شامی صاحب کا کہنا تھا‘سعودی عرب کے شاہ فیصل اور ترکی کے سلیمان ڈیمرل جیسے غیر ملکی سربراہوں سے طویل انٹرویوز ‘ الطاف صاحب کا وہ منفرد اعزاز ہے‘ جو پاکستان کے کسی اور ایڈیٹر کو حاصل نہ ہوا۔ آج جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں‘ ترکی کے صدر جناب طیب اردوان پاکستان کے 2روزہ سرکاری دورے پر ہیں‘ تو آگے بڑھنے سے قبل کیوں نہ سلیمان ڈیمرل کے انٹرویو کی چند سطور پر نظر ڈال لیں۔ الطاف صاحب کا سوال تھا‘''لیکن پاکستان کو اشتراکیت (سوویت یونین) سے زیادہ بھارت کی طرف سے جارحیت کا خطرہ ہے‘ اس صورت میں آپ کا رویہ کیا ہو گا‘‘؟...''قریشی صاحب! میں آپ کو پوری ذمے داری کے ساتھ یقین دلاتا ہوں کہ خدانخواستہ پاکستان پر کسی بھی طرف سے حملہ ہوا‘ تو ترکی پاکستان کے شانہ بشانہ لڑے گا۔‘‘... ایک اور جگہ سلیمان ڈیمرل کہہ رہے تھے‘''فوج نے جب کبھی اقتدار پر قبضہ کیا‘ ملک کے لیے تباہی کا راستہ کھولا۔ شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ 1960ء کے فوجی انقلاب کے دو تین برس کے بعد دوباہ فوجی انقلاب لانے کی کوششیں ہوئیں۔1961ء میں فوج واپس چلی گئی لیکن اس کا ایک حصہ جسے سیاست کی چاٹ پڑ گئی تھی‘اقتدار سے دستبردار ہونے پر کسی طرح آمادہ نہیں تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ عوام کے زبردست جوش و خوش اور سیاسی بیداری نے فوج کے اس حصے کی کوششیں ناکام بنا دیں‘‘۔(سلیمان ڈیمرل کا یہ انٹرویو جنوری1969ء میں شائع ہوا تھا۔15جولائی2016ء کو طیب اردوان کے خلاف بغاوت کی ناکامی میں بھی عوام کا یہی زبردست جوش و خروش اور سیاسی بیداری بروئے کار آئی) الطاف صاحب کا ایک اور نازک سا سوال:''ڈیمرل صاحب! آپ انتخابات سے خوف زدہ تو نہیں ‘‘؟...خوف کس بات کا؟ اگر ہم عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیں عوام کے سامنے جاتے ہوئے خوف یاگھبراہٹ کیوں ہو؟ انتخابات تو ہماری اصل قوت ہیں‘ ان کے ذریعے سیاسی آب و ہوا اور موسم کا اندازہ رہتا ہے۔ سب سے بڑھ کر وہ یہ احساس دلاتے رہتے ہیں کہ ملک کے اصل حکمران عوام ہیں۔ ایک شخص‘ایک پارٹی یا چند خاندان نہیں‘‘ پریس کی آزادی سے متعلق ترک رہنما کا کہنا تھا: ''اس
سے حکومت کی مشینری مستعد اور چوکس رہتی ہے۔ ہم عوام کا پیسہ خرچ کرتے ہیں تو ان کے نگہبانوں کو ہمارا محاسبہ کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پریس آزاد اور جرأت مند نہ ہو تو حقیقی خطرات اکثر اوقات ہماری آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ آزاد اور بے باک پریس کی مثال ایک ابلتے ہوئے اسٹیمر میں سیفٹی والو جیسی ہے۔ سیفٹی والو نہ ہو تو کیا خبر کس وقت خوف ناک دھماکہ ہو جائے‘‘۔بات اس آزادی کے غیر ذمہ دارانہ استعمال تک پہنچی تو سلیمان ڈیمرل نے کہا‘ ''یہ درست ہے کہ پریس کی مکمل آزادی کی وجہ سے بعض اخبارات غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتے ہیں‘ مگر جب دوسرے اخبار عوام کے سامنے صحیح اور مستند تصویر پیش کرتے ہیں‘ تب عوام جان لیتے ہیں کہ کون سا اخبار معتبر ہے اور کون سا غیر معتبر۔ اس طرح ایک صحت مند رجحان فروغ پاتا ہے۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ ہمارے ہاں بعض اخبارات نے از خود ضابطۂ اخلاق مرتب کیا ہے اور وہ اس کے مطابق کام کر رہے ہیں‘‘۔
کتاب سے بے رغبتی کے اس موسم میں الطاف صاحب خوش قسمت ٹھہرے کہ ان کی ''ملاقاتیں کیا کیا‘‘! کا پہلا ایڈیشن صرف تین ماہ میں نکل گیا۔ اور اب یہ دوسرا ایڈیشن تھا جس کی رونمائی کا اہتمام فاران کلب کراچی نے کیا تھا۔ فاران کلب کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ جنرل یحییٰ خاں کے مارشل لاء کے سائے منڈلا رہے تھے۔ کہ کراچی کے چند اہلِ دل‘ اہلِ درد مل بیٹھے کہ سیاسی جماعتوں‘ اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کے بعد کوئی ایسا پلیٹ فارم تو ہو‘ جہاں اصحابِ فکر و نظر مل بیٹھیں اور ملکی حالات و واقعات پر غور و فکر کر سکیں۔ (اسی شب مارشل لاء آ گیا) عبدالرحمن چھاپرا فاران کلب کے پہلے صدر اور نصیر سلیمی جنرل سیکرٹری قرار پائے۔(عبدالرحمن چھاپرا کے بھائی ڈاکٹر عمر چھاپرا سعودی عریبین مانیٹری ایجنسی(وہاں کا اسٹیٹ بنک کہہ لیں) کے ڈپٹی گورنر رہے۔ برادر اسلامی ملک کی تعمیر و ترقی کے علاوہ وہاں کے مالیاتی نظام کی تشکیل میں بھی پاکستانیوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔ شاہ فیصل شہید کا دور تھا جنہوں نے یہ ذمہ داری پاکستانی ماہر معیشت جناب انور علی کے سپرد کی۔ سعودی عرب کے اولین ریالوں پر جناب انور علی کے دستخط ہوتے تھے۔ فاران کلب نے بڑے بڑے علمی و فکری اجتماعات کئے جن میں مشرقی پاکستان کے زعما بھی شریک ہوتے۔ ان میں مولوی فرید احمد اور مولانا اطہر علی بھی تھے۔ ایک اجتماع میں مفتیٔ اعظم فلسطین امین الحسینی بھی تشریف لائے۔ میئر عبدالستار افغانی کے دورمیں فاران کلب نے مین گلشن اقبال میں سرکاری ریٹ پر ایک قطعۂ زمین خرید کر اپنی بلڈنگ بھی تعمیر کر لی۔یہاں مختلف موضوعات پر‘ اردو اور انگریزی میں 32ہزار کتابوں پر مشتمل لائبریری بھی موجود ہے۔ ان دنوں صدر غیور ہاشمی اور جنرل سیکرٹری ندیم اقبال ایڈووکیٹ فاران کلب کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔
''ملاقاتیں کیا کیا‘‘! کی تقریب پزیرائی بڑی بھر پور رہی کہ شہر کے اربابِ علم و ادب کی کریم موجود تھی۔ یہ اڑھائی‘ تین سو سے کم کیا ہوں گے؟ جناب عِرفان صدیقی صدرِ محفل تھے۔ فاران کلب والوں کی دعوت اور الطاف صاحب کی محبت میں شامی صاحب اور سجاد میر کے ساتھ ہم نے بھی شہرِ قائد کا رخ کیا۔ ایک دن پہلے جناب سعیدالزمان صدیقی گورنر کا حلف اٹھا چکے تھے۔اِن کے لیے ادب و احترام اپنی جگہ‘ لیکن اِن کے چاہنے والے بھی‘ اس عمر میں ‘ اور اس صحت کے ساتھ‘ انہیں یہ بارِ گراں سپرد کئے جانے پر سراپا حیرت تھے۔
الطاف صاحب کے پوتے ایقان قریشی نے ابھی پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہے لیکن دادا کی صحبت کا نتیجہ ہے کہ اس نوعمری میں بھی علم و ادب کا وافر ذوق رکھتے ہیں۔ ''ملاقاتیں کیا کیا‘‘! کی ترتیب و تدوین میں انہیں پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر کی رہنمائی اور معاونت بھی حاصل رہی۔ ''ملاقاتیں کیا کیا‘‘ ‘23انٹرویوز پر مشتمل ہے۔ اور اس طرح کے انٹرویوز کی کم و بیش 8کتابیں اور آئیں گی۔ وہ بتا رہے تھے کہ جوں جوں وہ یہ انٹرویو پڑھتے گئے‘ ان کے قلب و ذہن پر پاکستان کی قدر و قیمت اور سید مودودیؒ کی عظمت کا نقش گہرا ہوتا چلا گیا۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن‘ متحدہ پاکستان کے دنوں میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں پڑھاتی رہیں۔ انہیں ایک تقریب شرکت کے لیے ڈھاکا جانا تھا‘ وہ اس کی تیاریوںمیں تھیں کہ یہ کتاب ہاتھ لگی اور وہ سب کچھ بھول بھال کر اسی میں کھو گئیں۔ کتاب میں شیخ مجیب الرحمن کا طویل انٹرویو بھی ہے۔ فاطمہ نے اس حوالے سے‘ مرحوم مشرقی پاکستان سے متعلق اپنی یادوں کو بھی تازہ کیا۔ ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے اسے پاکستان کی سیاسی و صحافتی تاریخ کا وہ گراں قدر سرمایہ قرار دیا جو آئندہ نسلوں کے لیے بھی رہنمائی کے کام آتا رہے گا۔ دنیا نیوز کے ''پیامِ صبح ‘‘ والے انیق احمد کا اپنا رنگ اور آہنگ تھا‘ ان کے خیال میں اس کتاب میں سید مودودیؒ کے انٹرویو کی وہی حیثیت ہے‘ جو قرآن مجید میں سورۂ اخلا ص ہے۔ ارشاد کلیمی اسلام آباد سے آئے تھے‘ اور کراچی کا یہ ادبی میلہ لوٹ کر چلتے بنے۔ جناب سجاد میر نے ایک اہم نکتہ ضیاء الحق سے الطاف صاحب کے تعلقات کا اٹھایا‘''شاید ہی کوئی دوسرا ہو جو بھٹو اور ضیا دونوں کی جیلوں میں رہا ہو۔ ضیاء الحق ان کا نام سننے کو تیار نہ تھے۔ غلط فہمیوں کے غبار چھٹے‘ تو الطاف صاحب نے سب کچھ بھلا کر ضیاء الحق سے وہ کام لینا چاہا جو اُس وقت ایک پورا قبیلہ بھٹو دور کے بعد ان
سے لینا چاہتا تھا۔ الطاف صاحب کا یہ رویہ اس لیے نہ تھا کہ وہ کوئی ذاتی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ ان کی غایت اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ اقتدار کے سرچشموں پر ایک ایسا شخص آ موجود ہوا ہے‘ جو درست ہو یا غلط‘مگر اس سے ملکی بہبود اور تہذیبی سنوار کا کام لیا جا سکتا ہے۔
جناب شامی‘ بھٹو شاہی کے عہدِ عتاب میں جناب ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور الطاف حسن قریشی کے ہم سفر تھے(دلچسپ بات یہ کہ بائیں بازو کے جناب حسین نقی اور ان کے رسالے پنجاب پنچ کے پبلشر مظفر قادر بھی''قائد عوام‘‘ کے ستم رسید گان میں شامل تھے) شامی صاحب کا کہنا تھا‘ نئی نسل ان آلام و مصائب کا تصور بھی نہیں کر سکتی‘ جو اُس دور میں اختلاف کرنے والوں پر بیت گئے۔ تب حکومت پیچھے پیچھے ہوتی تھی‘ اور ہم آگے آگے‘ جبکہ آج یہ صورتحال ہے کہ ہم (میڈیا والے) پیچھے پیچھے ہوتے ہیں اور حکومت بیچاری آگے آگے۔ اور پھر بات سول‘ ملٹری ریلیشن شپ تک پہنچ گئی۔ شامی صاحب نے طالع آزمائوں کے ادوار کا سارا حساب کتاب سامنے رکھ دیا۔ ؎
دیکھو یہ میرے خواب تھے‘ دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے سبھی حسابِ جہاں‘ برسرِ عام رکھ دیا
انہوں نے آج کے بیشتر قومی عوارض کا سبب انہی طالع آزمائوں کے ادوار کو قرار دیا اور آئین کی کارفرمائی اور جمہوریت کے تسلسل کو اس کا علاج بتایا...۔ علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی... جنابِ عرفان صدیقی نے شامی صاحب کی بات کو آگے بڑھایا‘ قومی زندگی کا نصف حصہ طالع آزمائوں کی نذر ہو گیا۔ سیاستدانوں کو ہر خرابی کا سبب قرار دینے والے‘ رخصت ہوئے تو سنگین مسائل کے خار زار چھوڑ گئے‘ جنہیں کاٹنا پھر اہلِ سیاست ہی کے حصے میں آیا۔انہوں نے میڈیا میں اپنے بعض دوستوں کو '' آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں‘‘ کی تلقین بھی کی۔ الطاف صاحب کراچی والوں کے شکر گزار تھے کہ انہوں نے اس شاندار تقریب پزیرائی کا اہتمام کیا اور ہمارے لیے یہی بات باعثِ اعزازکہ ہمیں بھی اظہارِ خیال کی سعادت حاصل ہو گئی‘ وہ بڑھیا جو سوت کی اٹّی لے کر یوسف کے خریداروں میں شامل ہو گئی تھی۔