گزشتہ منگل کی شب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 500 اور 1000روپے کے کرنسی نوٹ بند کرنے کا اعلان کیا جس سے پورے ملک میں افراتفری کا ماحول ہے۔ نوٹ لے کر لوگ بینکوں اور اے ٹی ایم کے باہر لمبی لائنیں لگائے کھڑے ہیں۔ متمول افراد تک کی جیبیں خالی ہوگئی ہیں۔ راقم کے لئے تو جیسے دو دہائی قبل دہلی میں طالب علمی کا دور لوٹ آیا ہے۔ مہینے کے آخری دنوں میں سکالرشپ کے انتظار میں اخراجات کم کرتے ہوئے کبھی لنچ ترک کر دیا کرتے تو کبھی کمرے کے کونوں کھدروں اور کپڑوں میں سکے ڈھونڈے جاتے تاکہ کسی طرح خرچ نکل سکے۔ مودی نے ایک ہی جھٹکے میں بہت بڑی آبادی کو گویا غریبی کی لائن سے نیچے پہنچا دیا ہے۔ حالات کس قدر دگرگوں ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ وڈرو کے ایک قریبی رشتہ دارکی لاش دہلی کے قلب میں لودھی روڈ کے شمشان گھاٹ میں کئی گھنٹے پڑی رہی کیونکہ پنڈت اور شمشان گھاٹ کے منتظمین کو 45 ہزار دینے کے لئے ان کے پاس نقد رقم نہیں تھی۔ بھارت کا عام آدمی کتنا متاثر ہوگا یا مودی کتنا کالا دھن باہر نکالنے میں کامیاب ہوںگے، یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر ایک بات طے ہے کہ اس کرنسی بم نے گھر گھر خواتین کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے جو پیسہ شوہروں سے چھپا چھپا کر جمع کیا تھا وہ آج ظاہرکرکے لوٹانا پڑ رہا ہے۔ پیسہ نہ دینے کا طعنہ دینے والی خواتین اپنا خزانہ اگل کر مردوں کو حیران و پریشان کر رہی ہیں۔ دراصل خواتین کی عادت ہوتی ہے کہ وہ مستقبل اور بر ے وقت کے لئے شوہروں کی کمائی سے پیسہ پس انداز کرتی رہتی ہیں۔ مودی نے ان کی نیند اڑا دی ہے۔ بقول صحافی فرزان قریشی جنہوں نے کئی محلوں میں جا کر اس ایشو پر تحقیق کی، ایک طرف گھریلو خواتین مودی کو برا بھلا کہہ رہی ہیں اور دوسری جانب شوہروں کے بھی ہوش اڑے ہوئے ہیں کہ بینک میں سوالات کی بوچھاڑ خصوصاً یہ کہ اس دولت کوکس مد میں ظاہر کیا جائے۔ بتایا گیا ہے کہ ڈھائی لاکھ روپے سے زیادہ رقم جمع کرانے پر محکمہ انکم ٹیکس کارروائی کرے گا۔
وزیر اعظم کے بقول ان کا یہ قدم بد عنوان عناصر،کالا دھن رکھنے والوں، دہشت گردوں اور علیحدگی پسند تحریکوں کو مالی مدد پہنچانے والوں کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ ہے۔ یہ آپریشن اس حد تک خفیہ رکھا گیا کہ مودی کی کابینہ کے ارکان بھی اس سے لاعلم تھے۔ میں اس روز اپنے دفتر میں داخل ہو ہی رہا تھا کہ وزیر اعظم کے دفتر کے ایک اہلکار کا ایس ایم ایس موصول ہوا کہ اگلے ایک دو گھنٹوں میں اہم اعلان ہونے والا ہے، اس لئے دارالحکومت کے مرکز میں ہی رہیے۔ معلوم ہوا کہ دوسرے ایڈیٹروں اور وزیر اعظم ہائوس کو کور کرنے والے چند دیگر صحافیوںکو بھی اسی طرح کا میسج ملا ہے۔ وزیر مالیات ارون جیٹلی سے رابط کرنے کی کوشش کی مگر ان کا فون مسلسل بند تھا۔ دوسرے وزیروں سے معلوم ہوا کہ کابینہ کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا ہے اور وزیروں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اجلاس میں موبائل فون لے کر نہ آئیں۔ اسی دوران قصر صدارت یعنی راشٹرپتی بھون سے معلوم ہوا کہ وزیراعظم نے صدر پرناب مکھرجی سے کابینہ کی میٹنگ کے فوراً بعد ملاقات کے لئے وقت مانگا ہے۔
اسی روز چند گھنٹے قبل وزیر اعظم مودی نے آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ، بحریہ کے سربراہ ایڈمرل سنیل لانبا، فضائیہ کے نائب سربراہ بی ایس دھنویہ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کے ساتھ بھی ایک میٹنگ کی تھی اس لیے افواہوں کا بازار گرم تھا کہ سرحدوں پر کشیدگی کے پیش نظر پاکستان کے خلاف کوئی بڑی کارروائی ہونے والی ہے۔کابینہ کی میٹنگ سے پہلے چند وزیروں نے بھی خدشہ ظاہر کیا تھا کہ چونکہ میٹنگ کا ایجنڈا خفیہ رکھا گیا ہے، اس لئے فوجی کارروائی یا پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے فیصلے کے لئے ان کو طلب کیا جا رہا ہے۔ بالعموم وزیر اعظم ہائوس کی پارکنگ میںگاڑی کھڑی کرنے کے بعد حفاظتی دستے کی گاڑیوں میں خصوصی مہمانوں کو اندر لے جایا جاتا ہے مگر اس بار ہدایت تھی کہ سبھی وزراء عام مہمانوں کی طرح ریسپشن کے ذریعے اندر داخل ہوںگے۔ مقصد یہ تھا کہ کوئی وزیر موبائل فون اندر نہ لے جائے۔کابینہ کی میٹنگ شروع ہونے سے پانچ منٹ پہلے سرکاری نشریاتی اداروں۔۔۔ دور درشن (سرکاری ٹی وی) اور آل انڈیا ریڈیوکو حکم صادر ہوا کہ وزیر اعظم قوم سے براہ راست خطاب کرنے والے ہیں، اس لئے وزیر اعظم ہائوس میں اس کا انتظام کریں۔
کابینہ سے بڑے نوٹوںکی فوری منسوخی کی منظوری ملتے ہی مودی دوسرے کمرے میں قوم سے براہ راست خطاب کرنے کے لئے چلے گئے، مگر وزیروںکو ہدایت دی گئی کہ ان کی تقریر مکمل ہونے تک وہ ہال سے بھی باہر نہ نکلیں۔ بتایا گیا کہ مودی نے پنچ وٹی ہال کا دروازہ باہر سے بندکروا دیا تھا۔ فوجی ذرائع نے بتایا کہ جب جنرل دلبیر سنگھ دوپہرکو میٹنگ کے لئے وزیر اعظم کے دفتر جارہے تھے تو ان کو بھی خدشہ تھاکہ وہ کسی بڑی کارروائی کا حکم نامہ لے کر واپس لوٹیںگے۔ ان کا یہ خدشہ بے وجہ نہیں تھا اس لئے کہ ملٹری انٹیلی جنس نے ان کو بتایا تھا کہ چند روز سے منگل (8 نومبرکی صبح) تک وزارت دفاع کے انتہائی خفیہ حصے میں سیکرٹری مالیات، ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر اور وزیر اعظم کے دو دیگر معتمد افسران براجمان رہے تھے۔ ان کے کھانے پینے اور رہائش کا انتظام بھی وہیں کیا گیا تھا۔ وزارت دفاع میں جن اہلکاروں کو ان کی موجودگی کا علم تھا وہ بھی اسی گمان میں تھے کہ شاید پاکستان کے ساتھ کسی بڑی کارروائی کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ بھارت میں عام بجٹ کی تیاری بھی کم و بیش اسی طرح ہوتی ہے۔ وزارت خزانہ، اطلاعات اور دیگر متعلقہ محکموں کے تقریباً 100اہلکاروں کو وزارت خزانہ کے نارتھ بلاک میں ایک ہفتے کے رسد کے ساتھ بند کر دیا جاتا ہے۔فون اور انٹرنیٹ کے کنکشن کاٹ دیے جاتے ہیں اور پارلیمنٹ میں بجٹ پیش ہونے تک ان کا بیرونی دینا سے رابطہ منقطع کر دیا جاتا ہے۔
مودی کو عوامی منڈیٹ کالے دھن کے خلاف کارروائی اورکرپشن ختم کرنے کے وعدے پر ملا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران ملک اور بیرون ملک کالے دھن کے ہوشربا اعداد و شمار پیش کئے گئے تھے اورخواب دکھائے گئے تھے کہ اگر یہ رقوم ملک میں واپس آتی ہیں تو عوام کو ٹیکس میں چھوٹ ملے گی اور ہر بینک کھاتہ میں 15لاکھ کی رقم جمع ہوگی۔ اس پر مڈل کلاس نے بطور خاص مودی کے حق میں جوق در جوق ووٹ ڈالے۔
کانگریس کے دور حکومت میں کرپشن اسکینڈلز نے بھی مودی کے وعدوں کو پذیرائی بخشی مگر نصف مدت مکمل ہونے کے قریب آکر حکومت کو احساس ہوا کہ سبھی انتخابی وعدے گلے کی ہڈی بنتے جا رہے ہیں۔ پچھلے جون میں فنانشل انٹیلی جنس نے مودی کو بتایا کہ مخفی دولت ظاہر کرنے اورکالے دھن کو سفید بنانے کی اسکیم سے جس کی ڈیڈ لائن 30 ستمبر تھی، محض تین سے چار ارب روپے وصول ہوسکتے ہیں۔ ایک ماہ بعد وزیر اعظم نے سیکرٹری مالیات اور ریزرو بینک کے نئے گورنرکو ہدایت دی کہ وہ بڑے نوٹوں کی منسوخی کے منصوبے پرکام کریں اور اس کو انتہائی خفیہ رکھیں۔ اس دوران یہ افسران فائل نوٹس اور اس سے متعلق خط و کتابت خود ہی ترتیب دیتے رہے۔ ان کو ہدایت تھی کہ اپنے معاون عملے کو اس کی بھنک تک نہ پہنچنے دیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یکم اکتوبرکو جب مودی راشٹرپتی بھون میں صدر مکھرجی کو سرجیکل اسٹرائیکس کے بارے میں بریفنگ دینے پہنچے تو انہوں نے صدر کو کرنسی ایشو کی جانکاری دی تھی۔ اسی طرح کی تجویز خود مکھر جی نے 2012ء میں بحیثیت وزیر خزانہ وزیر اعظم من موہن سنگھ کو پیش کی تھی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔ حالیہ اعلان کا ماخذ بھی مکھرجی کا ہی مسودہ تھا۔ سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم کے بقول من موہن سنگھ کا خیال تھا کہ اس سے جو افرا تفری مچے گی، وہ فوائد سے زیادہ نقصان دہ ہوگی، وہی افرا تفری جو آج بھارت میں دیکھنے میں آ رہی ہے۔
اقتصادی سرگرمیوں کو بریک لگ چکی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے سکیورٹی کا نظام بہتر ہوگا کیونکہ دہشت گردوں اور علیحدگی پسند تحریکوں کی فنڈنگ کو روک لگے گی جو بیرون ملک سے جعلی کرنسی کے ذریعے ہوتی ہے۔ قوم پرستی کے نشے میں سرشار بھارت کی مڈل کلاس اس تھیوری کو قبول کر رہی ہے۔ ایک بینک کے باہر کھڑے لائن میں ایک شخص راقم کی موجودگی میں دوسرے افراد کو تلقین کر رہا تھا کہ پاکستان اور کشمیریوںکو سبق سکھانے کے لئے تھوڑی سی تکلیف جھیل کر مودی کے اس قدم کا ساتھ دو۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ اگست میں پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ ارون جیٹلی اعتراف کر چکے ہیں کہ بھارت میں جعلی کرنسی مجموعی سرکلویشن کا محض 0.02 فیصد ہے۔1000اور500 کے نوٹوں میں اس کی شرح اور بھی کم یعنی 0.047فیصد ہے۔ بھارت میں اس وقت 16460بلین روپے سرکولیشن میں ہیں۔ اس میں ان بڑے نوٹوں کا تناسب 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ ان کو جمع کرنے، تلف کرنے اور نئے نوٹ مارکیٹ میں لانے کا تخمینہ 1500بلین لگایا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کالے دھن کی قلیل مقدار ہی کرنسی نوٹوں کی شکل میں موجود ہوتی ہے۔ کالے دھن کے مالکان اکثر یا تو غیر ملکی بینکوں میں اس کو سٹور کرتے ہیں یا ریئل اسٹیٹ، جیولیری یا اسٹاک مارکیٹ میں اس سے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عام آدمی کو پریشان کرنے کے بجائے مودی کو ان سرمایہ داروں کا حساب کرنا چاہیے تھا جو پبلک سیکٹر بینکوںکا چھ ہزار بلین روپیہ دبا کر بیٹھے ہیں۔ ان کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے عام انتخابات میں مودی کی فنڈنگ کی تھی۔ مودی کو ہیلی کاپٹر اور پرائیوٹ جہاز فراہم کرانے والی اڈانی انڈسٹریزگروپ نے مختلف سرکاری بینکوں سے 960 بلین کا قرض لیا ہے، جو واپس نہیں ہوا۔ مشہور امبانی گروپ کے پاس بینکوں کے 1.03ٹریلین روپے ہیں۔ قصہ مختصر، مودی اگر اس قدم کے ذریعے کالے دھن اور کرپشن پر روک لگانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو تاریخ ان کو ایک انقلابی وزیر اعظم کے طور پر یاد رکھے گی مگر حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ شاید ہی اس کی نوبت آئے۔