تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     16-11-2016

لاہور سے آگے؟ یا بہت پیچھے؟

ہکلانا کوئی جرم نہیں۔ پاؤںمیں موچ آ جائے اور ٹھیک نہ ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ کام سے گئے۔ ہکلانا بھی اسی طرح ہے۔ بس زبان میں موچ آ گئی اور ٹھیک نہیں ہو رہی۔ تحقیق کرنے والے یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہکلانے والے افراد دوسروں کی نسبت زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ ہاں! ہمارے معاشرے کی اور بات ہے۔ جہاں غلام محمد گاما بن جاتا ہے اور رفیق فیقا، وہاں ہکلانے والوں، لنگڑا کر چلنے والوں یا گونگوں بہروں کو کون معاف کرے گا۔ یوں بھی صرف کسی کے مر جانے پر قرآن کو یاد کرنے والی اِس قوم کا ہر اُس ہدایت سے دور کا بھی تعلق نہیں جو قرآن پاک میں کی گئی ہے۔ حقارت سے لوگوں کے نام نہ رکھا کرو۔ قرآن پاک کی ایک واضح ہدایت ہے!
شہرۂ آفاق شاعر قاآنی نے دو ہکلانے والوں کے مکالمے کو شعر کی صورت میں لکھا ہے اور یوں کہ ہکلاہٹ کو شعر کے وزن میں باقاعدہ شامل کیا ہے۔ کوئی تعجب نہیں اگر یہاں کل کوئی طالع آزما شاعر اس کی تقلید میں ایسے شعر کہے اور اپنے آپ کو اِس طرز کا بانی قرار دے دے! پہلے مکالماتی غزل کے ساتھ یہی سوانگ رچایا گیا۔ فارسی ادب میں مکالماتی غزل صدیوں سے لکھی جا رہی ہے۔ اُردو میں کچھ ٹوٹی ہوئی کمر والے (لک ٹٹے) شاعروں نے مکالماتی غزل کہی اور خود کو اس کا موجد قرار دیا۔ یہاں تک کہ ماضی قریب میں مکالماتی غزل کہنے والا نغز گو شاعر سراج الدین ظفر بھی انہیں نظر نہ آیا۔ یہ شعرا اسی طرح ''موجد‘‘ ہیں جیسے استاد امام دین گجراتی موجد تھے۔ استاد سے کسی نے پوچھا حضرت! آپ بی اے اور ایم اے اپنے اسم گرامی کے ساتھ رقم فرماتے ہیں۔ کیا حکمت ہے کیونکہ ظاہر کے لحاظ سے تو آپ کا اِن ادنیٰ ڈگریوں سے دور کا واسطہ بھی نہیں! فرمایا تم درست کہہ رہے ہو۔ بی اے اور ایم کا کاغذ کے اُن بے جان پرزوں سے کوئی تعلق نہیں جو تمہاری نام نہاد یونیورسٹیاں جاری کرتی ہیں۔ بی اے سے مراد ''بانیٔ ادب‘‘ ہے اور ایم اے کا مطلب ''موجدِ ادب‘‘ ہے۔ 
قاآنی کی طرف پلٹتے ہیں۔ 1854ء میں وفات پانے والا یہ شاعر، الفاظ جس کے سامنے سینے پر ہاتھ باندھے،گھٹنوں پر جھکے رہتے ہیں، اُسی شیراز میں پیدا ہؤا جو حافظ اور سعدی کا شہر تھا۔ وہ لغت کا امام تھا۔ شعر دیکھیے ؎
الکنی، کوری، کری، لنگی، شلی، زشتی، کلی
بدسرشتی! احولی! زشتی! نحیفی، ناتواں
لفظ وار ترجمہ تو اس کا یادگارِ سلف حضرت پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی ہی کریں گے۔ مفہوم یہ ہے کہ تو ہکلا ہے، اندھا ہے، بہرا ہے، لنگڑا ہے، بھینگا اور بد صورت ہے اور بد بخت! تو لاغر بھی ہے!
قاآنی ایک بوڑھے اور ایک لڑکے کا باہمی مکالمہ نظم کرتا ہے۔ دونوں ہکلاتے ہیں۔ بوڑھا کہتا ہے ؎
کای ز زلفت صَ صَ صُبحم شَ شَ شامِ تاریک
وی ز چہرت شَ شَ شامم صَ صَ صبحِ روشن
یعنی تیری سیاہ زلف سے میری صبح شام کی طرح اندھیری اور تیرے روشن چہرے سے میری شام صبح کی طرح روشن ہو جاتی ہے۔
طفل گفتا مَ مَ مَن راتَ تَ تو تقلید مکن
گَ گَ گُم شو زبرم ای کَ کَ کم تر از زن
لڑکا سمجھا، بوڑھا اس کی نقل اُتار رہا ہے۔ کہنے لگا، میری نقل نہ اُتار، اے عورتوں سے بھی کم تر بُڈھے، میرے سامنے سے دفان ہو جا!
آخر میں صلح ہو جاتی ہے۔ لڑکا کہتا ہے ؎
مَ مَ من ہم گَ گَ گُنگم مَ مَ مثل تَ تَ تو
تَ تَ تو ہم گَ گَ گُنگی مَ مَ مثلِ مَ مَ من
یعنی میں تمہاری طرح ہکلا ہوں اور تم میری طرح لکنت زدہ ہو! 
لکنت زدہ شخص کی زبان میں اثر، معمول سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ یگانہؔ نے اسی حقیقت کو شعر کر دکھایا ؎
بات ادھوری مگر اثر دُونا
اچھی لکنت زبان میں آئی!
تاہم معروف اداکار یاسر حسین اگر اپنی نئی فلم ''لاہور سے آگے‘‘ کو صرف اس لیے کامیاب قرار دیتے ہیں کہ اس میں انہوں نے لکنت زدہ ہیرو کا کردار ادا کیا اور یہ ثابت کیا کہ ہکلانے والا شخص بھی دنیا میں ترقی کر سکتا ہے تو پھر یہ اس فلم کی پہلی اور آخری خوبی ہے۔ درمیان میں خلا ہی خلا ہے!
گیارہ نومبر کو جس شام یہ فلم ریلیز ہوئی، دارالحکومت کی چند شاہراہوں پر ''باعزت‘‘ سائز کی گاڑیوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے تھے۔ ٹریفک کے بہاؤ میں رخنہ پڑ رہا تھا۔ آسودہ حال خواتین و حضرات اس فلم کا اوّلین شو دیکھنے بادلوں کی طرح گھر کر آئے ہوئے تھے۔ مگر سوچ کا ذرا سا مادہ رکھنے والے ناظرین مایوس ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ زوال تو ہمہ گیر ہے مگر کیا پاکستانی فلم اس قدر زوال سے دو چار ہونا تھی؟؟ پوری فلم میں کہانی ہے نہ مکالمے۔ سکرپٹ یاسر حسین نے خود ہی لکھا۔ ہیرو بھی وہ خود ہیں۔ ہکلاتے ہیں۔ ہیروئن صبا قمر ہیں۔ صبا قمر کو اس فلم میں دیکھ کر بابرہ شریف یاد آئیں۔ ایک فلم میں جس کا عنوان یادداشت سے ہٹ چکا ہے، وہ بے مثال کردار ادا کرتی ہیں اور سارا کمال مکالموںکا ہے۔
''لاہور سے آگے‘‘ میں کہانی بالکل عام سی ہے۔ اوسط سے کئی درجے نیچے۔ موتی (یاسر حسین) کے ماموں (بہروز) شمالی علاقہ جات میں رہتے ہیں اور بیمار ہیں۔ ممانی (روبینہ اشرف) بھانجے (موتی) کے خلاف سازش کرتی ہے اور اسے راستے سے ہٹانے کے لیے دو قاتل مامور کرتی ہے۔ اِن دو قاتلوں کی اداکاری مکمل غیر معیاری اور بچگانہ ہے۔ بچوں کی تفریحی فلموں میں بھی اس سے زیادہ پختگی پائی جاتی ہے۔ اشتیاق احمد مرحوم حیات ہوتے تو بہت ہنستے۔ بچوں کی کہانیوں میں ان کے کردار کئی گناہ زیادہ جاندار تھے۔
چلیے، کہانی تو جوہے، سو ہے، یاسر حسین کی ہکلاتی اداکاری ضرور لائقِ تحسین ہے، تاہم المیے اس فلم میں دو پہلوؤں سے سامنے آئے ہیں۔ صبا قمر کو ہیروئن کم اور رقاصہ زیادہ دکھایا گیا۔ وہ بہت جاندار اداکاری کر سکتی تھیں بشرطیکہ مکالموں میں جان ہوتی۔ حقیقت میں فلم میں مکالمے سرے سے ہیں ہی نہیں! جو تھوڑے بہت سنائی دیتے ہیں، پھُسپھسے ہیں۔ سارا زور رقص پر ہے۔ صبا قمر ہیروئن سے زیادہ گِٹارن لگتی ہیں۔ پے در پے رقص کے مناظر مناسبت سے دور ہیں۔ سیٹ اپ غیر حقیقی اور عملی زندگی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں۔ دوسرا المیہ یہ ہوا کہ شمالی علاقہ جات کو دکھانا ہی تھا تو بہتر طور پر دکھایا جا سکتا تھا۔ جو مناظر دکھائے گئے وہ خوبصورت تو ہیں، اس لیے کہ شمالی علاقہ جات کا ہر حصہ خوبصورت ہے مگر ایسی نمایندگی نہیں کرتے جیسی ہونی چاہیے تھی۔ تشنگی اپنا احساس دلاتی ہے۔ رقص کے مناظر میں جس طرح چہروں پر نشانات دکھائے گئے ہیں، ان کا افریقی قبائل سے تو تعلق ہو سکتا ہے، شمالی علاقہ جات میں ایسا ہر گز نہیں ہوتا۔ بہروز سبزواری اور روبینہ اشرف جیسے کامیاب اور مانے ہوئے اداکاروں کے ساتھ بھی انصاف نہیں ہوا۔ ان کے کردار اور مکالمے زیادہ بھرپور ہو سکتے تھے۔ مجموعی طور پر ان کے کردار بے اثر اور غیر نمایاں ہیں۔ ایک جھلک عتیقہ اوڈھو کی دکھائی گئی ہے۔ پھر وہ فوراً منظر سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔ ان کی اداکاری کا حصہ ذرا زیادہ طویل ہوتا تو فلم کا مجموعی تاثر بہتر ہو سکتا تھا۔ 
کیا یاسر حسین کو فلم کا سکرپٹ خود لکھنا چاہیے تھا؟ یہ وہ سوال ہے جو فلم کے بے اثر ہونے کا عقدہ وا کر سکتا ہے۔ یاسر حسین کہانی کسی منجھے ہوئے ادیب سے لکھواتے یا ایسے سکرپٹ رائٹر سے جو زیادہ سرد وگرم چشیدہ ہوتا۔ بہتر سکرپٹ اور جاندار مکالمے یاسر حسین کی اداکاری کو چار چاند لگا سکتے تھے۔ یوں صبا قمر کو بھی ایسا کردار مل جاتا جو ان کی صلاحیت سے ہم آہنگ ہوتا!
یہ سب بجا، تاہم یاسر حسین کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ لکنت زدہ ہونے سے صلاحیتوں پر منفی اثر نہیں پڑتا۔ ہکلانے والے افراد کو تضحیک کا نشانہ بنانا پست ذوق لوگوں کا کام ہے۔ کسی کے جسمانی نقص کا مذاق اُڑانے کو نرم سے نرم الفاظ میں بھی کمینگی ہی کہا جا سکتا ہے۔
اس میں کیا شک ہے کہ یاسر حسین میں بہت ٹیلنٹ ہے۔ اس ٹیلنٹ کا حقیقی مظاہرہ وہ کب کرتا ہے؟ انتظار کرنا ہو گا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved