کون ہے جو اِس حقیقت سے انکار کرے کہ بھارت خطے کا سب سے بڑا ہی نہیں، سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور خاصا منظّم و باضابطہ ملک بھی ہے؟ آزادی کے بعد 69 برس میں اُس نے آبادی کے حجم اور قدرے وسیع رقبے کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ تعلیم و تربیت کا بھرپور اہتمام کر کے افرادی قوت کی تیاری اور برآمد کے معاملے میں بھارت بہت آگے رہا ہے۔ بڑے ممالک اور تنظیموں سے وسیع البنیاد دوستی یا پارٹنرشپ کے ذریعے اپنی بات منوانے میں بھارت بہت حد تک کامیاب رہا ہے۔ بڑی مارکیٹ ہونے کا جس قدر بھی فائدہ بھارتی قیادت بٹور سکتی ہے وہ اُس نے بخوبی بٹورا ہے۔
آج دنیا بھر میں بھارت کے لاکھوں نالج ورکرز کام کر رہے ہیں اور اُن کی بدولت معرض وجود میں آنے والی ترسیلاتِ زر سے ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر قابل رشک حد تک پہنچ چکے ہیں۔ بھارت میں مجموعی طور پر قوم پرستی یا وطن پرستی بھی پائی جاتی ہے۔ یہ سب تو ٹھیک ہے مگر...
بھارت کا بنیادی مسئلہ یہی ہے۔ وقفے وقفے سے ''مگر‘‘ پیدا ہوتا رہتا ہے۔ اِس ''مگر‘‘ کو پیدا کرنے میں کسی اور کا نہیں، خود سیاسی قیادت کا ہاتھ ہے۔ بھارت کے اہلِ دانش تو بہت حد تک غیر جانبدار رہتے ہوئے ملک کو متوازن رکھنے پر زور دیتے ہیں مگر سیاسی قیادت کا ایجنڈا کچھ ایسا رہا ہے جیسے کوئی اپنے پیروں پر کلہاڑی، بلکہ کلہاڑا چلانے پر بضد ہو!
انتہائی دائیں بازو کے ہندوؤں کی انتہا پسند... بلکہ صاف صاف اور براہِ راست کہیے تو مسلم مخالف سوچ نے ہر دور میں بھارت کی اجتماعی یکجہتی اور قومی وحدت کو نقصان پہنچایا ہے۔ مسلم مخالف سوچ ایک ایسے عِفریت کے مانند ہے جو طویل نیند کے بعد جاگ کر تباہی پھیلاتا ہے اور پھر سو جاتا ہے۔
انتہا پسند ہندو تنظیموں کے مجموعے ''سنگھ پریوار‘‘ نے کئی عشروں تک معاشرے کو دبوچ کر رکھا۔ اِس پریوار نے پوری کوشش کی کہ مسلمانوں کو بھارتی پریوار کا حصہ نہ بننے دیا جائے یعنی اُنہیں ہمیشہ اجنبیت کے دائرے میں مقیّد رکھا جائے۔ انتہا پسند ہندو جب مسلمانوں کو تکلیف دینے سے کلیجہ مکمل طور پر ٹھنڈا کرنے میں ناکام رہے تو عیسائی اور دیگر اقلیتوں کی باری آئی۔ پچھڑے ہوئے طبقے سے تعلق رکھنے والے ہندو (دَلِت) تو پہلے ہی نشانے پر تھے۔
سنگھ پریوار کا زور توڑنے یا اُسے معقول حد تک کمزور کرنے میں کامیابی ملی تو ملک میں کچھ سکون ہوا۔ اب پھر وہی بے ڈھنگا جُنون انگڑائیاں لے کر بیدار ہو رہا ہے یا پھر یُوں کہیے کہ شیر کو، بظاہر کسی جواز کے بغیر، جگایا جا رہا ہے۔ نریندر مودی وہی غلطی کر رہے ہیں جو اُن کے پیش رَو کر چکے ہیں اور نتائج بھی بھگت کر بیٹھے ہیں۔
''ہندُتوا‘‘ کی سوچ کو لگام دینے اور پچھاڑنے کی ضرورت ہے مگر مودی اُسے مزید توانا کر رہے ہیں تاکہ آئندہ عام انتخابات کے لیے بی جے پی کا ووٹ بینک مزید تگڑا ہو جائے۔ ہندوؤں کو دھرم کے نام پر لُبھانے اور خود کو ہندو دھرم کا حقیقی محافظ ثابت کرنے کے لیے بی جے پی اوچھی حرکتوں پر اُتر آئی ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خلاف بنگلہ دیش کے ایک نوجوان کے بیان کی بنیاد پر کارروائی کر کے یا طارق فتح جیسے اسلام و مسلم بیزار نام نہاد دانشوروں کو میدان میں لا کر ہندوؤں کو اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے مزید بدگمان کرنے کی بھونڈی کوشش کی جا رہی ہے۔ طارق فتح جیسے لوگوں کو خرید کر ڈاکٹر ذاکر نائیک اور دیگر مبلّغین کے خلاف میڈیا پر لا کر بھارت بھر کے مسلمانوں کو احساس دلایا جا رہا ہے کہ ملک کی واضح اکثریت اُنہیں کھلے دل سے اپنانے کا اب بھی کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔
الیکٹرانک میڈیا میں بھارت کی پیش رفت ڈھکی چُھپی نہیں‘ مگر بنیادی سوچ نے دم نہیں توڑا۔ تفریحی پروگراموں کی آڑ میں اب بھی پڑوسیوں کے ذہن مسخّر کرنے کی شعوری کوشش دکھائی دے رہی ہے۔ کسی نہ کسی طور دوسروں کو نیچا دکھانے اور اُن کے ذہن مسخّر کرنے کی سوچ کب دم توڑے گی؟ یہ سوچ چینی لوک داستانوں میں پائے جانے والے اُس روایتی اژدہے کی سی ہے جو شدید بھوک لگنے پر کچھ نہ ملے تو اپنے آپ کو کھانا شروع کر دیتا ہے!
مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی آنچ تیز ہو چکی ہے۔ ایک بار پھر بھارت بھر میں یہ احساس یا تاثر توانا کیا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کو چَین سے جینے نہیں دیا جائے گا۔ بھارتی معاشرہ مجموعی طور پر مسلم مخالف نہیں۔ عام ہندو اور خاص طور پر جنوب یا جنوب مشرق کا ہندو مزاجاً مسلم مخالف نہیں مگر ایسی فضا تیار کرنے کی کوشش جاری رہتی ہے جس میں مسلمانوں کو قبول کرنے کی گنجائش کم سے کم ہو۔ ہندوؤں کی غالب اکثریت کو سازش کے تحت انتہا پسندی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کسی طور دم نہیں توڑ رہی۔
بھارتی قیادت کے لیے یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔ ملک بھرپور ترقی اور خوش حالی کی بڑھنے کی تیاری کر رہا ہے۔ کئی شعبوں اور خطوں میں بھارت نے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ تعلیم اور تربیت سے آراستہ افرادی قوت برآمد کر کے بھارت نے دنیا بھر میں اپنی اہلیت منوائی ہے۔ بھارت میں بھی بیرونی سرمایہ کاری بڑھتی جا رہی ہے۔ لیکن اگر ملک کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کی گئی، اُسے مرکزی دھارے سے الگ کر کے جوہڑ میں تبدیل کرنے کی سازش پر عمل جاری رہا تو بہت کچھ بڑی تیزی سے داؤ پر لگ سکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو بھرپور عسکری قوت سے کچل کر بھارتی قیادت یہ نہ سمجھے کہ معاملات قابو میں ہیں۔ عالمی برادری میں اُس کا امیج بگڑ رہا ہے۔ اگر امیج کے بگڑنے کی یہی رفتار رہی تو بھارت کے لیے بہت کچھ نہیں رہے گا۔
اس وقت بھارت عالمی برادری میں اپنے آپ کو منوانے کے لیے پورٹ فولیو مضبوط کر رہا ہے۔ ایسے میں بھارتی مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنا اور مسلم مخالف فضا پیدا کرنا چہ معنی دارد؟
شیشے کے گھر میں رہنے والوں کو دوسروں پر پتھر نہیں پھینکنے چاہئیں۔ اِس بار بھی بھارتی قیادت اپنے گھر کا سارا کچرا پڑوسی کے آنگن میں پھینکنا چاہتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی دگرگوں صورتِ حال کو کنٹرول کرنے اور کشمیریوں کے دل جیتنے کی کوشش کرنے کے بجائے بلوچستان میں آگ لگائی جا رہی ہے۔ ایک زمانہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد وہیں کے کشمیریوں کی ہے، باہر سے مال آرہا ہے نہ سامان!
''چائنا شاپ میں بیل‘‘ والی کہاوت تو آپ نے بھی سُنی ہی ہو گی۔ اِس وقت بھارت ترقی کے اعتبار سے نازک صورتِ حال کا حامل ہے۔ دنیا بھر میں وہ اپنا پورٹ فولیو بہتر بنانے کی بھرپور اور بہت حد تک کامیاب کوشش کر رہا ہے۔ ایسے میں اُسے اپنی ہی سرزمین پر ایسے گروپ کھڑے نہیں کرنے چاہئیں جن کے پاس ناراضی کا جواز بھی ہو اور ناراضی کے اظہار کی سَکت بھی! کیا مودی اینڈ کمپنی نے یہ بات بُھلا دی ہے کہ ترقی کے لیے سازگار ماحول لازم ہے۔ امن بھی ہونا چاہیے اور سیاسی استحکام بھی۔ اچھے خاصے ماحول کو مودی اور اُنہی کی فکری قبیل کے دیگر افراد برباد کرنے پر کیوں تُلے ہوئے ہیں؟ نئی دہلی کے بزرجمہروں کو سوچنا ہی چاہیے کہ اگر بھارت کے لیے
A bull in the china-shop
والی صورتِ حال پیدا ہو گئی تو کیا ہو گا؟ مسلمانوں کو اجنبی گردان کر الگ تھلگ کرنے کی شعوری اور ہٹ دھرمی پر مبنی کوشش کیا اُنہیں بیزاری اور انتہا پسندی کی طرف نہیں دھکیلے گی؟ اُنہیں مرکزی دھارے سے الگ کرنے کی سازش کیا ملک بھر میں کئی جوہڑ پیدا نہیں کرے گی؟ 20 کروڑ سے زائد افراد کو یُوں ریوڑ کی طرح ایک طرف ہانکا نہیں جا سکتا۔ بھارتی قیادت نے ہمیشہ مفاد کے مطابق کام کرنے کو ترجیح دی ہے۔ اب ذرا عقل سے بھی کام لینے کی ضرورت ہے۔
جنرل ضیاء الحق نے 1987ء میں کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے جے پور پہنچ کر اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم آں جہانی راجیو گاندھی کے کان میں جو کچھ کہا تھا اُس نے پاکستان پر جنگ مسلّط کرنے کے بھارتی خواب کو چکنا چور کر دیا تھا۔ کیا مودی چاہتے ہیں کہ پاکستان سے پھر کوئی آئے اور اُن کے کان میں فیصلہ کن فُسوں پُھونک کر دماغ اور مزاج کی کجی دُور کرے؟