تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     16-11-2016

فوکسی کا قصہ اور حکمرانہ سخاوت

وہی ہوا جس کا دھڑکا تھا مگرایمانداری کی بات ہے کہ یہ سب کچھ اتنی جلدی ہو گا، اس کی توقع کم از کم مجھے تو ہرگز نہ تھی۔ نئے گورنر سندھ عالی جناب جسٹس(ر) سعید الزماں صدیقی جس روز گورنر سندھ نامزد ہوئے کسی ستم ظریف نے ان کی گزشتہ بار ہسپتال سے واپسی والی نحیف و نزار قسم کی تصویر سوشل میڈیا پر لگا دی۔ اس کے بعد لطیفوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہی شروع ہو گیا۔ اگر ان لطیفوں کو دس پر بھی تقسیم کر کے یقین کیا جاتا تو بھی گورنر صاحب کے جلد ہسپتال جانے کے امکانات خاصے روشن تھے مگر اتنی جلدی کی توقع شاید لطیفے گھڑنے والوں کو بھی نہ تھی، ہم کس باغ کی مولی ہیں۔
عالی مرتبت گورنر صاحب کی تصویر دیکھ کر خدا جانے مجھے میر صاحب کی فوکسی کیوں یاد آ گئی۔ میر صاحب نے گاڑی خریدنے کا ارادہ کیا اور مارکیٹ میں سروے شروع کر دیا۔ شروع تو وہ کسی سکینڈ ہینڈ مرسڈیز سے ہوئے مگر اپنی ازلی کنجوسی اور مرسڈیز کی قیمت کے حسین امتزاج کی وجہ سے فوری طور پر کسی سکینڈ ہینڈ سوزوکی آلٹو پر آ گئے۔ اسی دوران کسی نے ان کو مشورہ دیا ک آلٹو پر بھروسہ نہ کرنا بلکہ بہتر ہے کہ اس کی جگہ اس سے پہلا ماڈل یعنی سوزوکی ایف ایکس خرید لو۔ سوزوکی ایف ایکس کی خوش قسمتی اور میر صاحب کی بدقسمتی کہ پورے شہر میں کوئی ڈھنگ کی ایف ایکس کم از کم برائے فروخت نہیں تھی۔ جن کے پاس تھی وہ اسے بیچنے پر اول تو راضی ہی نہ تھے اور اگر ایک آدھ بادل نخواستہ راضی ہوا بھی تو وہ میر صاحب کا اشتیاق اور بے قراری دیکھ کر پھیل گیا اور ایک پنجابی محاورے کے مطابق اس نے ''پیؤ دا پیومُل‘‘ لگا دیا۔ میر صاحب اس ساری صورتحال سے بڑے دل برداشتہ ہوئے اور انہوں نے مایوس ہو کر کار خریدنے کا ارادہ ترک کر کے ایک عدد برانڈ نیو چائینز موٹر سائیکل خریدنے کا فیصلہ کر لیا۔ اسی دوران جب وہ جیب میں موٹر سائیکل کے پیسے ڈال کر بازار جا رہے تھے، ان کے ایک عزیز موٹر مکینک نے آواز دے کر اپنی ورکشاپ میں بلایا اور ایک مٹی کے ڈھیر کی طرف اشارہ کر کے کہا قبلہ میر صاحب ! آپ یہ گاڑی خرید لیں۔ کوڑیوں کے مول مل رہی ہے۔ فور وہیل گاڑی ہے، بھابی بچے سواری کریں گے، دھوپ بارش میں ذلت و خواری سے محفوظ رہیں گے۔ اس سے موٹر سائیکل کا کیا مقابلہ؟ میر صاحب نے حیرانی سے اس عجوبے کو دیکھا اور پوچھا یہ گاڑی ہے؟ استاد بلو بھائی نے پنچھی پھنستا دیکھ کر فوری آواز لگائی۔ اوئے چھوٹے! فوکسی پر کپڑا مار۔ تھوڑی دیر بعد مٹی کے نیچے سے ایک کوہان نما کبڑی سی گاڑی ٹائپ چیز برآمد ہو گئی۔ استاد بلو نے کہا میر صاحب!صرف تیس ہزار روپے میں یہ گاڑی مل جائے گی، چار چھ ہزار روپے مرمت پر لگیں گے اور گاڑی تیار۔
میر صاحب نے جیب میں پڑے ہوئے چالیس ہزار کو ہاتھ سے تھپتھپایا اور بولے بلو بھائی ! بیس ہزار سے ایک پیسہ اوپر نہیں دوں گا۔ بلو بھائی نے کہا کہ یہ گاڑی میری نہیں ورنہ آپ کو فری میں دے دیتا۔ یہ گاڑی قریشی صاحب کی ہے اور انہوں نے مرمت کے لیے کھڑی کی ہوئی ہے۔ دو سال سے وقت ہی نہیں ملا۔ آپ کہیں تو کام شروع کر دوں، پندرہ بیس دن میں اے ون کر دوں گا۔ تھوڑی سی ردو کد کے بعد گاڑی پچیس ہزار میں ڈن ہو گئی اور دس ہزار روپے مرمت کے لیے ایڈوانس ادا کر دیے گئے ۔ میر صاحب کو گاڑی بھی مل گئی اور دس ہزار روپے بھی بچ گئے۔ اب مرمت شروع ہو گئی جو ڈینٹنگ پینٹنگ سے ہوتی ہوئی نئے ٹائروں سے چلتی ہوئی انجن کی اوور ہالنگ تک پہنچ گئی۔ نہایت گھٹیا کوالٹی کے رنگ روغن اور چالو کام کے بعد ڈیڑھ ماہ میں گاڑی تیار ہو گئی۔ میر صاحب گاڑی گھر لے آئے، پانچویں دن گاڑی نے سٹارٹ ہونے سے انکار کر دیا۔ پتا چلا کہ ایک کنڈم بیٹری کو کسی طرح چارج کر کے فٹ کر دیا گیا تھا، چارجنگ ختم ہوئی تو کھیل بھی ختم ہو گیا۔ اب نئی بیٹری ڈلوائی گئی۔ ہفتے بعد گاڑی عین چوک میں بند ہو گئی اور دھکا دے کر سائیڈ پر لگوائی گئی، پھر گدھا گاڑی سے باندھ کر ورکشاپ پہنچائی گئی۔ اگلے چھ ماہ گاڑی گھر سے سڑک اور سڑک سے ورکشاپ اور ورکشاپ سے گھر تک کے روٹ پر بڑی کامیابی سے چلتی رہی۔ اس دوران اس نے سب سے کم وقت سڑک پر‘ اس سے زیادہ گھر کے گیراج میں اور سب سے زیادہ وقت ورکشاپ میں گزارا۔ تین سال ہونے کو ہیں، گاڑی بلو بھائی کی ورکشاپ کے اسی کونے میں کھڑی ہے جہاں میر صاحب نے اس کی پہلی بار زیارت کی تھی۔
قارئین ! حالانکہ اس فوکسی والی سٹوری کا اپنے گورنر سندھ صاحب سے کوئی بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق نہ ہے مگر اللہ جانے میرے دل میں ان کی تصویر دیکھنے اور شتابی سے ہسپتال جانے کا سن کر اس واہیات فوکسی کی یاد کیوں اور کیسے آ گئی۔ غالب نے غالباً ایسی ہی کسی صورتحال کے پیش نظر اپنا مشہورو معروف شعر کہا تھا ؎
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے
ایسے خیالات کا آنا کیونکہ غیب کا معاملہ ہے اور بندہ بشر اس سلسلے میں بالکل بے قصور ہوتا ہے، یہی حال اس عاجز کا ہے۔
ایک ستم ظریف نے جناب سعید الزمان صدیقی صاحب کی تصویر کے نیچے کیپشن لگایا کہ گورنر ہائوس سے ''ڈاکٹر‘‘ رخصت ہو گیا اور ''مریض‘‘ آ گیا ہے۔ ایک اور ستم ظریف نے لکھا کہ اپنے گھر اوراردگرد موجود ضعیف العمر اور بیمار لوگوں کا خاص خیال رکھیں، کیا پتا وہ کس وقت گورنر لگ جائیں۔
کل چوہدری بھکن ملا اور کہنے لگا اگر میاں صاحب، سعید الزمان صدیقی صاحب کو دو چار ماہ قبل گورنر لگا دیتے تو صوبہ سندھ کا نام گینز بک آف ورڈ ریکارڈ میں آ جاتا۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟تو چوہدھری کہنے لگا اپنے گورنر صاحب اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ مل کر دنیا بھر کے کسی صوبے کے بزرگ ترین انتظامی اور آئینی سربراہ کا مشترکہ ریکارڈ بنا لیتے جو شاید کئی صدیوں تک قائم رہتا اور اس بہانے یہ دو بزرگ حضرات تاریخ میں امر ہو جاتے۔
چوہدری کہنے لگا ڈاکٹر عشرت العباد صوبے کے چودہ سال گورنر رہے، جیسے ہی فارغ ہوئے اگلے روز دوبئی روانہ ہو گئے۔ ہمارے حکمران پاکستان میں صرف حکمرانی کے لیے آتے ہیں اور جیسے ہی حکومت سے فارغ ہوتے ہیں بیرون ملک روانہ ہو جاتے ہیں۔ زرداری صاحب کو دیکھیں‘ رحمان ملک کو دیکھیں‘ پرویز مشرف کو لے لیں اور اب عشرت العباد کو دیکھیں۔ چودہ سال گورنری کی اور گورنری سے رخصت ہوتے ہی پاکستان سے کوچ کر لیا۔ چوبیس گھنٹے بھی کراچی میں نہیں گزارے اور دوبئی روانگی ہو گئی۔ میں نے کہا تمہیں اس روانگی کی فکر ہے اور میرے دل میں سوال یہ ہے کہ آخر عشرت العباد کے پاس کیا گیدڑ سنگھی تھی کہ پرویز مشرف کے دور میں گورنر بنے، پیپلز پارٹی کے سارا دور گورنری فرمائی اور پرویز مشرف سے دلی عناد کی آخری سیڑھی پر چڑھے ہوئے میاں نواز شریف نے بھی اپنی وزارت عظمیٰ کی بیشتر مدت انہیں گورنر بنائے رکھا۔ اگر وہ الطاف حسین کے نمائندے تھے تو انہیں بہت پہلے اسی وقت فارغ کر دینا چاہیے تھا جب الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف بکواس کی تھی۔ اگر ایم کیو ایم کے نمائندے تھے تو انہیں ایم کیو ایم کب سے فارغ قرار دے چکی تھی۔ اگر صوبائی حکومت کی ضرورت تھی تو وہ پیپلز پارٹی کا مسئلہ ہے جو سندھ کی حکومت سنبھالے ہوئے ہے، گورنر تو وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے۔ جب عشرت العباد کو گورنر سندھ لگایا تھا تب مسلم لیگ والے شور مچاتے تھے کہ قاتل کو گورنر لگا دیا ہے اور اب نہال ہاشمی نے اس کے خلاف بیان دیا تو وزیر مملکت اطلاعات و نشریات نے فرمایا کہ یہ نہال ہاشمی کی ذاتی رائے ہے اور حکومت کا اس بیان سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے؟
چوہدری کہنے لگا تُو پرانے گورنر کو جانے دے، وہ جہاں سے آیا تھا وہیں واپس چلا جائے گا، تُو ذرا نئے بلکہ بالکل نئے نکور گورنر کی بات کر۔ آخر اسے اس عمر میں کس بات کا عوضانہ ادا کیا جا رہا ہے؟ میں نے کہا ان کے کیرئر میں جو دو وفادارانہ واقعے بیان کیے جاتے ہیں وہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف عدلیہ کی بغاوت کو ہلا شیری دینا اور پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانا ہے۔ چوہدری کہنے لگا پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے کو ساڑھے تین سال بعد گورنر بنانے کا خیال آیا اور اس دوران پی سی او جاری کرنے والے کا نمائندہ گورنر ہائوس میں مزے کرتا رہا۔ میں نے پوچھا کہ چوہدری آخر اس عمر میں گورنر بننے کا کیا فائدہ؟ چوہدری کہنے لگا گورنر نے کوئی دانت سے اخروٹ توڑنے ہوتے ہیں کہ نوجوانی میں لگایا جائے۔ گورنر نے کرنا ہی کیا ہوتا ہے؟ بھلا یہ کوئی مشقت والی جاب ہے کہ میڈیکلی فٹ بندے کو گورنر لگایا جائے۔ تم فون کر کے اپنے رجوانہ صاحب سے پوچھ لو کہ وہ کون سا کام ہے جس میں عمر حائل ہوتی ہے۔ بندۂِ خدا گورنر کے پاس کوئی کام ہی نہیں تو عمر وغیرہ کا کیا مسئلہ ان پڑا ہے؟ میں نے پوچھا کہ کیا صدیقی صاحب مفت علاج معالجے کی سرکاری سہولت سے مستفید ہونے کے لیے گورنر بنے ہیں؟ چوہدری زور سے ہنسا اور کہنے لگا، یہ سہولت تو انہیں بحیثیت سابق چیف جسٹس آف پاکستان بھی حاصل تھی۔ میرا خیال ہے ان کی نظر اس سے بھی آگے پر ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ چودھری کہنے لگا، مٹی پائو اس اگلی بات پر ۔ آئو دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمارے اس نئے گورنر کو صحت عطا فرمائے اور حکمرانوں کو اس قسم کی سخاوت کی مزید توفیق دے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved