شاہد ندیم (چراغ) صاحب کی فرمائش کے مطابق میں نے آپ کی شاعری پر اپنا مضمون 12ستمبر کو ان کے پتے پر بھیج دیا تھا۔ ابھی تک رسید نہیں آئی، براہ کرم رسید بھجوائیے۔ مضمون اگر پسند نہ آئے جب بھی مجروح نمبر آنا چاہیے۔ بیگم اختر جمال اور ان کے میاں احسن علی خان بعض ذاتی پریشانیوں میں مبتلا ہیں اس لیے وہ لوگ مضمون لکھنے سے معذور ہیں۔دیکھئے آپ سے میری دوسری ملاقات کب ہوتی ہے۔ جملہ احباب سے سلام کہیے۔
آپ کا نظیر صدیقی
بخدمت جناب مجروح سلطان پوری
شعبہ اردو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد‘ 4 اکتوبر 1982ء
برادرم مکرم حامل ہذا سید انیس شاہ جیلانی میرے نہایت عزیز دوست ہیں، پہلی مرتبہ بمبئی جا رہے ہیں۔ آپ سے ملنے کا اشتیاق ہے، بڑے ادب دوست اور ایک بہت اچھے خاکہ نگار ہیں۔ آپ پاکستان آتے رہتے ہیں پھر بھی آپ سے ملاقات ممکن نہیں ہوتی۔ امید ہے کہ رسالہ گفتگو نکل رہا ہوگا، اس میں لکھنے کو جی چاہتا ہے لیکن رابطے کا فقدان لکھنے میں حائل ہے۔ اگر ممکن ہو تو گفتگو کے کچھ پرچے انیس کے ہاتھ بھجوا دیں۔
زیادہ شوق ملاقات ‘آپ کا نظیر صدیقی
شریف بھارتی کے نام جون ایلیا نے جو کچھ لکھا وہ بھی میری توصیف ہی میں ہے!
شریف بھائی! یادیں اور پیار‘ میں تم سے مسعودہ سے اور خود اپنے آپ سے بے حد نادم اور شرمندہ ہوں۔ ایک زمانہ ہوگیا کہ میں نے تمہیں خط نہیں لکھا۔ مسعودہ کا مجموعہ ملا اور میں اس کی داد بھی نہ دے سکا۔ میری الجھتوں کا اندازہ تم اس بات سے لگا سکتے ہو کہ مجھے وہاں ہونے والے مشاعروں میں مدعو کیا گیا ہے اور میں وہاں پہنچنے سے معذور ہوں۔ مجھے ہندوستان میں مدعو کیا جائے اور مجھے ہی نہیں زاہدہ کو بھی اور ہم نہ جائیں کوئی تو ایسی بات ہوگی۔
میں نے بعد خرابی اپنے مجموعے کی اشاعت کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مقدمہ خورشید بھائی (ڈاکٹر خورشید الاسلام) سے لکھوائوں گا جیسا کہ ہم نے اور تم نے ڈاکٹر شریف کے ہاں خورشید بھائی کی موجودگی میں طے کیا تھا۔ میں نے انہیں اب تک خط نہیں لکھا ہے۔ خط اس وقت لکھوں گا جب خط کے ساتھ اپنے مجموعے کا مسودہ بھیجوں گا۔ ان سے سخت شرمندہ ہوں کہ یہاں آ کر ایک سطر بھی ان کے نام نہ لکھ سکا۔ یہی سوچا تھا کہ مسودہ تیار ہو تو خط لکھوں۔ میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ یہاں پہنچتے ہی اپنے دیوان کی ترتیب شروع کردوںگا۔
میرا یہ خط تمہیںجناب سید انیس شاہ جیلانی کے ذریعے ملے گا۔ موصوف بہاولپور کے ایک نامی گرامی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ پیرزادے بھی ہیں اور پیر بھی، خاص بات یہ ہے کہ ایک نادرۂ روزگار ادیب بھی ہیں۔ یہ انتہائی اور منکسر المزاج آدمی ہیں۔ انہیں ایک شخص نہیں شخصیت جاننا۔ تم ان سے مل کر بہت خوش ہوگے۔ انہیں نثار مغیث بھائی‘ نور نبی اور ڈاکٹر شریف وغیرہ سے بھی ملوادینا۔
میری طرف سے مسعودہ کو دعائیں پہنچائو اور زاہدہ کا سلام، بچوں کو بے حد پیار، میری دو بچیاں ہیں نینی اور شمینی اور ایک ڈیڑھ برس کا بچہ ہے زرلون یعنی مثل زر، عجب نام ہے، زاہدہ نے رکھا ہے۔ تمہارا جون
اب میرا پتہ یہ ہے کہ بی ون مومن سکوائر، راشد منہاس روڈ گلشن اقبال کراچی نمبر 47۔ ان خطوط کے ملاحظہ سے میری بہت سی
حیثیتوں کا تعین ہوا۔ ترجیح تو میں خاکہ نگاری کو ہی دوں گا۔ نظیر صدیقی، شکیل عادل زادہ، جون ایلیاتینوں نے ایک بات جس پر اتفاق کیا ہے خاکہ نگاری ہی کی ہے۔ میں ایک ناخواندہ سا شخص ہوں۔ جوڑ جاڑ کر اٹکل پچو قلم چلا بھی لیا تو چھپوں گا کیونکر۔ تعریفوں کے پل سبھی نے باندھے۔ خود کوئی کتابچہ چھپوایا تو داد بھی خوب خوب دی۔ اپنے رسالے اپنے اخبار میں بس نیاز فتح پوری کا دل گردہ تھا، سنا ہی دیتے تھے کھری کھری۔ چھاپنے میں بھی بے باک۔ لاہور میں آقائے رحیم گل نے فکر تونسوی کے لیے خط بھی دیا اور ایک کتاب بھی ''جنت کی تلاش‘‘۔غلام محمد خان صاحب چاچڑ (ڈہرکی ضلع سکھر) نے بھی سندھی ساہوکاروں کے نام تعارف نامے عطا کیے۔ شیخ محمد فاضل کے تو کہنے ہی کیا۔ کراچی تک صاحبزادگان حسنین اور عبید کو کچھ ڈالر اور ہندوستانیوں سے بچے کھچے ہندوستانی نوٹ ہاتھ لگ گئے تھے۔ رہنمائی اور اعانت کے لیے بھیجا۔ سندھی‘ ہندی دوستوں کے نام خط الگ، مالی تعاون کی درخواستوں سے لبریز۔ ڈاکٹر نبی بخش خاں صاحب بلوچ نے براہ راست ایک مکتوب سید صباح الدین عبدالرحمن صاحب کے نام اعظم گڑھ دیا۔ تصویری نقل میرے نام بھی پہونچی۔ مختصر یہ کہ میں خوب مالا مال ہو کر سفر سے دوچار ہوا۔
ساتویں اکتوبر کی سہ پہر تک رئیس صاحب کے کاغذات کی تکمیل کا جھگڑا پڑا رہا۔ اسٹیٹ بینک جانا پڑا۔ دفتر کا وقت ختم ہو جانے کے باوجود اعلیٰ عہدیدار سر کھپاتے اور اسلام آباد فون کرتے
رہے۔ جی الانہ گورنر سٹیٹ بینک کو فون کر چکے تھے۔ خود رئیس صاحب کاشاعرانہ مرتبہ و مقام۔ پیپلزپارٹی کے دور میں دوبارہ پاسپورٹ بنا تو رئیس صاحب نے اپنا پیشہ پہلے جوکچھ بھی درج تھا بدلوا کر صحافت لکھوایا تاکہ باہر جانے میں کوئی روک ٹوک نہ ہو۔اب غالباً صحافیوں کے آنے جانے میں بھی کچھ پیچیدگیاں ہیں۔ مختلف محکموں کے اجازت نامے شامل مسل کرنا پڑتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں پاک ہند پریم سبھا کی صدارت سدِ راہ بن گئی۔ بالآخر اجازت نامہ مل گیا۔ اسٹیٹ بینک کے حکام محکمہ تعلیم کے اجازت نامے کی جستجو میں سرگرداں اور وہ کاغذات کے پلندے میں رل مل کر آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا تھا۔ حضرت کی حالت غیر، ہوائیاں اُڑی ہوئیں۔ بارے ایک افسر نے ایک ایک کرکے کاغذات الٹے پلٹے تو وہ مطلوبہ اجازت نامہ نکل آیا۔ سبھی نہال ہوئے، جان میں جان آئی۔ میں متاسف کہ اب تو جانا ہی پڑا۔ اسٹیٹ بینک جانے کے لیے ٹیکسی منگوائی جا رہی تھی کہ بزم انصاری آ گئے۔ ان کی موٹر میں لد کر چلے ہی تھے کہ رئیس صاحب نے پرانے قصے چھیڑ دیئے۔ فرمایا مہاجرین بنگلہ دیش کی آباد کاری کے دوران میں مجھ پر غبن کے الزامات لگتے رہے۔ اس کے بعد رہائشی پلاٹوں کی خریدوفروخت کے قصے اورالزام تراشیاں چلیں۔ وہی دن تھے جب رئیس صاحب نے مکان گویا ازسرنو تعمیرکرلیا۔ مجھ سے ہمیشہ قسمیں کھا کھا کر یہی کہا، میں نے ایک پیسہ خردبرد نہیں کیا...!
آج کا مطلع
شاعر وہی شاعروں میں اچھا
کھا جائے جو شاعری کو کچا