تحریر : شمشاد احمد تاریخ اشاعت     17-11-2016

جمہوریت کا ایک اور انتقام

سیاسی تجزیے اور میڈیا کے ذریعے ارزاں کیے گئے تاثر کے برعکس امریکیوں نے ایک ''کھلنڈرے نوجوان‘‘، ایک ارب پتی ریئل اسٹیٹ ڈویلپر اور ٹی وی سٹار، ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا اگلا صدر منتخب کرتے ہوئے دنیا کو چونکا دیا۔ خیر ہمارے ملک میں تو جمہوریت کو ''پیہم انتقام‘‘ کے حوالے سے جانا ہی جاتا تھا، اس نے امسال امریکہ پر بھی اسی انتقامی جذبے سے سرشار ہو کر وار کیا۔ آٹھ سال پہلے وہاں جمہوریت نے نسل پرستی کی حدود کو توڑ کر وائٹ ہائوس میں ایک ایسے صدر کو داخل کیا‘ جو سفید فام نہیں تھا، اور ایسا امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا تھا: تاہم موجودہ انتخابات کے موقع پر جمہوریت نے ایک مشکوک کردار رکھنے والے امیدوار کو امریکہ کا پینتالیسواں صدر منتخب کر لیا۔ اس طرح اُنھوں نے امریکی تاریخ میں کسی خاتون کو صدر منتخب نہ کرنے کی روایت شکنی سے گریز کیا۔ 
موجودہ انتخابات میں امریکیوں کے پاس جنسی امتیاز ختم کرنے کا ایک موقع تھا‘ لیکن وہ ایک عورت کو اپنا صدر منتخب کرنے میں ناکام رہے۔ تاہم ہمیں یہاں ایک بات میں واضح ہونا پڑے گا۔ 2008ء میں صدر اوباما کی کامیابی ایک معجزہ تھا، لیکن اس کی وجہ جلد کی رنگت کی بنیاد پر پائے جانے والے امتیاز کی حتمی شکست نہیں تھی۔ اسی طرح آج 2016ء میں امریکیوں نے ٹرمپ کو ووٹ اس لیے نہیں دیے کہ اُن کی حریف ایک عورت تھی۔ ان دونوں کیسز میں جلد کی رنگت اور جنسی امتیاز فیصلہ کن عامل نہیں۔ امریکیوں نے دونوں مواقع پر گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران اظہر من الشمس داخلی ناکامی اور بیرونی ممالک میں جارحیت کے خلاف ووٹ دیا۔ اوباما کو اس لیے منتخب کیا گیا کہ امریکی اُن کے پیش رو، جارج ڈبلیو بش سے تنگ آ چکے تھے۔ اس کے علاوہ اوباما اپنے مقابل امیدواروں سے زیادہ ذاتی خوبیوں کے بھی مالک تھے۔ وہ نوجوان، ذہین اور توانائی سے بھرپور نوجوان تھے‘ جو تازہ جذبوں کے امین دکھائی دیتے تھے، اور پھر اُن کی گردن پر بہت زیادہ سیاسی بوجھ بھی نہیں تھا۔ 
اب ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کو بھی ''موجودہ حکومت کی نااہلی کے عمومی تاثر‘‘ کا فائدہ پہنچا۔ امریکی عوام نے ہلری کلنٹن پر ایک کامیاب بزنس مین کو ترجیح دی۔ ہلری گزشتہ آٹھ برس سے ڈیموکریٹ حکومت، جس کے بہت سے وعدے وفا نہ ہو سکے، کا حصہ رہی۔ اُنہیں انتخابات میں اس لیے شکست نہیں ہوئی کہ وہ ایک خاتون تھیں‘ بلکہ اس لیے کہ وہ اس 'سٹیٹس کو‘ کی نمائندگی کرتی تھیں‘ جسے امریکی رائے دہندگان کی اکثریت نے مسترد کر دیا تھا۔ انتخابات کے بعد نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک تجزیے نے انتخابی نتائج کو ''نہ صرف مسز کلنٹن کے لیے ناقابلِ یقین بلکہ صدر اوباما کی سیاسی وراثت کے لیے بھی خطرناک قرار دیا‘‘۔ اس کا مطلب ہے کہ ہلری کی شکست کی وجہ دراصل اوباما حکومت کی کارکردگی تھی۔ عوام نے ایک ایسے شخص پر اعتماد کر لیا‘ جس کا کوئی سیاسی پس منظر نہ تھا؛ چنانچہ اُنھوں نے بہتر مستقبل کی امید میں ایک نیا تجربہ کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکیوں کے سامنے بہتر مستقبل کی کوئی امید روشن نہ تھی، اور تمام تر جارحیت کے باوجود گزرتے ہوئے عشروںکے دوران ان کا واحد سپرپاور ہونے کا زعم خاک میں مل چکا تھا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اوباما کی دوسری مدت نے دراصل ٹرمپ کی صدارت کی راہ ہموار کی۔ ذاتی خوبیاں ایک طرف، اوباما کسی طور رونالڈ ریگن نہ تھے۔ اُن کی کارکردگی تیسری مدت کے لیے ڈیموکریٹ امیدوار کو کامیاب کرانے کے لیے کافی نہ تھی۔ اس منظرنامے کی وضاحت کرتے ہوئے ایک مشہور امریکی لکھاری، رابرٹ ڈبلیو میری لکھتے ہیں: حالات ایسے بنتے جا رہے تھے کہ 2016ء کے صدارتی انتخابات میں کسی ڈیموکریٹ کا ریپبلکن امیدوار کو شکست دینا ناممکن ہو چکا تھا۔
مسٹر ڈبلیو میری مزید دلیل دیتے ہیں کہ صدارتی انتخابات بڑی حد تک موجودہ حکومت اور حکمران جماعت کی کارکردگی کا ریفرنڈم ہوتے ہیں۔ اُن کے مطابق رائے دہندگان ہر چار سال بعد ایک سوال کا جواب دیتے ہیں کہ کیا اس صدر (یا حکمران جماعت) نے آفس میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، اور کیا اس کارکردگی کی بنیاد پر اس جماعت سے تعلق رکھنے والے دوسرے امیدوار کو موقع دیا جانا چاہیے یا نہیں؟ ان تمام سوالوں کے جوابات کو مربوط کرتے ہوئے یہ حقیقت سمجھ میں آ جاتی ہے کہ امریکیوں نے بظاہر صدر کے سنجیدہ عہدے کے لیے ناموزوں دکھائی دینے والے شخص، ڈونلڈ ٹرمپ کو کیوں منتخب کیا؟ بات یہ ہے کہ اُنھوں نے ووٹ ٹرمپ کی حمایت میں نہیں، اوباما کی مخالفت میں ڈالا۔ یہ وہ اوباما ہیں جنہوں نے 2008ء میں اپنی فاتحانہ تقریر میں بڑی وضاحت سے کہا تھا کہ اُن کے سامنے چیلنجز ''دو جنگیں، خطرے کی زد میں آیا ہوا یہ سیارہ (زمین) اور بدترین مالی بحران کا شکار ایک ملک ہیں‘‘۔
یہ وہی اوباما ہیں جو نہ صرف امریکہ کی دو سو سالہ تاریخ میں پہلے غیر سفید فام صدر ہیں بلکہ جو اپنی پہلی مدت کے ایک سال کے اندر اندر، کچھ کیے بغیر، امن کے نوبل انعام کے بھی حقدار قرار پائے تھے۔ امن کا نوبل انعام حاصل کرنے سے چند دن پہلے اوباما افغانستان میں فوجی دستوں کی تعداد میں تیس ہزار کا اضافہ کرنے کا حکم دے چکے تھے۔ اس کے بعد اُنہیں یہ دستے نکالنے میں چار سال لگ گئے، لیکن تاحال ان کی ایک خاطر خواہ تعداد وہیں موجود ہے‘ اور افغان امن کے آثار دور دور تک ہویدا نہیں۔ عراق کی صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں۔ غیر قانونی طور پر اس ملک پر مسلط کی گئی جنگ ختم ہو چکی لیکن اس کے نتیجے میں پھیلنے والی شورش اور تشدد کا ملک میں دور دورہ ہے۔ پرانی جنگیں ابھی ختم نہیں ہوئیں، لیکن اوباما مشرق وسطیٰ میں نیا محاذ کھولنے کے لیے پر تولتے رہے۔ 
دوسری مدت کے اختتام تک اوباما کی وراثت درحقیقت خطرے کی زد میں تھی۔ جس دوران دنیا ٹرمپ کے انتخاب کے دھچکے سے نکلنے کی کوشش میں ہے، اس وقت یہ بحث بلا جواز ہے کہ کتنی ریاستوں نے اُنہیں ووٹ دیا اور کیوں دیا۔ جو بات اہم ہے وہ یہ اب وہ امریکہ کے منتخب شدہ صدر ہیں اور وہاں معمول کے مطابق انتقال اقتدار ہونے جا رہا ہے۔ ٹرمپ کے انتہائی ایجنڈے کی وجہ سے تمام دنیا میں سراسیمگی کی لہر دوڑ جانا فطری امر تھا۔ دنیا خوفزدہ تھی کہ اب ٹرمپ اپنی اعلان کردہ پالیسی کو اپنی قیادت میں عمل کے سانچے میں ڈھالیں گے۔ پریشان اور تشویش کی بات یہ کہ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے بھی دنیا اتنے ہی ہنگاموں کا شکار ہے جتنی آٹھ سال پہلے اوباما کے قیادت سنبھالتے وقت تھی۔ 
اپنے آخری سٹیٹ آف دی یونین پیغام میں اوباما نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ وہ مسائل سے لبریز دنیا چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اُنھوں نے خبردار کیا کہ آنے والے کئی عشروں تک دنیا کے بہت سے حصے افراتفری اور عدم استحکام کا شکار رہیں گے، جیسا کہ مشرق وسطیٰ، افغانستان، افریقہ، ایشیا، پاکستان اور وسطی امریکہ کے کچھ حصے۔ دراصل وہ کہنا یہ چاہتے تھے کہ اُن کا جانشین ان مسائل کا قابل فخر وارث ہو گا۔ کیا ٹرمپ تبدیل ہوتی ہوئی دنیا کے پیچیدہ اور گمبھیر مسائل سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں؟ اس میںکوئی شک نہیں کہ واشنگٹن میں قیادت کی تبدیلی امریکی فہم اور رویے میں ایک تبدیلی کی غمازی ضرور کرتی ہے؛ تاہم ٹرمپ کے پاس کوئی جادو کا چراغ نہیں۔ ہاں وہ اپنی کاروباری صلاحیتوں سے کام لے کر کم از کم امریکہ کی اخلاقی پوزیشن مستحکم کرتے ہوئے اس کی عالمی تنہائی اور اس کا بطور پر ایک جارحانہ مزاج کی خود سر اور من مانی کرنے والی عالمی طاقت کے قائم ہونے والا منفی تاثر زائل کر سکتے ہیں۔ دنیا کو ہر امن پسند قوم کے لیے محفوظ بنانے کے لیے وہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ جب تک دوسروں کے ساتھ انصاف نہ ہو، آپ کے ساتھ بھی نہیں ہو سکتا۔ امریکیوں نے ہمیشہ سوچا ہے کہ وہ دنیا کے مشعل بردار ہیں، لیکن دنیا کے بہت سے افراد، جن میں خود یورپی اور امریکی بھی شامل ہیں، اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے۔ دراصل امریکی اقدار اور تصورات کی تبلیغ اور امریکہ کی دنیا بھر میں فعالیت ایک طرف سے بہت کم مطابقت رکھتی ہیں۔ 
اب امید اور توقعات کی شکستگی سے بڑھ کر، ٹرمپ کے انتخابات پاکستان کے لیے کیا معانی رکھتے ہیں؟ ہمیں واشنگٹن کی پاکستان کے لیے پالیسی میں کسی تبدیلی کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ دہشت گردی کا مسئلہ پارٹی وابستگی سے بالاتر ہے اور وہاں اس مسئلے کے حوالے سے پاکستان کے کردار پر تشویش پائی جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ نئی انتظامیہ کے ساتھ دہشت گردی سے نمٹنے میں طریق کار میں تبدیلی دکھائی دے اور عسکری بازو کی بجائے سفارتی اور معاشی سرگرمیوں کو متحرک کیا جائے، لیکن طرفین کو تعلقات میں ہم آہنگی کی ضرورت ہو گی۔ اور یہ تعلقات عارضی بنیادوں پر نہیں ہونے چاہییں۔ 
جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم امریکہ کے ساتھ معمول کے مطابق دوستانہ تعلقات قائم کرنا چاہیں گے، لیکن ہمیں اس پر معاشی یا دفاعی امداد کے انتہائی انحصار کی پالیسی ترک کرنا ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے داخلی محرکات میں امریکی مداخلت کو دعوت دینے سے گریز کرنا ہو گا۔ ہمارا سیاسی، معاشی اور سماجی ڈھانچہ ہمارا مرکزی اثاثہ ہے۔ ضروری ہے کہ ہم بیرونی دنیا کی طرف جھانکنے سے پہلے اس کی داخلی خامیوں اور کمزوریوں کا جائزہ لیتے رہیں۔

.

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved