اس نے فرمایا تھا: ابو سعید‘ خراسان کی پہاڑیوں میں360اولیاکو ہم نے دیکھا۔ ایک زمانہ آئے گا کہ کوئی ایک بھی نہ ہو گا۔ پھر کیا خدا کی تلاش تم ترک کر دوگے؟
ٹریفک کے بے ہنگم‘ بدتمیز اژدہام سے گزر کر، ہمہ وقت شاہراہ قائداعظم پر جو اضطراب پھیلاتا اور زہر اگلتا رہتا ہے‘ دفتر آ پہنچا۔ سوالات کا ایک انبار ذہن میں تھا۔ اسی ٹریفک کی طرح الجھا ہوا۔ سحر سے شام اور شام سے سحر تک شیخِ ہجویرؒ کے مزار پہ اس قدر ہجوم کیوں برپا رہتا ہے؟لوگ وہاں کیا ڈھونڈنے آتے ہیں؟
پوچھا گیا : صدیاںگزر جانے پربھی فقیر کو کیا آپ زندہ سمجھتے ہیں؟عرض کیا : اخبار نویس کا یہ منصب نہیں‘ ان سے پوچھیے‘ مرتبے جن کے سوا ہیں‘ علم سوا ہے۔ اصرار باقی رہا ‘ گزارش کی : تمہارے لیڈر کے لیے‘ جو اقتدار سے اس طرح چمٹا ہے کہ ہر طعنہ اور تکلیف گوارا ہے‘ رزق کا بندوبست رعایا کرتی ہے۔ اس کی آل اولاد کے لیے بھی۔ فقیر ہے کہ لاکھوں آدمی اس کے دستر خوان پہ سیر ہوتے ہیں۔ اللہ جانے‘ زندہ کون ہے اور مردہ کون؟
فرغانہ سے بہت دور‘ پہاڑوں کے دامن میں واقع اس گائوں میں 432 برس بعد‘ اس کا نصب کردہ پتھر تلاش کر کے‘ بالآخر ازبکستان کے قومی عجائب گھر میں رکھ دیاہے۔ بادشاہ کا۔ شاعروں پہ وہ رشک کیا کرتا‘ ظہیر الدین بابر۔اس کا قول یہ تھا : حکمرانوں کو لوگ فراموش کر دیتے ہیں‘ شاعر سچا ہو تو صدیوں تک جیتا ہے۔ شکست خوردہ‘ سارا شاہی سازوسامان وہ سمرقند میں چھوڑ آیا تھا۔ جوتے ٹوٹ گئے تھے‘ ترائیوں پر ننگے پائوں گھومتے‘ وہ کھیتوں میں جُتے کاشتکاروں کو دیکھتا۔ ان کی‘ پرندوں کی سی آسان زندگی پہ حیرت کیا کرتا۔ کبھی شاعری میں عمر بتا دینے اور کبھی کسی خانقاہ کا حصہ ہو جانے کی آرزو پالتا۔ فقر لیکن حکومت تو نہیں کہ لشکر کشی سے مِل جائے‘ جوڑ توڑ سے باقی و برقرار رہے‘ بچا لی جائے۔ پوری زندگی وہ طلب کرتا ہے‘ ایک ایک سانس ۔پوپھٹنے سے شفق پھیلنے تک‘تاریکی پھیل جانے سے‘ اجلی سویر تک‘ سحر جب سانس لیتی ہے ‘خلقِ خُدا دیوانہ وار جب یافت کے لیے نکلتی ہے۔
رفتہ رفتہ‘ دھیرے دھیرے‘ مدھم ہوتے‘ ہوتے ہوتے‘ عالمِ دین کا ذکر تمام ہو تا ہے۔ ملحد تو مر جاتے ہیں‘ بہت سے پاگل ہو کر اور جلد ہی بھلا دیئے جاتے ہیں۔ صوفی کیوں زندہ رہتا ہے‘ کبھی کبھی تو آنے والے سب زمانوں میں۔ وقت اسے بوسیدہ کیوں نہیں کرتا؟
شاید وہ برصغیر میں تصوف کے آخری بڑے تاجدار تھے۔ خواجہ مہر علی شاہؒ سے قرآن کریم کی آیت کے بارے میں سوال کیا گیا۔ کتاب کہتی ہے :''اللہ کو یاد کرو گے‘ وہ تمہیں یاد کرے گا‘‘۔ اللہ کیسے اور کیونکر بندے کو یاد کرتا ہے۔ فرمایا : دیکھتے نہیں کہ نگاہوں سے وہ روپوش ہو جاتے ہیں‘ پھر بھی خلق ان کا پتہ پوچھتی ہوئی آتی ہے۔ دور دراز کی بستیوں سے بھی۔
صوفی مگر ہے کون؟داتا دربار کے فرش کا مرمر خنک ہے۔ سیراب کر دینے والی ٹھنڈک پائوں کے تلووں سے ابھرتی اور قلب میں اترتی رہتی ہے۔
سینکڑوں برس بعد پیدا ہونے والاصاحبِ کشف المحجوب کا شاگرد‘ آج اپنے شیخ کی بارگاہ پہنچا ہے‘...اور یہ طالب علم‘ اس کے تیور دیکھنے۔عارف سے پوچھا گیا : آپ نے یہ کتاب کتنی بار پڑھی ہے۔ جواب ملا: پڑھی نہیں‘ مجھ پر بیت گئی ہے۔عصرِ رواں کا عارف‘ آج جاری اور اگلے زمانوں کے باخبر کی خدمت میں حاضر ہونے والا ہے۔ ایک ہجوم ہے‘ جو اسے دیکھنے‘ سننے امڈ آیا ہے۔یہ اخبار نویس بھی انہی میں سے ایک مشتاق ہے۔
دائیں ہاتھ سنگ مرمر کے سفید مقبرے میں سونے والے نے یہ کہا تھا ‘''جو تصّوف پابندِ شریعت نہیں‘ وہ زندیق تو پیدا کر سکتا ہے‘ صدیق نہیں‘‘۔
صدیق کون ہے؟سٹیج والوں کو معلوم نہیں کیا سوجھی کہ اخبار نویس کو طلب کیا‘ درویش کے تعارف کی رسم ادا کرنے کے لیے۔
عرض کیا : ہم نے بس یہ دیکھا کہ فقیر کسی کو اپنی طرف دعوت نہیں دیتا بلکہ اللہ اور اس کے سچے رسولﷺ کی طرف۔سنا یہ تھا کہ آدمی اپنے اخلاق سے پہچانا جاتا ہے تو وہ مرّوت‘ الفت اور انس کاکھرا نمونہ ہے‘باون تولے پائو رتی ۔فرمان یہ ہے کہ درجات علم کے ساتھ ہیں۔ وہ علم ہی کا جویا ہے‘ مسلسل اور متواتر۔رہنما کا وصف یہ ہوتا ہے کہ اپنی مثال سے رہنمائی کرے‘ اپنے کردار کی قوت سے۔ہم نے ایسا ہی اسے پایا ۔سارے الم ‘ سب انتظار وہ اپنی جان پہ جھیلتا ہے۔ سب آسانیاں دوسروں میں بانٹتا ہے ۔ اللہ اسے اپنی امان میں رکھے۔ ہر ایک کو ہمیشہ وہ رعایت دیتا ہے‘ اپنے آپ کو کبھی نہیں۔
ہمیشہ سے‘ راہِ سلوک کے مسافر کا قرینہ ایک ہے۔ ہمیشہ ایک دعا سے آغاز کرتا ہے مفہوم جس کا یہ ہے: اے زمینوں اور آسمانوں کے مالک‘ سچائی کے ساتھ ہمیں آغاز عطا کر اور سچائی کے ساتھ انجام تک لے جا۔لہجہ دھیما‘ آواز میں رچائو اور گداز۔ جذبات سے نہیں‘ تعصبات سے نہیں۔ دلیل کے ساتھ قلب و دماغ میں وہ اترتا ہے اور اترتا چلا جاتا ہے۔ محبت مائل کرتی ہے اور استدلال فتح کر لیتا ہے۔ پھر اپنے ہر رفیق کی جان میں وہ چراغ کی طرح جلتا رہتا ہے‘ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ؎
اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے‘ کیا رہائی ہے
ایک ایک کر کے‘ پچاس برس میں‘ دس لاکھ مشعل بردارہو گئے۔ ہر ایک کو سکھایا اور سمجھایا جاتا ہے‘ ازبر کرا دیاجاتا ہے کہ رزق کے لیے ریاضت جائز اور فکر مندی غلط۔''زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں‘ جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو‘‘...''بخل میںبربادی اور ایثار میں فروغ‘‘...''جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے‘ اس میں سے (دوسروں پر) خرچ کرتے ہیں‘‘...''ایثار کرتے ہیں‘ خواہ وہ تنگ دست ہوں‘‘۔ موضوع بدلتا ہے‘ مغرب ہمارے سر پہ کیوں چڑھ آیا؟ کیوں چڑھتا چلا جاتا ہے؟
ایک چھوٹی سی کہانی: بہت دور سے‘ شاید مغرب کی کسی یونیورسٹی سے ایک استادتلاشِ تحقیق کے لیے آیا۔اٹلی اور برطانیہ کے مذہبی معلموں سے وہ مل چکا تھا۔ الازہر یونیورسٹی کے عالی قدر اساتذہ سے بھی۔ ہزاروں برس کے بھاری بھرکم اور پراسرار علوم کے پنڈتوں سے بھی۔ کیا کوئی مذہبی کتاب یہ بتا سکتی ہے کہ اس کائنات کی عمر کیا ہے؟ ۔کیا آپ کے پاس کوئی نوشتہ ہے یاکوئی تعبیر؟
''میرے پاس تو نہیں‘‘۔ صوفی نے کہا :کتاب میں جو لکھا ہے‘ وہ پڑھ سناتا ہوں: ''اے اہل کفر‘ میرا تم انکار کیسے کر سکتے ہو۔ چاند‘ ستارے‘ سورج اور سیارے ‘یہ سب کچھ کبھی ایک ہی تھا۔ پھر ہم نے اسے پھاڑ کر لامحدود وسعتوں میںبکھیر دیا‘‘۔ اور یہ کہ ''ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا‘‘۔ دانشوراچھل پڑا۔یہ تو وہیBig Bangہے‘ سب سائنس دان متفق ہیں کہ کائنات کا آغاز ۔انجیل میں لکھا تھا‘ آٹھ ہزار برس۔برہمن نے کہا تھا‘چھتیس ہزار برس۔ چودہ سو برس پہلے‘ صحرا کے مکین ﷺ کوکیسے خبر ہو گئی کہ تمام حیات کی اساس‘ ہائیڈروجن اور آکسیجن کا یہ مرکب ہے؟
قرآن کریم کوئی پڑھے بھی‘ کوئی اس پر غور بھی کرے۔ فقیر کی آواز میں قلق تھا۔ عربوں کے مفتیٔ اعظم نے فتویٰ دیا کہ زمین کو جو چپٹی نہ مانے‘بطلیموس کا قول جو ٹھکرائے‘ وہ کافر ہے۔ پاکستان کے زبدۃ العارفین نے ارشاد کیا: جہاز پر طول طویل سفر میں نے کیے ہیں‘ کرّہ خاک کو میں نے ہموار دیکھا۔
کہر اور دھوپ کے ہزاروں موسم گزر چکے۔ اپنے شیخ کے حکم پر‘ نومولود لاہور کا قصد کرنے والا مسافر‘مسلمانوں کو تلقین کیا کرتا۔ تمام علوم سے اتنا تو حاصل کر لو کہ اللہ کو پہچان سکو ۔ اللہ اللہ ‘ آج ان کے عالمِ دین مولانا فضل الرحمن اور سمیع الحق ہیں‘ حتیٰ کہ علامہ طاہر القادری۔ آج ان کے لیڈر میاں محمد نواز شریف ‘ جنابِ آصف علی زرداری اور جنرل پرویز مشرف ہیں‘ کشکول بردار۔ آج ان کا پیشوا عمران خان ہے‘ تحمل‘تدبر اور تلاش و جستجو پر اکسانے کے بجائے جنوں کا درس دینے والا۔ اس جہان اور سب جہانوں کا خالق راہ میں گری پڑی کوئی چیز تو نہیں۔ تمام انسانوں اورتمام مخلوقات کا۔ اربوں کھربوں یہ سورج‘ ستارے‘ چاند اور سیارے‘ اپنے اپنے مدار میں گردش کرتے ہیں‘ اس لمحے تک ہر چیز جب ٹوٹ کر بکھر جائے گی۔ وقت فنا ہو جائے گا۔
آخر میں وہی بات‘ پروردگار کو وہ نہیں پا سکتا‘ زندگی کی ماہیت کو نہیں پا سکتا‘ اللہ کی تلاش جس کی ترجیحِ اوّل نہ ہو۔
اس نے فرمایا تھا: ابو سعید‘ خراسان کی پہاڑیوں میں360اولیاکو ہم نے دیکھا۔ ایک زمانہ آئے گا کہ کوئی ایک بھی نہ ہو گا۔ پھر کیا خدا کی تلاش تم ترک کر دوگے؟