انسان جو کام کرتا ہے یعنی جو پیشہ اختیار کرتا ہے وہ اس کے مزاج کا بھی حصہ بن جاتا ہے۔ یہ فطری بات ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ لوگ جو کام کرتے ہیں وہی اُن کے مزاج پر اس قدر حاوی ہو جاتا ہے کہ وہ ہر معاملے کو اُس کام کی عینک سے دیکھنے لگتے ہیں۔ جو رحمِ مادر سے سیاسی مزاج لے کر اس دنیا میں آتے ہیں وہ ہر معاملے میں سیاست داخل کردیتے ہیں۔ اِسی طور اگر کوئی کاروباری شخصیت سیاست کی طرف آئے تو وہ ہر معاملے کو کاروباری نقطۂ نظر سے دیکھتی ہے۔ ایک زمانے سے سنتے آئے ہیں کہ ڈائجسٹوں کے لیے کہانیاں لکھنے والے ہر معاملے میں آئیڈیا سُونگھتے پھرتے ہیں تاکہ پہلی فرصت میں کہانی لکھی جاسکے۔ اب آپ سے کیا پردہ۔ جب سے ہم نے باضابطہ کالم نگاری شروع کی ہے، ہر معاملے میں کوئی نہ کوئی موضوع تلاش کرنے کی عادت سی پڑگئی ہے۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوا ہے کہ معاملہ سنجیدہ تھا مگر ہم جذباتی ہوگئے اور ایسا لکھا کہ چھپنے کے بعد سوچا کہ ایسا لکھا تو کیوں لکھا! یہ معاملہ اب ''چور چوری سے جائے، ہیرا پھیری سے نہ جائے‘‘ کی حد تک پہنچ چکا ہے! ع
چُھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
خیر، اپنی حماقتوں کا تفصیلی بیان پھر کبھی سہی۔ اس وقت ہم چائے کی بات کر رہے ہیں۔ جی ہاں، کڑک چائے کی بات جس کا مزا ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ چائے کو زیادہ کڑک کرنا ہو تو پَتّی زیادہ ڈالنا پڑتی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں چائے ذرا کڑوی سی ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ نئی دہلی کے چائے خانے ... معاف کیجیے، ہمارا مطلب ہے ایوان ہائے اقتدار میں ہوا ہے۔
نریندر مودی نے ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے شہر غازی آباد میں جلسے سے خطاب کے دوران کہا ہے کہ کڑک چائے بناتا رہا ہوں اِس لیے میرے اقدامات بھی کڑک ہیں۔ چائے کی بات کرکے اُنہوں نے اپنے ماضی کا حوالہ دیا۔ نریندر مودی کے والد گجرات کے ایک ریلوے اسٹیشن پر چائے کا کیبن چلاتے تھے۔ مودی نے بھی اس کیبن پر کام کیا تھا۔ خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ لوگ فرمائش کرتے تھے کہ مودی! چائے کڑک بنانا۔ اور یہ کہ غریبوں کو کڑک چائے زیادہ پسند ہے۔
کڑک چائے اور کڑک اقدامات میں بہت فرق ہے۔ یہ فرق نریندر مودی نے یکسر فراموش یا نظر انداز کردیا ہے۔ دو مرتبہ گجرات کے وزیر اعلٰی کی مسند پر جلوہ افروز رہنے کے باوجود مودی نے اتنا بھی نہ سیکھا کہ چائے کا کیبن چلانے اور کسی صوبے یا ملک کو چلانے میں اچھا خاصا فرق ہوتا ہے! یہی سبب ہے کہ وہ اب تک دونوں کو ایک ادا سے رضامند کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں۔
مودی کے ذہن میں یہ بات سماگئی ہے کہ بڑی طاقتوں کو ملائی والی چائے پیش کی جاتی رہے تو بات بنتی رہے گی۔ یہ تو ہم بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ ملائی والی چائے سبھی پسند کرتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی کو نوازنے کے لیے اچھی چائے کے لیے درکار سارا سامان پتیلی میں جھونک دیا جائے اور دوسروں کو بغیر دودھ کی کڑوی کسیلی چائے پلائی جائے۔
ہم نے سُنا بھی ہے اور ''الٹا چشمہ‘‘ میں دیکھا بھی ہے کہ ہاضمہ درست رکھنے کے لیے کریلے کا جُوس بہت مفید ہے۔ مگر یہ تو اپنا معاملہ ہے۔ مودی نے اپنا ہاضمہ ایک طرف ہٹاکر یہ طے کر رکھا ہے کہ پڑوسیوں کا ہاضمہ درست کرتے رہیں گے۔
بھارتی وزیر اعظم چائے بنانے کے ماہر ہوں گے مگر ہم ایسی مہارت کو کیوں تسلیم کریں کہ انہوں نے اب تک ہمیں تو بغیر کم چینی اور زیادہ پَتّی والی چائے دودھ ڈالے بغیر پلانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ کڑک اقدامات کا نسخہ بھی اُنہوں نے چائے سے لیا ہے۔ کڑک چائے تھوڑی کڑوی ہوتی ہے۔ یہ فارمولا اُن کے نام نہاد کڑک اقدامات پر بھی اطلاق پذیر ہوتا ہے۔ اُنہوں نے اب تک چند ایک کڑک اقدامات کے ذریعے دھاک بٹھانے کی کوشش کی ہے۔ اور تو کیا نتیجہ برآمد ہونا تھا، متعلقین اب تک حلق میں تلخی محسوس کر رہے ہیں۔
نریندر مودی کے مقدر کے پلیٹ فارم پر اقتدار کی گاڑی آچکی ہے مگر وہ اب تک اپنے ذہن سے چائے کا کیبن نکالنے میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔ ہر معاملے کو وہ چائے تیار کرنے کے نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہم نے متعدد مواقع پر مودی اور ان کے مصاحبین کو ملائی والی چائے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور جواب میں کیا ملا ہے؟ چند ہفتوں سے نریندر مودی اور ان کے مصاحبین کنٹرول لائن کی پتیلی میں کڑک چائے تیار کرکے ہمارے حلق میں انڈیلنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ کڑک اقدامات کے نام پر وہ ریاستی پالیسیوں میں ایک بار پھر ''عقابی روح‘‘ بیدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انتہا پسند تنظیموں کا مجموعہ ''سنگھ پریوار‘‘ نریندر مودی کے ذہن سے نکلنے کا نام نہیں لے رہا۔ وہ اب تک یہ سمجھ رہے ہیں کہ جس طور گجرات کو چلایا تھا اُسی طور ملک کو بھی چلا ہی لیا جائے گا۔ محض کام چلانے کی یہ ذہنیت ملک کو کہاں لے جائے گی، مودی کو اس کا خاک اندازہ نہیں۔ اور ہمیں حیرت ہے کہ بھارت کی اسٹیبلشمنٹ بھی خاموشی سے تماشا دیکھ رہی ہے۔ نئی دہلی کے پالیسی میکرز کو شاید یاد نہیں رہا کہ اُن کا ملک انتہا پسند سوچ کے شکنجے سے بمشکل نکل پایا ہے۔ اگر ایک بار پھر ''عقاب‘‘ تمام معاملات پر حاوی اور متصرّف ہوگئے تو بلند پروازی کے باوجود ملک آن کی آن میں زمین پر آ رہے گا۔
چین اور پاکستان کے درمیان تیزی سے مستحکم ہوتے ہوئے غیر معمولی اقتصادی روابط اور ترکی سے بڑھتی ہوئی پارٹنر شپ نے نئی دہلی میں خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری چونکہ ترکی کے ساتھ ساتھ روس کے مفاد میں بھی ہے اس لیے کریملن کے پالیسی میکرز بھی پاکستان کو اہمیت دینے کی راہ پر گامزن ہیں۔ اور اس معاملے میں انہوں نے نئی دہلی کی ناراضی کی بھی کچھ خاص پروا نہیں کی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ایران بھی الگ تھلگ رہنے کی پالیسی سے گریز کرتے ہوئے اب راہداری منصوبے کا حصہ بننے پر آمادہ، بلکہ بے تاب دکھائی دیتا ہے۔ یہ صورتِ حال نریندر مودی کو ایک بار پھر خلجان میں مبتلا کر رہی ہے۔ اُنہیں اپنے اقتدار کے کیبن کا دھندا چوپٹ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پڑوسیوں کو ملائی والی چائے پیتا ہوا دیکھ کر وہ پریشان ہو اٹھے
ہیں اور چاہتے ہیں کہ انہیں ''دے مار، ساڑھے چار‘‘ والی کڑک چائے پلائیں جس میں خاطر خواہ حد تک دودھ ہو نہ چینی۔
نریندر مودی نے غازی آباد میں خطاب کے دوران کہا کہ کڑک چائے غریب بہت پسند کرتے ہیں۔ شاید اِسی لیے انہوں نے ایک کڑک اقدام کے طور پر 500 اور 1000 والے نوٹ منسوخ کرکے عوام کے حلق سے پَتّی کی بھرمار والی کڑک چائے انڈیلنے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ والی کڑک چائے پی کر عوام بے حال ہوگئے ہیں۔ معیشت کو کالے دھن سے پاک کرنے کے نام پر کیا جانے والا اقدام بظاہر بھارتی معاشرے کی ضرورت ہے مگر اِس میں بھی پاکستان کو بدنام کرنے سے گریز نہیں کیا گیا۔ بڑے کرنسی نوٹ منسوخ کرنے کی ایک غایت یہ بیان کی گئی ہے کہ پاکستان نے بھارت بھر میں جعلی کرنسی پھیلادی ہے۔ سچی بات ہے صاحب، ہمیں تو علم نہیں تھا مگر بھارت کے سیاسی قائدین بتاتے رہتے ہیں کہ ہم پاکستانی کیا کیا کرتے رہتے ہیں!
اس وقت بھارت میں قیامت کا سماں ہے۔ منسوخ کیے جانے والے نوٹ اگرچہ 31 دسمبر تک تبدیل کرائے جاسکتے ہیں مگر لوگ بے حواس ہوچلے ہیں۔ غرباء زیادہ پریشان ہیں۔ انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ اُن کا محبوب لیڈر اچانک اپنے ابتدائی پیشے کی مہارت بروئے کار لاتے ہوئے ٹھیک ٹھاک کڑک چائے بنائے گا اور ان کے حلق میں انڈیل دے گا۔ ایک کڑک اقدام کی پیالی نے پوری قوم کے منہ کا مزا خراب کردیا ہے اور سب مودی کے نام کی دہائی دے رہے ہیں۔
آئندہ عام انتخابات میں آبرو بچانے کے لیے لازم ہے کہ نریندر مودی کڑک چائے کی ذہنیت والا پیالا، بلکہ چینک ہی توڑ دیں اور ایسی پالیسیاں اپنائیں جن میں ملائی والی چائے کا مزا پایا جاتا ہو۔