تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     15-11-2016

مؤدبانہ گزارش ہے

رومن دور اور اس سے بھی پہلے وقتوں کے بادشاہوں کی تفریحات کے بارے میں تاریخ کی کتابوں میں تفصیلات محفوظ ہیں کہ وہ اپنی ملکہ ، شہزادے شہزادیوں اور مخصوص درباریوں کی تفریح طبع کیلئے کئی کئی دن کے بھوکے رکھے گئے خونخوار درندوں کے سامنے اپنی رعایا، قیدیوں اور مخالفین کو لوہے کے بنائے گئے بڑے بڑے جنگلوں کے اندر چھوڑ دیتے اور جیسے ہی ان کے پنجرے میں قیدی کو چھوڑ ا جاتا تو وہ اس پر آندھی اور طوفان کی طرح ٹوٹ پڑتے کہ ان بد نصیبوں کی چیخ و پکار سے آسمان لرز جاتا۔ اپنی جان بچانے کیلئے ادھر بھاگنے اور جنگلوں کے اوپرچڑھنے کی ناکام کوشش کرتے لیکن بھوکے درندے انہیں گردن سے دبوچ لیتے۔ یہ وحشت ناک منا ظر دیکھ کر اسٹیڈیم میں موجود، تماشائیوں، مصاحبین اور شاہی خاندان کے لوگ قہقہے اور تالیاں بجاتے ہوئے زور زور سے نعرے لگاتے اورلطف اندوز ہوتے ۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں سمجھا جاتا ہے‘ کہ یہ اُن وقتوں اور زمانوں کی باتیں ہیں جب انسانی حقوق اور جمہوریت کا کوئی شعور نہیں تھا نہ ہی انصاف اور قانون کی کوئی کتاب تھی بلکہ وہی قانون بن جاتا جو بادشاہ وقت اور اس کے خاندان کی زبانوں سے نکلتا۔ لیکن پولیس کیڈٹ کالج کوئٹہ میں دہشت گردی سے رومن ایمپائر کا زمانہ آنکھوں میں گھوم گیا۔ یہ یقین اور خیال مسترد کر کے رکھ دیا کہ یہ سب زمانہ جاہلیت کی باتیں ہوا کرتی تھیں؟۔ اب تو اکیسویں صدی ہے جہاں ہر جگہ آئین اور قانون کی اس طرح کی حکمرانی کا دور دورہ ہے کہ آئین سے ذرا سا بھی انحراف کرنے والوں 
پر فوراََ اس کے آرٹیکل 6 کا نفاذ کر دیا جاتا ہے جس کی سزا موت مقرر کر دی گئی ہے۔ کوئٹہ میں ملک کے انتہائی قابل احترام اور بلوچستان بھر کے 70 سے زائد ذہین ترین قابل فخر وکلاء کو جو کوئٹہ کی سیا سی سماجی اور ادبی رونقوں کی پہچان تھے جب سول ہسپتال میں دہشت گردوں کے ٹولے نے انہیں خودد کش دھماکے سے شہید اور90 سے زائد کو زخمی کر دیا جن میں سے کئی عمر بھر کیلئے اپاہج ہو کر رہ گئے اس روح فرسا واقعہ نے ملک بھر میں کہرام مچا دیا ہر آنکھ سوگوار اور ہر گھر میں صف ماتم بچھ گئی دکھ کے آنسو خون بن کر بہنے لگے کیونکہ یہ ایک ایسا زخم ہے اور ایک ایسا کرب ہے اوراس صدی کا سب سے بڑا نقصان ہے‘ جسے بلوچستان کے عوام تو اپنی جگہ پاکستان بھر کے لو گ ہمیشہ محسوس کرتے رہیں گے ۔عدالت عالیہ نے اس پر سو موٹو ایکشن لیا ہوا ہے۔ابھی اس جانکاہ دکھ سے لگنے والا زخم تازہ ہی تھا کہ پولیس کیڈٹ کالج کوئٹہ میں دہشت گردوں نے بلوچستان کے معصوم اور نوجوان نسل کے62 سپاہیوں کو شہید اور118کو شدید زخمی کر کے رکھ دیا۔ یہ بھی ویسا ہی دکھ ہے جس کی شدت کا اندازہ الفاظ کے ذریعے سے لگایا ہی نہیں جا سکتا ۔ دلوں میں کانٹے کی طرح چبھنے والے اس زخم کی کسک بھی وکلاء کی شہا دت کی طرح ہر وقت رلاتی اور تڑپاتی رہے گی۔۔ کیا قابل احترام عدالت عالیہ ان62 معصوم شہداء کے قتل عام پر وکلاء کی شہا دت کی طرح سو موٹو لیںگے ؟۔یہ کسی کا ذاتی نہیں بلکہ وہ سوال ہے جسے ان شہید اور زخمی ہونے والے پولیس کیڈٹس کے ماں باپ بہن بھائیوں اور ان کی بیوگان کی جانب سے جانب اٹھایا جا رہا ہے۔
اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ56 وکلاء اور62 پولیس کیڈٹس کو پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے ایجنٹوں نے ہی قتل کیا ہے لیکن ان پولیس کیڈٹس کو ہاتھ پائوں باندھ کر ان دہشت گردوں کے سامنے کس نے پھینکا؟۔ کیڈٹس کے علاوہ کیپٹن روح اﷲ شہید سمیت پاک فوج کے تین افراد کی شہا دت کا ذمہ دار کون ہے؟والدین کی آنکھوں کے نور اور سہاروں کو کس نے موت کی وادی تک پہنچانے میں مد د فراہم کی۔ یہ کس کی کوتاہی ہے اس کا پتہ چلا ناکوئی مشکل نہیں اور اگر اس پر چیف جسٹس پاکستان سو موٹو ایکشن لیں تو صرف سات دنوں میں مجرم قوم کے سامنے کھڑے ہوں گے۔
ایک سوال جسے متاثرہ خاندانوں کی جانب سے شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ تربیت مکمل کرنے کے بعد گھروں کو جانے والے ان پولیس کیڈٹس کو وزیر اعظم کے کوہاٹ اور بنوں میں ہونے والے جلسوں میں شرکت کیلئے کیوں واپس بلوایا گیا جب انسپکٹر جنرل پولیس بلوچستان وزیر اعلیٰ سے بار بار درخواست کئے جا رہا تھا کہ پولیس کیڈٹ کالج کی دیواریں اور ان کے اوپر گردا گرد پوسٹیں تعمیر کرنے کیلئے فنڈز جاری کئے جائیں تو یہ کوتاہی کیوں کی گئی؟ کیا لاہور میں دیکھتی آنکھوں سے پوشیدہ ہے کہ نیو کیمپس کی 18 کلو میٹر سے زائد طوالت کی بارہ فٹ سے زائد اونچی دیواریں اور ان پر باڑیں ہفتوں میں لگا دی گئی ہیں تو پھر بلوچستان کیلئے فنڈز کہاں گئے؟ دنیا بھر میں یہ مصدقہ اصول ہے کہ اپنی تربیت مکمل کر کے پاس آئوٹ ہونے والے کیڈٹس کو اکیڈیمی یا ٹریننگ سینٹر میں نہیں رکھا جاتا بلکہ اپنے اپنے گھروں میں جانے کیلئے کچھ دنوں کیلئے رخصت دی جاتی ہے لیکن اچانک وہ حکم کیوں جاری ہوا کہ تربیت مکمل کرنے کے بعد گھروں کو جانے والوں کو واپس بلا کر کیڈٹ کالج میں ٹھہرایا دیا گیا جہاں ان کے پاس اسلحہ تو دور کی بات کوئی چاقو چھری بھی نہیں تھی ؟۔ کیا میڈیا کی یہ خبر درست ہے کہ انہیں وزیر اعظم کے کوہاٹ کے جلسے کے بعد عمران خان کے2 نومبر کے اسلام آباد دھرنے کو ناکام بنانے کیلئے بھیجا جا نا مقصود تھا؟۔یہ تو کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ دو ہفتے قبل مردان میں امیر مقام کی جانب سے مسلم لیگ نواز کے جلسہ کی کامیابی کیلئے بلوچستان سے مولانا فضل الرحمان کی جماعت اور مدرسوں کے لڑکوں اور استادوں کے ساتھ ساتھ دو ہزار سے زائد بلوچستان پولیس کے جوانوںکو بھی بھیجا گیا تھااور اس بات کا انکشاف اخباری رپوٹوں سمیت زخمی ہونے والے کئی کیڈٹس نے میڈیا کے سامنے بھی کیاہے۔
ان پولیس کیڈٹس کے ہاتھ پائوں باندھ کر قاتلوں کے آگے پھینکنے کا یہ فیصلہ کس نے کیا؟۔اس سلسلے میں کسی بھی پولیس کے چھوٹے بڑے اہل کار کی جانب سے جاری کیا جانے والا حکم ملک یا صوبے کی کسی اعلیٰ سیا سی قیا دت کے اشارے کے بغیر نہیں دیا جا سکتا ــــ۔۔۔۔غضب خدا کا دہشت گردی کی عفریت میں گھرا ہوا صوبہ بلوچستان جہاں کسی بھی جگہ راہ چلتے پولیس یا سکیورٹی اہلکاروں کو گھات لگائے ہوئے دشمن نشانہ بنانا نہیں چونکتے وہاں200 پولیس کیڈٹس کو خالی ہاتھ بغیر کسی سکیورٹی کے ویرانے میں بٹھادیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جناب انور ظہیر جمالی سے مودبانہ گزارش کرتے ہیں کہ آپ وکلاء کی شہادتوں کی طرح پولیس کے جوانوں کے اس قتل عام پر بھی ایکشن لینے کیلئے سو موٹو نوٹس لیں۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو ان62 معصوم پولیس کیڈٹس کی روحیں روز قیا مت اپنے رب کے حضور حاضر ہو کر دنیا کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے کئے جانے والے قتل عام کے ایک ایک ذمہ داران سے حساب مانگیں گی۔ ان شہداء کے والدین اور یتیم ہونے والے بچوں کے ہاتھ ایسے بد بختوں کے گریبانوں تک ضرور پہنچیں گے۔۔۔۔!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved