کینیڈا کی حکومت نے پاکستان حکومت کو عرضی بھیجی ہے‘ ڈاکٹر عاصم حسین ان کے شہری ہیں لہٰذا انہیں فوراًرہا کر کے کینیڈا بھیجا جائے تاکہ وہ اپنے ملک کینیڈا میں باعزت زندگی گزار سکیں ۔ کینیڈا یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کا شہری پاکستان میں قید کاٹے۔میرے لیے یہ انکشاف ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین جو چھ برس سینیٹر رہے، وزیرپٹرولیم رہے وہ دراصل کینیڈا کے شہری ہیں۔اس ملک پر آٹھ برس تک حکمرانی کرنے کے بعد اور بقول نیب ہر طرح کی لوٹ مار کرنے کے بعد اب اچانک ڈاکٹر عاصم حسین کو یاد آگیا کہ وہ کینیڈا کے شہری ہیں اور ان کی ریاست انہیں رہا کرائے ۔ وہ پٹرولیم کے وزیر رہے، صدر زرداری کے ایڈوائرز رہے اور گرفتاری کے وقت وہ سندھ حکومت کے مشیر تھے جس کا عہدہ صوبائی وزیر کے برابر تھا ۔ قانون کے تحت کوئی بھی غیرملکی شہریت رکھنے والا ایم این اے یا سینیٹر نہیں بن سکتا اور نہ ہی وہ وزیر بن سکتا ہے۔ داد دیں ہم سب کو کسی کو پتہ ہی نہیں چلنے دیا گیا۔ ڈاکٹر عاصم حسین جو پاکستان کے مالک بنے ہوئے ہیں وہ دراصل کینیڈا کے شہری ہیں اور ملکہ کی وفاداری کا حلف لے چکے ہیں ۔
ڈاکٹر عاصم حسین جب اسلام آباد میں وزیر تھے تو ان کی رعونت اور تکبر آسمان کو چھوتا تھا۔ جب ان کا رینجرز کی موجودگی میںدیا جانے والا اعترافی بیان سامنے آیا تو مجھے خدا یاد آیا۔ جب خدا وقت کے فرعونوں کو سزا دینے پر آتا ہے تو کیا کیا حشر کردیتا ہے۔ جب اس ویڈیو میں ڈاکٹر عاصم اپنے گرو اور مرشد آصف زرداری کے فرنٹ مینوں کی کرپشن کی ہزار داستان سنا رہے تھے تو میںحیران ہورہا تھا کہ جس زرداری کے بل بوتے پر وہ زمین سے اٹھ کر آسمان پر پہنچ گئے تھے آج اپنی جان بچانے کے لیے اسی گرو کا کچا چٹھا کھول کر بیان کر رہے تھے۔ حیران ہوتا ہوں جب زرداری نے یہ سب کچھ دیکھا اور سنا ہوگا تو انہوں نے حسب عادت مونچھوں کو تائو دے کر قہقہہ لگایا ہوگا یا پھر اپنی اس بات کو دہرایا ہوگا کہ ڈاکٹر عاصم حسین تو بے چارہ بزدل انسان ہے اور اس کا نک نیم (عرف)انہوں نے سکول کے دنوں سے خرگوش رکھا ہوا تھا ۔ لیکن زرداری کے اس خرگوش نے وہ وہ کارنامے سرانجام دیے ہیں کہ اگر ان کی تفصیلات نیب کے ریفرنس میں پڑھنی ہو تو پورا ایک دن لگ جائے گا ۔ طاقتور اتنے ہیں ایک چیئرمین نیب نے ریفرنس بنایا تو دوسرے نے ایک اور انکوائری کرا کے وہ ریفرنس ہی اڑا دیا ۔ جب رنیجرز نے پکڑا تو پھر ریفرنس بن گیا ۔ ریفرنس ختم کرانے کے پیچھے بھی کئی کہانیوں نے جنم لیا ۔جب موصوف وزیرپٹرولیم تھے اور ایران سے مہنگی گیس کی ڈیل کر رہے تھے تو اس وقت پاکستان میڈیکل ڈینٹل کی سربراہی بھی لے لی۔ کیونکہ خود کراچی میں اپنا پرائیویٹ ہسپتال چلاتے تھے۔ ایران نے دوسرے ملکوں کو سستی اور پاکستان کو مہنگی گیس بیچی اور اس وقت بیچی جب ایران سے کوئی کاروبار کرنے کو تیار نہیں تھا۔ الٹا ہم ایران پر احسان کرتے، انہوں نے ہم سے ہی مال بٹورنے کا پلان بنایا۔ ڈیل کرنے والے ہمارے عاصم حسین صاحب تھے جن کا نک نیم زرداری نے خرگوش رکھا ہوا ہے۔
ان کے دور میں پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی دھڑا دھڑا منظوری کے سلسلے میں جو کرتب دکھائے گئے اگر ان کے بارے میں پڑھنا ہو تووہ رپورٹ پڑھ لیں جو پبلک اکاونٹس کمیٹی کے سامنے آڈیٹر جنرل نے رکھی ہے ۔ ویسے تو خطرہ عاصم حسین کو اس رپورٹ سے بھی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہاں بھی تو چیئرمین خورشید شاہ ہی ہیں ۔ وہاں سے بھی کلیر ہوجائیں گے۔
بندہ حیرانی سے مرنے والا ہوجاتا ہے کیسے کیسے کام اس ملک میں ہوتے ہیں۔ اب اندازہ ہوتا ہے بھلا کینیڈا کے سپوت ڈاکٹر عاصم حسین کو کیا پریشانی ہونی تھی کہ کیسے کیسے نااہل ڈاکٹرز ان پرائیویٹ کالجوں سے نکل کر پاکستانیوں کا علاج کریں گے۔ ان کے دور کا یہ نتیجہ نکلا ہے اب امریکہ نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں میڈیکل تعلیم کا معیار گر چکا ہے۔ اگر اس میں بہتری نہ کی گئی تو وہ پاکستانی ڈاکٹروں کے لیے سخت قوانین اور پابندی تک لگا سکتے ہیں۔ یہ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی دھڑا دھڑ منظوری کا نتیجہ ہے۔
جب خود گرفتار ہوئے تو عدالت سے حکم لے لیا کہ ان کا علاج ان کی مرضی کے اعلیٰ ڈاکٹر اور ہسپتال سے ہو گا۔ کاش کہ ان کے دور کے منظور کیے گئے نجی کالجوں کے گریجویٹ ڈاکٹرز علاج کے لیے بھیجے جاتے تاکہ پتہ چلتا دوسروں کی زندگیوں سے کھیلنے کی اجازت دینا کتنا آسان کام ہے۔ اپنی باری باقاعدہ عدالت سے حکم نامہ لیا جاتا ہے دنیا کے بہترین ڈاکٹرز ان کا علاج کریں گے۔ اگر ان کے کرتوتوں کی کہانی پڑھنی ہو تو پھر نیب کے ریفرنس کو پڑھ لیا جائے۔ اگر کسر باقی رہ گئی ہو تو رینجرز کی چارج لسٹ پڑھ لیں کہ کیسے کراچی شہر کے دہشت گردوں کو ان کے ہسپتال میں علاج کی سہولت ملتی رہتی تھی۔ کراچی میں دس برسوں میں دس ہزار انسان مارے گئے اور دہشت گرد آرام سے ہسپتال سے علاج کراتے تھے۔ کرپشن کا پتہ کرنا ہو تو ان کا ویڈیو اعترافی بیان دیکھ اور سن لیں ۔ یہ بات طے ہے کہ یہ ملک طاقتور کا ہے۔آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ وسیم اختر پر چالیس کے قریب مقدمات تھے اور سب میں ضمانت مل گئی ۔ دوسری طرف سپریم کورٹ نے جن دو بھائیوں کو قتل کے مقدمے سے برسوں بعد اب بری کیا ہے ان کے بارے پتہ چلا ہے دونوں کو تو ایک برس قبل پھانسی بھی ہوچکی ہے۔ کسی نے ان سے پوچھ گچھ کی جنہوں نے پھانسی کا حکم دیا تھا ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی کہ کیسے انہوں نے کن ثبوتوں پر پھانسی کا فیصلہ دیا جب کہ وہ ثبوت سپریم کورٹ کے بقول بوگس تھے؟ لیکن وسیم اختر کو چالیس مقدمات میں تین ماہ کے اندر اندر سب ضمانتیں مل گئیں۔ ان پر مقدمات کی فہرست پڑھیں تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں ۔
ڈاکٹر عاصم حسین کو رہا کرانے کی باقاعدہ مہم بہت عرصہ پہلے شروع ہوگئی تھی۔ سندھ پولیس پہلے ہی ڈاکٹر عاصم حسین کے ساتھ تھی۔ پھر ایک صحافی صاحب جیل بھجوائے گئے جنہوں نے لوٹ کر ان کے حق میں ایک ماتم زدہ تحریر لکھی ۔ ماحول تیار ہورہا تھا ۔ پھر زرداری نے انٹرویو دیا جناب ڈاکٹر عاصم حسین تو بزدل ٹائپ انسان ہے اور اس کا نک نیم سب نے خرگوش رکھا ہوا تھا وہ بھلا ایسے گھنائونے کام کیسے کرسکتا ہے۔ لہٰذا ان کا خرگوش رہا کردیں ۔ رہائی مہم میں حصہ ڈالنے کے لیے ایک دن بلاول زرداری ہسپتال کے کمرے میں پہنچ گئے اور واپسی پر انکل کو سیاسی قیدی قرار دے دیا ۔ بلاول زرداری پر اب رحم آتا ہے۔ بے چارہ کس کھیل میں پھنس گیا ہے۔ وہ ان لوگوں کے جرائم کا دفاع کر رہے ہیں جن سے ان کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا ہر انکل جو اربوں روپے لوٹ چکا ہے وہ اس کے نزدیک اب بے قصور ہے یا سیاسی قیدی ۔ جو سکرپٹ انہیں تھما دیا جاتا ہے وہ کیمرے کے آگے پڑھ دیتے ہیں۔ کبھی بلاول زرداری کے بارے میں میری اچھی رائے تھی کہ وہ اچھائی برائی میں تمیز کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی وہ تین سال پہلے ناراض ہوکر دوبئی چلے گئے تھے کہ وہ اس گندی سیاست کا حصہ نہیں بن سکتے۔ باپ کے برعکس بلاول نے کچھ اچھی روایات قائم کرنے کی کوشش کی تو زرداری نے انہیں شٹ اپ کال دے کر باہر بھیجا اور ساتھ ہی ایک جلسے میں اپنے بیٹے کے بارے میں ریمارکس دیے کہ اسے سیاست نہیں آتی۔ ناتجربہ کار ہے۔ جو کچھ منہ میں آئے بول دیتا ہے۔ اسے ابھی سیاست سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بلاول کو اگلی فلائٹ سے پاکستان دربدری کا حکم ملا۔ شاید کسی سمجھدار نے بلاول کو سمجھایا ہوگا تم کس چکر میں پڑگئے ہو۔ تم کیوں چی گیویرا بنتے ہو۔ جو باپ کہتا ہے وہی کرو ۔ اتنی دولت اس باپ نے تمہارے لیے ہی تو اکھٹی کی ہے۔ چھوڑ و آئیڈیلزم ۔ سندھ اور سندھیوں کو پس ماندہ اور ان کے ذرائع لوٹ کر دوبئی اور لندن میں محل خرید کر ہی پاکستان میں سیاست ہوتی ہے۔ اور پھر بلاول تین ماہ کے اندر اندر سمجھدار ہوکر لوٹا اور اب ماشاء اللہ ہر کرپٹ انکل کا دفاع کرتا ہے۔ اب کی دفعہ باری عاصم انکل کی تھی ۔
عاصم انکل کی مدد کو اب کینیڈا آن پہنچا ہے۔ سابق ہائی کمشنر برطانیہ مارک رائل گرانٹ ابھی ابھی پاکستان سے ہوکر گئے ہیں۔ اب کینیڈا نے خط لکھ دیا ہے ان کا بہادر سپوت اور شہری رہا کیا جائے۔ ویسے داد دیں برطانیہ، امریکہ اور اب کینیڈا کو اپنے ملک میں ان کا کوئی وزیر اعظم یا وزیر ایک روپے کی کرپشن نہیں کرسکتا ۔ کرے تو دوسرے دن اٹھا کر اُگل دان میں پھینک دیتے ہیں۔ لیکن یہی مارک رائل گرانٹ تھے جنہوں نے جنرل مشرف اور زرداری اور بینظیر بھٹو کا این آرا و کرایا تھا ۔ امریکی وزیرخارجہ کونڈی رائس اس نیک کام میں شریک تھیں۔ دس ہزار سے زائد مقدمات ختم ہوئے۔ کرپشن کو معاف کر دیا گیا ۔ اب امریکہ کا ہمسایہ کینیڈا ڈاکٹر عاصم حسین کی رہائی چاہتا ہے۔ اگر ڈاکٹر عاصم حسین کے کرتوتوں پر بنائی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ کینیڈا کے وزیراعظم کو پڑھنے کے لیے بھیج دی جائے تو وہ بے ہوش ہوجائے گا۔ لیکن وہ پھر بھی چاہتا ہے اس کے شہری کو رہا کریں ۔
کوئی دور ہوتا تھا کہ برطانیہ، امریکہ یا کینیڈا پاکستان میں سیاسی قیدیوں کے لیے آواز اٹھاتے تھے۔ انسانی حقوق کی بات کرتے تھے۔ کرپشن کے خلاف بات کرتے تھے۔ انصاف کی بات کرتے تھے۔ اب وہ دور آگیا ہے وہ سنگین الزامات میں قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں ۔میں حیران ہوتا ہوں وہ کینیڈا جس کو ان سنگین الزامات کے بعد ڈاکٹر عاصم حسین کی شہریت ہی ختم کردینی چاہیے تھے کہ ان کے ایک شہری نے پاکستان میں اتنی لوٹ مار کی تھی اور دہشت گردوں کا سہولت کار بن رہا ، الٹا وہی کینیڈا چاہتا ہے کہ اس کا شہری رہا کیا جائے۔
تو طے ہوا پاکستان سے دولت لوٹو، لندن، دوبئی اور کینیڈا لے جائو اور اگر پکڑے گئے تو وہ آپ کو چھڑانے آئیں گے...ویسے بھی جب پاکستانی وزیراعظم کے بچوں کے لندن فلیٹس بچانے قطری شہزادے مضحکہ خیز خط ہاتھ میں لیے دوڑے آئیں گے تو آصف زرداری کے خرگوش ڈاکٹر عاصم حسین ایسی سونے کی چڑیا کو بھلا کینیڈا کیونکر جیل میں بیٹھنے دے گا...!