام دیئے گئے ہیں‘ ان میں سب سے بڑا معرکہ‘ ڈیزل کو عزت دینے والے ہمارے عظیم سیاستدان نے انجام دیا ہو گا۔ جس طرح مولانا آگے بڑھ بڑھ کر ہر چیز پر اپنا حق جتا رہے تھے اگر وہ اسی عمل میں کسی تجارتی جہاز پر چڑھ جاتے‘ تو جہاز کا کیا بنتا؟ عام زندگی میں مولاناپورا بھنا ہوا دنبہ ایک لقمے میں ہڑپ کر جاتے ہیں۔ لیکن ایک دیوہیکل تجارتی جہازانہیں دیکھ کر کانپ رہا تھا کہ اگر مولانا نے جہازرانی کے پانیوں میں کود کر اسے نگل لیا‘ تو کیا ہو گا؟ایک ہی طریقہ اختیار کر کے جہاز کو مولانا سے محفوظ رکھا جا سکتا تھا کہ جہاز کا سارا عملہ دونوں ہاتھ اٹھا اٹھا کر زور زور سے چلاتا ''مولانا یہ ڈیزل نہیں۔ دنبہ نہیں۔ آپ کے سامنے جہاز کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ ایک بٹیر کے برابر ہے۔ اس جہاز کو بٹیر سمجھ معاف کر دیجئے۔‘‘