تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     19-11-2016

داعش اورگولن تحریک

طیب اردوان تشریف لائے۔ چشمِ ما روشن دلِ ما شاد۔ جاتے وقت مگر وہ ایک بہت اہم سوال چھوڑ گئے۔
فتح اﷲ گولن اور ان کی تحریک کے بارے میں انہوں نے جو کچھ کہا، وہ غیر معمولی ہے۔ان کا خیال ہے کہ 'خدمت تحریک‘ عالم اسلام کے لیے داعش اور القاعدہ سے کم خطرناک نہیں ہے۔ قاتلوں کا ایک گروہ۔ لازم ہے کہ پاکستان کو بھی اس کے مضر اثرات سے محفوظ رکھا جائے۔ پاک ترک سکولوں کی بندش پر انہوں نے حکومت پاکستان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ کیا گولن کی' خدمت تحریک‘ ، داعش کے مثل کوئی تحریک ہے؟
میں فتح اﷲ گولن کے فہمِ دین سے بطور طالب علم کبھی کلی اتفاق نہیں کر سکا۔ واقعہ یہ ہے کہ کلی اتفاق اِس دنیا میں کم و بیش نا ممکن ہے، اگر آپ سوچتے ہیں۔ مفتی محمدشفیع صاحب نے لکھا تھا کہ اگر انسانوں کے کسی گروہ میں لوگ اختلاف نہیں کرتے تو اس کے دو ہی اسباب ہو سکتے ہیں: سب غبی ہیں یا پھر مفاد کے اسیر۔ اس پہلو کی، تاہم میں ہمیشہ تحسین کرتا رہا کہ اس تحریک کا سماج کو اصل میدانِ عمل بنایا۔ گولن سماجی تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں۔ تبدیلی اصلاً وہی ہے جو سماج سے اٹھتی ہے۔ طیب اردوان کی کامیابی کے پس منظر میں اس سماجی تبدیلی کا ایک کردار ہے جو گولن تحریک کے ہاتھوں برپا ہوئی۔ یہی وہ اہم نکتہ ہے جو اردوان صاحب کے اس نتیجۂ فکر کو مشکوک بناتا ہے۔
کوئی جماعت یا تحریک اگرطویل عرصہ تاریخی عمل کا حصہ رہے تو اس کے پرکھنے کا سب سے اہم معیار اس کے سماجی اثرات ہیں۔ اس تحریک نے سماج کو کیا دیا؟ نظری بحث اسی وقت ہوتی ہے جب معاملہ محض فکر و نظر کا ہو۔ جب کوئی پیغام سماجی سطح تک پھیل جائے تو پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس نے معاشرے کو کیا دیا؟ ترک معاشرے میںگولن تحریک نے اس اسلامی تشخص کی بازیافت میں ایک اہم کردار ادا کیا جسے اتاترک نے مصنوعی طور پر بدلنا چاہا تھا۔ سعید نورسی نے یہ کام کیا اور پھر گولن نے اسے آگے بڑھایا۔
گولن 1950ء کی دہائی میں نورسی کی 'نور تحریک‘ کے قریب ہوئے۔ 1960ء میں نورسی کاانتقال ہوا تووہ اس تحریک کے ایک بڑے مبلغ کے طور پر سامنے آئے۔ اگر سطح زمین پر ہونے والے واقعات کو دیکھا جائے تو گولن تحریک نے ترکوں میں اسلام کے ساتھ وابستگی پیدا کی اور نورسی کے کام کو آگے بڑھایا۔ ان کے نظریاتی تشخص کے ساتھ ان کی ترک شناخت کو بھی مستحکم کیا۔ یہ دونوں کام ایسے ہیں جنہوں نے ترکی کو مضبوط کیا۔ نظری طور پر بھی اور سیاسی طور پر۔ گویا سماجی اثرات کے معیار پر پرکھا جائے تو یہ تحریک ترکی کے لیے باعثِ ضرر نہیں خیر کا سبب بنی۔
اسی طرح پاکستان میں اگر دیکھا جائے تو ان لوگوں کی سرگرمیاں ، سماجی سطح پر قابل اعتراض نہیں تھیں۔ پاک ترک سکولوں کے معاملات کے بارے میں سوالات ضرور اٹھتے رہے۔ اس میں مقامی اساتذہ کے ساتھ ایک امتیاز کا معاملہ ہوا لیکن اس کے شواہد، کم از کم میرے علم میں نہیں کہ ان سکولوں نے نئی نسل کے اخلاق و کردار پر کوئی منفی اثر ڈالا۔ طالب علموں کو کسی خاص تحریک کا کارکن بنانا چاہا یا ان میںکسی ایسے تصورِ اسلام کی آبیاری کی جو مسلمانوں کی اجماعی سوچ کے خلاف تھا یا اس سے مسلم معاشروں میں انتشار پیدا ہو سکتا ہے۔ پھر رومی فورم ہے۔ میںخود کبھی اس کے کسی پروگرام میں شریک نہیں ہوا لیکن اس کے مستقل شرکاء اسے ایک ثقافتی فورم قرار دیتے ہیں جو مسلم تہذیبی کلچر کی نمائندگی کرتا ہے۔ آج تک اس ادارے کی طرف سے کوئی ایسی سرگرمی سامنے نہیں آئی جسے اسلام کے بارے میں قابل اعتراض قرار دیا جا سکے۔ دنیا کے دیگر ممالک سے بھی کوئی ایسی خبر نہیں ملی جہاں گولن صاحب کے ادارے متحرک ہیں۔
القاعدہ اور داعش بھی، اسی طرح، محض فکر یا خیال نہیں۔ یہ تحریکیں ہیں جن کے اثرات کی بنیاد پر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے مسلم معاشروں کو کیا دیا۔ ان کے لٹریچر اور ان کی سرگرمیاں خود ان کے اثرات پر ناطق ہیں۔ دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ انہوں نے مسلمان معاشروں کا سکھ چین لوٹا۔ انہیں بد امنی کے مراکز بنایا۔ ایک ایسے تصورِ اسلام کو فروغ دیا جس نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ دنیا کو ایک عذاب میں مبتلا کر دیا۔ داعش اور القاعدہ کے سماجی اثرات امر واقعہ ہیں۔ ان کا انکار مشکل ہے جس طرح خدمت تحریک کے اثرات کا انکار آسان نہیں۔
سوال یہ ہے کہ اتنے واضح فرق کے باوجود اردوان صاحب نے گولن تحریک کو داعش کے مثل کیوں قرار دیا؟ اردوان صاحب کی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے، میرے لیے یہ باور کرنا آسان نہیں کہ وہ دانستہ ایک غلط بات کو فروغ دے رہے ہیں۔ پھر یہ بھی واضح ہوا ہے کہ ان کے خلاف وہ فوجی بغاوت دم توڑ چکی جس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ اس کے محرک گولن صاحب کے متاثرین تھے۔ترکی میں ہزاروں لوگوں کو گولن کے ساتھ تعلق کے شبے میں گرفتار کیا گیا۔ ان کے میڈیا ہاؤسز اور دوسرے ادارے بند کر دیے گئے۔ اس پہ کہیںکوئی ایسا رد عمل نہیں ہوا کہ 'خدمت تحریک‘ کے لوگوں نے ریاستی اداروں یا حکومت کو ہدف بنایا ہو۔ داعش اور القاعدہ کے خلاف ریاستیں متحرک ہوتی ہیں تو اس کی ایک قیمت ہے جو انہیں ادا کرنا پڑتی ہے۔ اگر یہ داعش کی مثل کوئی تحریک ہے تو کیوں ترکی کی قیادت ہدف نہیں بنی؟ کیوں برسر اقتدار جماعت کا کوئی فرد اس تحریک کا نشانہ نہیں بنا؟ دنیا میں بھی کہیں ترکی سفارت خانے یا کوئی فرد کسی ایسے رد عمل سے نہیں گزرا۔ ہم نے تو یہ دیکھا کہ یہ ترکی ہو یا یا پاکستان، یہ لوگ ایک مظلوم گروہ کے طور پر سامنے آئے جنہوں نے عدالتوں کا رخ کیا یا پھر جیلوں میں بند کر دیے گئے۔
اردوان صاحب ہمارے لیے جو سوال چھوڑ گئے ہیں، وہ بہت اہم ہے۔ ان کی ذات پر پورے اعتماد کے باوجود سچ یہ ہے کہ خدمت تحریک کو داعش یا القاعدہ کے مثل کوئی تحریک ثابت کرنے کے لیے جو شواہد چاہیں، وہ کہیں میسر نہیں۔ یہ استحقاق تو صرف پیغمبر کا ہے کہ وہ غیب کی کوئی خبر دے تو اس پر بلا تحقیق ایمان لایا جائے۔ اردوان صاحب کے احترام اور ان کی خدمات کے اعتراف کے باوجود ان کا یہ موقف قبول کرنا مشکل ہے۔ ہم اس پران کے مشکور ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا اور یہاں آ کر انہوں نے جس طرح مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر ہمارے موقف کی تائید کی، اس پر بھی ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ یہ سوال مگر پھر بھی اپنی جگہ موجود ہے۔
ایک سوال اردوان صاحب اور بھی چھوڑ گئے۔ اس کا تعلق ہمارے حکمران طبقے سے ہے۔ ترک سکول جس طرح بند کیے گئے، اس نے اس سوال کو پھر سے زندہ کر دیا ہے کہ بطور ایک آزاد قوم کیا ہماری کوئی خارجہ پالیسی ہے؟ کبھی ایک کا دباؤ، کبھی کسی دوسرے کا دباؤ۔ کیا بین الاقوامی تعلقات میں باہمی احترام اور مساوی سطح پر تعلقات کی کوئی صورت نہیں؟ یمن کے معاملے میں ہم نے ایک حد تک آزاد روش اپنائی۔ ضرورت ہے کہ اس کا دائرہ بڑھایا جائے۔ احترام اور حمیت، دونوں کا لحاظ لازم ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved