تیز رفتار ترقی دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی۔نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ 'تیز رفتار ترقی دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی‘‘ البتہ اگر وہ دوسری آنکھ سے دیکھتے تو انہیں یہ ضرور پسند آتی اور اگر اس میں ہماری اپنی ترقی بھی شامل ہے تو اس پر اعتراض کی کیا گنجائش ہے‘ کیا ہم پاکستان کے شہری نہیں ہیں‘ اور ‘ اگر خدانخواستہ یہ پیسہ ناجائز ہے تو ہم نے یہ کون سا ملک کے اندر رکھا ہوا ہے بلکہ اس برائی کو ہم سمندر پار لے گئے ہیں تاکہ مقامی بینک اس سے آلودہ نہ ہوں‘لیکن ہماری کسی بھی قربانی کا احساس نہیں کیا جاتا اور عدالت میں بھی ہر روز نئے سے نیا موقف اپنانا پڑتا ہے کیونکہ یادداشت کی کمی کے باعث صحیح بات ہمیں ذرا دیر کے بعد یاد آتی ہے اور زیادہ صحیح بات مزید دیر سے۔ انہوں نے کہا ''دشمن نے اپنے عزائم واضح کر دیے ہیں‘‘ اور یہی اس کی سب سے بڑی غلطی بھی ہے کیونکہ ہم نے ابھی تک اپنے عزائم واضح نہیں کیے اور دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے جا رہے ہیں۔ جو مخالفین کو ہضم نہیں ہو رہی۔ آپ اگلے روز خیر پور ٹامیوالی میں فوجی جوانوں سے خطاب کر رہے تھے۔
اگر پاناما لیکس کیس پارلیمنٹ میں جاتا تو
دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جاتا۔ خورشید شاہ
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''اگر پاناما لیکس کیس پارلیمنٹ میں جاتا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا‘‘ یعنی ہم سارا دودھ حکومت کے پلڑے میں ڈال دیتے
اور خود پانی پر گزارہ کر لیتے کیونکہ اگر پانی حکومت کی طرف جاتا تو وہ شرم سے پانی پانی ہو جاتی بلکہ اسے پتا ہی اس وقت چلتا جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا‘ جبکہ پچھلی دفعہ تو ہم نے دودھ میں سے باقاعدہ مکھن نکال کر حکومت کو پیش کر دیا تھا اور عمران خاں کو دھرنا چھوڑ کر بھاگتے ہی بنی تھی لیکن اب خواہ مخواہ سپریم کورٹ کو بھی پریشان کیا جا رہا ہے کیونکہ بیانات میں تضادات ہی اتنے ہیں کہ خود عدالت بھی سر پکڑ کر بیٹھ جائے گی کہ یہ کیا مصیبت ہم مول لے بیٹھے ہیں کہ ہر روز مدعا علیہان کی طرف سے ایک نیا مؤقف سامنے آ جاتا ہے جس سے پارلیمنٹ خود بھی حیران و پریشان ہو رہی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
با صلاحیت اساتذہ ہی بہتر انداز میں
تعلیم دے سکتے ہیں۔ شہباز شریف
خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''با صلاحیت اساتذہ ہی بہتر انداز میں تعلیم دے سکتے ہیں‘‘ اور ہم چونکہ باصلاحیت اساتذہ ہی کے پڑھے ہوئے ہیں اس لیے ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اس کے پیچھے کوئی نقشِ قدم یا نشان نہیں چھوڑتے جبکہ بھائی صاحب زیادہ باصلاحیت اساتذہ کے تعلیم یافتہ ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان میں کچھ اساتذہ نالائق بھی تھے ورنہ وہ پاناما لیکس میں اس طرح قابو نہ آتے کہ ان سے باہر نکلنے کوئی راستہ ہی نہیں مل رہا‘ اس لیے اُن کا سراغ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ انہیں تلاش کر کے قرار واقعی سزا دی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ''سکھ برادری کوگرونانک کی برسی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں‘‘ اور خدا کرے کہ انہیں بھی پاناما لیکس سے نکلنے پر ہمیں مبارکباد پیش کرنے کی سعادت اور موقع نصیب ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ ''70ہزار بچوں کو چائلڈ لیبر سے نکالا‘‘ اگرچہ ان کے والدین کو وعدہ شدہ امداد پورے طور پر نہیں مل سکی اور زیادہ تر ان میں یاں یاں ہی کرتے پھرتے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ صبر بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
پاناما لیکس معمہ نمبر 1
واضح رہے کہ یہ معمہ عدالت کے علاوہ پوری قوم کے لیے بھی چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں سب سے پہلے تو وزیر اعظم صاحب کی تضاد بیانی کی وجہ بیان کی جائے کہ اگر یہ بدہضمی کی وجہ سے ہے تو ان کے لیے کوئی تیر ہدف پھکّی تجویز کی جائے۔ اس کے بعد بچوں کے بیانات کا بھی جواز پیش کیا جائے جو ہر روز رنگ بدلتے ہیں۔ علاوہ ازیں قطری شہزادے کے بیان کے حصول میں جناب سیف الرحمن کی مساعی جمیلہ کا بھی مفصل ذکر ہونا چاہیے جبکہ اس دوران ایل این جی کے معاملے کو نہ چھیڑا جائے۔ یہ بھی بتایا جائے کہ آنے والے دنوں میں وزیر اعظم اور ان کے جگر گوشے اپنے اپنے مؤقف میں کیا کیا تبدیلیاں کریں گے۔ اس کے علاوہ اس میں جو جو گتھیاں موجود ہیں انہیں بھی حل کرنے کا کوئی طریقہ بتایا جائے۔ واضح رہے کہ چونکہ اس معمے کا کوئی حل موجود ہی نہیں ہے‘ اس لیے اس کے صحیح حل پر کوئی انعام بھی مقرر نہیں کیا گیا؛ البتہ اس سے آپ کو ذہنی مشق کی سہولت حاصل ہو سکتی ہے۔ المشتہر:حکومت پاکستان
اور‘ اب سانگھڑ سے اکبر معصومؔ کا تازہ کلام:
آدمی کوئی شہر بھر میں نہیں
اک خبر ہے کہ جو خبر میں نہیں
تھی کوئی چیز میرے ہونے سے
میں جو گھر میں نہیں تو گھر میں نہیں
اُڑ رہا ہے بہت بلندی پر
اک پرندہ جو بال و پر میں نہیں
اپنے کمرے سے کب نکلتا ہوں
اور کب حالتِ سفر میں نہیں
ایک یہ دل کا درد کیا شے ہے
کون سا درد ہے جو سر میں نہیں
وہ اس بام و در سے ہے آباد
ایک دُنیا جو بام و در میں نہیں
دل کا معصومؔ کیا کہوں احوال
ایک عالم ہے جو نظرمیں نہیں
پگھلنے کو تیار اکثر ہوں میں
خبر ہے تجھے کیسا پتھر ہوں میں
بہت اپنے خوابوں پہ تکیہ نہ کر
ابھی تیرا بالین و بستر ہوں میں
دمکتی ہے باہر سے دُنیا بہت
مگر اس نگینے کے اندر ہوں میں
یہاں اب کوئی بھی کسی کا نہیں
غنیمت ہے تم کو میسر ہوں میں
میں تم جیسا ہو کے بھی خوش ہوں اگر
تو بہتر نہیں‘ تم سے بدتر ہوں میں
وہ سفاّکیوں میں بھی معصومؔ ہے
فدا ان دنوں جس بلا پر ہوں میں
آج کا مقطع
زباں کو سر پہ بٹھائے بھی ہم پھرے ہیں ‘ ظفر
سخن کیا ہے زباں پر سوار ہو کر بھی