مدینہ میں جو اسلامی ریاست قائم ہوئی تھی، اس نے پہلی مرتبہ دنیا میں یہ اصول متعارف کرایا کہ حکمرانی استبداد اور آمریت کا نام نہیں، نہ ہی یہ موروثی جائیداد ہے۔ جو حکمران ہوگا وہ اپنی اہلیت، صالحیت اور صلاحیت کی بنیاد پر عوام الناس کی تائید سے منتخب کیا جائے گا۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا، مگر یہاں اسلام کو مذاق بنا کر رکھ دیا گیا۔ بدعنوانی اور کرپشن نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ ہمیں اپنے گرین پاسپورٹ پر فخر ہوا کرتا تھا مگر آج ہمارا پاسپورٹ دنیا بھر میں حکمرانوں کی ان حرکتوں کی وجہ سے توہین آمیز نگاہوں سے دیکھا جانے لگا ہے۔ کیوں نہ ہوہر سروے میں ہم اپنی کارکردگی کے لحاظ سے بدترین تصویر پیش کرتے ہیں۔ مدینہ کی اسلامی ریاست میں حکمران قومی خزانے کو امانت سمجھتے اور اس کی حفاظت مالِ یتیم کی طرح کرتے۔ ہمارے حکمران اور مقتدر طبقات قومی امانتوں کو شیرِ مادر سمجھتے ہیں۔
مہاتما گاندھی اسلام کا دشمن تھا۔ اس کے باوجود برصغیر کی تحریک آزادی کے دوران اس نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے ایک ایسی بات کہی جس کے کہنے پر وہ مجبور ہوگیا تھا۔ اس نے کہا ''میں تمہارے سامنے آئیڈیل حکمرانوں کے نام پیش کرنا چاہوں تو کرشن اور رام کا تذکرہ نہیں کرسکتا، کیونکہ ان کے کوئی ایسے واقعات نہیں ہیں جو رہنمائی دے سکیں۔ ان کا زمانہ ماقبل تاریخ سے تعلق رکھتا ہے۔ میں اس ضمن میں ابوبکرؓ و عمرؓ کا نام لینے پر مجبور ہوں کہ ایک وسیع ریاست کے حاکم ہونے کے باوجود ان لوگوں نے انتہائی سادہ اور فقیرانہ زندگی بسر کی۔ ‘‘(صدقِ جدید، لکھنو، مورخہ9دسمبر1960ء بحوالہ Harigan، مورخہ 27جولائی 1937ء) ۔ پاکستان کے حکمرانوں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ وہ جن کے جانشین ہیں ان کی عظمت کو دشمن بھی سلام کرنے پر مجبور ہے اور ہمیں آج پوری دنیا میں گالیاں پڑ رہی ہیں۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق شفافیت اور کرپشن فری 175ممالک میں بدقسمتی سے وطن عزیز کرپٹ ترین ممالک میں 127ویں نمبر پر ہے، یعنی 126ممالک ہم سے زیادہ شفاف اور دیانت دار ہیں۔ نیب نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ 150 میگاکرپشن کیس زیر تفتیش یا زیر سماعت ہیں۔ اس کے مطابق شریف برادران کے خلاف بھی 2000ء سے ایک مقدمہ چل رہا ہے، جس میں رائے ونڈ سے اپنے گھر جاتی عمرہ تک سڑک تعمیر کرنے کے سلسلے میں 126ملین روپے کی کرپشن ہوئی۔ اسی طرح وزیراعظم کے خلاف 1999ء میں FIA میں غیرقانونی بھرتیوں کا مقدمہ ابھی تک تفتیش کے مرحلے میں اٹکا ہوا ہے۔ گجرات کے چودھری برادران کے خلاف بھی اختیارات کے ناجائز استعمال اور 2.438 ارب روپے کے مقدمے زیر تفتیش ہیں۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف 23 ملین برطانوی پاؤنڈز، 3.488ملین امریکی ڈالرز اور 1250ملین روپے کے ناجائز اثاثہ جات کے مقدمے بھی فروری2000ء سے زیرتفتیش ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کے قریبی دوست اور بہت بڑے سرمایہ دار میاں منشا کے خلاف بھی 2001-02ء سے اب تک انکوائری چل رہی ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف 22ارب روپے اور ڈیڑھ ارب امریکی ڈالرز کی بدعنوانی کا ریفرنس 2000ء سے زیرالتوا ہے۔(روزنامہ دنیا، 7اگست2015ء)
اس وقت ملک میں احتساب کے لیے ایک تحریک شروع ہے۔ ہر شخص کا بے لاگ احتساب ضروری ہے، خواہ وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں۔ سرکاری ملازمت میں ہو یا کاروبار کے میدان میں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سیرت طیبہ سے یہ بات ثابت کی کہ قبولیت عبادت کی شرط یہ ہے کہ انسان کا رزق حلال ہو۔ اگر حرام رزق کھانے والا دعا کرے تو اس کی دعا اس کے سر سے اوپر نہیں اٹھ سکتی۔آنحضورؐ کی حدیث ہے جس میں آپؐ نے فرمایا اے لوگو! اللہ پاکیزہ ہے اور وہ صرف پاک چیز ہی کو قبول کرتا ہے۔ پھر ایک ایسے شخص کا ذکر کیا، جو طویل سفر کرکے کسی مقدس مقام پر پہنچتا ہے۔ سفر کی وجہ سے پراگندہ حال ہے، جسم اور کپڑے غبار آلود ہیں اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے کہ اے میرے رب! اے میرے رب! جبکہ حالت یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام ، پینا حرام، لباس بھی حرام اور حرام مال ہی سے اس کانشوونما ہوا ہے تو اس آدمی کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے۔ (صحیح مسلم بروایت ابوہریرہ)
جس کسی نے بندوں کے حقوق غصب کیے ہوں گے، قیامت کے دن اس کی کیفیت حدیث میں یوں بیان کی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ حاضرینِ مجلس نے عرض کیا: ہمارے نزدیک مفلس وہ ہوتا ہے جس کے پاس نہ نقدی ہو اور نہ کوئی سامان ہی ہو۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہوگا جو دنیا میں نمازی تھا، روزہ دار تھا، اور زکوٰۃ دیا کرتا تھا، ان عبادات کے اجر و ثواب کے ساتھ میدانِ محشر میں آئے گا۔ اس کے ساتھ اس کا حال یہ ہوگا کہ دنیا میں: (1) کسی کو گالی دی تھی، (2) کسی پر بدکاری کا الزام لگایا تھا، (3) کسی کا ناحق مال کھایا تھا، (4) کسی کی خونریزی کی تھی، (5) کسی کو ناحق مارا تھا۔ ان تمام لوگوں میں جن جن پر اس نے ظلم و زیادتی کی تھی اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی۔ پھر اگر ان مظلوموں کے حق ادا ہونے سے پہلے ہی اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو ان کے گناہ اس کے حساب میں ڈال دیے جائیں گے اور پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم، کتاب البر و الصلۃ والأدب، باب 15، حدیث6744)
اسلامی ریاست جو مدینہ منورہ میں نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں قائم ہوئی اور پھر خلفائے راشدین نے اسے وسعت دی، عدل و انصاف اور جوابدہی و احتساب کے لحاظ سے دنیا میں منفرد ریاست تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے آپ کو صحابہ کے سامنے پیش کرتے کہ وہ چاہیں تو احتساب کرلیں۔ اسی طرح تمام خلفائے راشدین کا عمل تھا۔ گورنر یا ان کے بیٹے بھی اگر کسی کا حق مارتے تو انھیں احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرکے حق دار کا حق اس تک پہنچایا جاتا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خلافت سنبھالی تو اپنا روزینہ اتنا مقرر کیا کہ جتنا قریش کے ایک متوسط گھرانے کا خرچہ تھا۔ اس میں دال روٹی کے علاوہ میٹھا پکوان بنانا ممکن نہ ہوتا تھا۔ ایک دن وہ دسترخوان پر آئے تو کوئی میٹھی چیز دیکھی، پوچھا یہ کہاں سے آئی ہے تو ان کی اہلیہ نے بتایا کہ ہر روز میں ایک مٹھی آٹا بچا کر رکھتی رہی۔ مہینے کے آخر میں وہ آٹا بیچ کر اس میٹھی ڈش کا اہتمام کیا ہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا گزارا اپنے مقررہ معاوضے سے کم میں بھی ہوسکتا ہے۔ پھر اپنے معاوضے میں اندازے سے اس کے مطابق کمی کروا دی۔
اپنے حق سے زیادہ ایک درہم بھی کسی خلیفہ نے کبھی وصول نہ کیا۔ ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے بیت المال کے کمرے کی صفائی کی جہاں سے تمام رقوم حق داروں کو پہنچا دی گئی تھیں، تو ایک کونے میں ایک درہم ملا۔ انھوں نے حضرت عمرؓ کے چھوٹے بیٹے کو یہ درہم دے دیا۔ جب حضرت عمرؓ نے درہم اپنے بیٹے کے ہاتھ میں دیکھا تو حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے فرمایا کہ تمھیں آلِ عمر سے کیا دشمنی ہے کہ تم ان کو دوزخ کی آگ کھلانا چاہتے ہو؟ پھر وہ ایک درہم بیت المال میں واپس کر دیا۔
سیدنا عثمان بن عفانؓ سب سے مال دار صحابی تھے۔ آپؓ نے بارہ سال سے زیادہ بطور خلیفۂ راشد خدمت سرانجام دی اور بیت المال سے کچھ نہیں لیا۔ شہادت کے وقت ان کی ساری دولت صرف ہوچکی تھی اور انھوں نے لوگوں کے سامنے اپنے مکان کی چھت سے اعلان فرمایا کہ میرے پاس صرف دو مکان ہیں، ایک مکہ میں اور ایک مدینہ میں۔ صرف دو اونٹ ہیں مکہ اور مدینہ کے درمیان سفر کرنے کے لیے، کپڑوں کے صرف دو جوڑے ہیں، ایک دھلواتا ہوں اور دوسرا پہنتا ہوں۔ اس کے علاوہ میری کوئی جائیداد نہیں۔ آپ کے خون کے پیاسے فسادی بھی آپ کے اس بیان پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ حکمران کرپشن نہ کریں تو عوام ہرگز ایسا نہیں کرسکتے۔ سیرت رسولؐ اور سیرت صحابہؓ کا یہی پیغام ہے اور اسی کو اختیار کرنے میں ہماری نجات ہے۔
حضرت علیؓ اپنے دورِ خلافت میں سارا مال حق داروں تک پہنچا دینے کے بعد بیت المال کے کمرے میں صفائی کرتے، پھر دو رکعت نفل ادا کرتے اور اس کے بعد اللہ کے سامنے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیتے۔ اس موقع پر وہ زمین کو مخاطب کرکے کہتے کہ اے زمین تجھے قیامت کے دن اللہ کے دربار میں گواہی دینا ہوگی کہ اس کے بندے علی نے اس کے نام پر جو کچھ وصول کیا، وہ اس کے حکم کے عین مطابق حق داروں تک پہنچا دیا۔ پھر سورہ زلزال کی یہ آیات تلاوت کرتے یومئذ تحدث اخبارھاo بان ربک اوحی لھاo۔