تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     19-11-2016

دنیا کو کیسے روکیں؟

ایک مرتبہ پھر ہم اپنا سر کھجلا رہے ہیں کہ ہرکوئی امریکی انتخابات کو سمجھنے میں اتنی سنگین غلطی کرنے میں کیونکر کامیاب ہوا؟ پھر یہ سوچ بھی دل کو پریشان کرتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا خود پسند جوکر دنیا کی طاقتو ر ترین فوج کا کمانڈر انچیف بن جائے تو اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ میرا پہلا رد عمل یہ تھا کہ دنیا کو روک لیں، میں اپنا سفر ختم کرنا چاہتا ہوں۔ 
تاہم مزید سوچ بچار سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایسے نستعلیق تبصرے پہلی مرتبہ تو غلط نہیں نکلے۔ اس سے پہلے بھی ہیجان انگیز تقریروں نے کئی بار معقولیت کی دوڑیں لگا دیں۔ ہٹلر یاد ہو گا؟ وہ یہود مخالف بیانیے اور قوم پرستی کے جذبات کو بھڑکاتے ہوئے انتخابات جیت گیا تھا۔ اس وقت جرمنوں کو وہ قوم پرستی بھائی تھی‘ کیونکہ پہلی جنگ عظیم کے بعد فتح مند اتحادیوں نے اُن پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی تھیں۔ تو اُس ماحول میں ہٹلر کا بیانیہ جرمنوں کے دل کی دھڑکن بن گیا۔ ہمارے اپنے وطن میں الطاف حسین نے لبرل شہر، کراچی پر طویل عرصے تک اپنی گرفت قائم رکھی۔ ہو سکتا ہے کہ اب اُن کی طاقت اور کنٹرول زوال پذیر ہوں‘ لیکن گزشتہ تین دہائیوں میں وہ پاکستان کے سب سے طاقتور لیڈر رہے۔ ان کے لبوں سے نکلا ہوا ایک لفظ دو کروڑ کی آبادی کے شہر پر سکوت طاری کر دیتا۔ ان کی انگلی کا ایک اشارہ اُن کے مخالفین کو مبینہ طور پرنیست و نابود کر دیتا۔ ہم 
میں سے بہت سے حیران ہوتے تھے کہ وہ اپنے پیروکاروں پر اتنا مضبوط کنٹرول کس طرح رکھتے ہیں۔ ہزاروں افراد سخت گرمی میں سڑکوں پر سر جھکائے بیٹھ کر اپنے لیڈر کے گھنٹوں پر محیط بے معنی لندن نشریے کو سماعت کرتے رہتے۔ زیادہ تر معقول پاکستانیوں کے لیے اس جماعت کے تمام معروضی خدوخال عقل و فہم سے ماورا تھے۔ کچھ عرصہ پہلے عمران خان کو ملنے والی بے پناہ حمایت بھی فہم و فراست کو بہت پیچھے چھوڑ گئی تھی۔ اتنے تعلیم یافتہ اور متمول افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر کئی ماہ تک اسلام آباد کی سڑکوں پر کیوں اور کیسے بیٹھے رہے؟ جب بعد میں کمیشن کے سامنے پتہ چلا کہ عمران اور ان کے ٹیم کے پاس ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھے تو وہ افراد ان پر اتنا اندھا اعتماد کس برتے پر کر چکے تھے؟
بظاہر ایسے غیر معقول رویے کی وجہ عقل و فہم سے بالاتر ہوتی ہے، لیکن مجھے شک ہے کہ یہ ہماری ثانوی فطرت کو سکھائی جانے والی اندھی پیروی کرنے کی عادت کا شاخسانہ ہے۔ اس پیروی کو عقل اور تجزیے کا سہارا حاصل نہیں ہوتا۔ ویسے بھی جذباتیت کے سیلاب کے سامنے عقل کا کیا کام؟ چنانچہ ٹرمپ کے کیس میں بھی یہی... ''منطق‘‘ لاگو ہوتی ہے۔ اُنھوں نے لوگوں کی جذباتی رگ پر انگلی رکھ دی تھی۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ لوگوں کو سو فیصد یقین تھا کہ وہ ملازمت کے مواقع پیدا کریں گے، یا امریکہ کو مسلمانوں اور میکسیکو کے باشندوں سے پاک کر دیں گے۔ وجہ یہ تھی کہ عام امریکیوں کو لبرل اشرافیہ کو پائوں کی ٹھوکر سے اقتدار سے چلتا کرنے کا موقع ہاتھ آ گیا تھا۔ 
احساس برتری رکھنے والے تعلیم یافتہ اور دولت مند افراد نے لاکھوں امریکیوں کے عدم تحفظ کو دور کرنے کی کوشش نہ کی۔ اس کے نتیجے میں عام امریکیوں نے اس طبقے کو اپنے مصائب سے لاتعلق سمجھا۔ ملازمت کے کم ہوتے ہوئے مواقع اور اس خطرے، کہ جلد ہی سفید فام امریکی اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے، نے اُنہیں عدم تحفظ سے دوچار کر دیا؛ چنانچہ اُنھوں نے 
ٹرمپ کو ووٹ دیتے ہوئے اپنے اعتماد کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ ہو سکتا ہے کہ اب امریکہ کو پچاس کی دہائی کے اُس دور تک واپس نہ لے جایا جا سکتا ہو‘ جب ملازمتوںکے بے پناہ مواقع تھے اور سفید فام امریکی بے پناہ طاقت رکھتے تھے، لیکن ٹرمپ کے بہت سے حامیوںنے اس مہم کو ایک مثالی دور کی طرف سفر کا ایک سنگ میل سمجھا۔ کچھ ایسے ہی جذبات برطانیہ میں بریگزٹ ریفرنڈم سے پہلے چلائی جانے والی مہم کے دوران دیکھنے کو ملے۔ یورپی یونین چھوڑنے کی حمایت کرنے والوں کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ملک کو خود کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ طرفین نے جو بھی معاشی وجوہ بیان کیں، یہ بیانیہ زیادہ توانا ثابت ہوا۔ لوگ چاہتے تھے کہ اُن کے ملک کو برسلز میں بیٹھے ہوئے مٹھی بھر غیر نمائندہ افراد کنٹرول نہ کریں۔ 
پاکستان میں ایم کیو ایم کی طاقت کے پیچھے مہاجروں کی شناخت اور طاقت حاصل کرنے کا جذبہ کارفرما تھا۔ اگرچہ سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے کی ضرورت اپنی جگہ موجود تھی لیکن تعلیم یافتہ مہاجر قوم دراصل اپنے وقار اور شناخت کے اظہار کے لیے فعال تھی۔ ہم اس مرحلے کو نہ سمجھ پائے کیونکہ ہم طاقتور اشرافیہ کا حصہ ہونے کا تاثر رکھتے تھے۔ ہماری معقولیت ہو یا طمانیت، ہم نے اس تمام صورت حال کو سمجھنے میں غلطی کر دی؛ چنانچہ ایک شخص نے طاقتور 'سٹیٹس کو‘ کو چیلنج کیا تو ہم نے آنکھوں پر پٹی باندھ لی۔ ان مثالوں میں ایک قدر مشترک ہے، کہ یہ سب واقعات اس سیاسی دور کا حصہ ہیں جہاں سچائی اٹل نہیں ہوتی، بلکہ طاقت ور کا بیانیہ ہی سچائی بن جاتا ہے۔ ایک طاقتور اور مقبول رہنما جیسے چاہے جھوٹ بولے، اس کے پیروکار اُس کا ناقدانہ جائزہ نہیں لے رہے ہوتے۔ امریکی میڈیا اور حقائق کا کھوج لگانے والی ویب سائٹس نے ٹرمپ کی تقریروں اور بیانات سے محدود سچائی اور دروغ گوئی کی فہرست مرتب کی۔ اس کا تناسب بہت زیادہ تھا، لیکن اُن کے حامیوں کو ان اعداد و شمار نے متاثر نہ کیا۔ اُن کے لیے امیدکی بحالی سب سے بڑی سچائی تھی۔ 
جب سیاسی مباحث کے دوران سچائی اپنی اہمیت کھو بیٹھی تو لبرل اپنی معقولیت کو کیش نہیں کرا سکتے تھے۔ اگر آپ کا مخالف کسی بھی طریقے سے پوائنٹ سکور کرنے پر تلا ہوا ہے‘ تو پھر یا تو آپ کو اس کی سطح پر اترنا ہو گا یا پھر آپ کو اپنی سیاسی دانائی کو دائو پر لگانا پڑے گا۔ اگر آپ سچ کا دامن تھامیں رکھیں تو دلیل میں شکست کھا جائیں گے۔ تو کیا اس کا مطلب ہے کہ جمہوریت کا مستقبل دروغ گوئی سے وابستہ ہے؟ دراصل شناخت کی سیاست تحمل اور برداشت کا خون کر دیتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ احساس برتری کو ختم کرکے فکری تنہائی سے باہر نکل کر سانس لیا جائے۔ صرف اسی صورت میں ہم ٹرمپ اور عمران خان جیسے افراد کی مقبولیت کو سمجھ سکتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved