تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     20-11-2016

کالا دھن: گھبرائیے مت!

ایک ہزار اور 500 کے نوٹوں کو بدلنے کا بھارتی سرکار کا فیصلہ انقلابی ہے۔ اس فیصلے نے نریندر مودی کو سچ مچ میں وزیر پرچار سے وزیر اعظم بنا دیا ہے۔ جو شان اندرا گاندھی کو ان کے فیصلوں نے عطا کی‘ اس سے بھی زیادہ چمچماتی شان اس فیصلے سے مودی کی بن سکتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دونوں بڑے نوٹوں کو بدلنے نے دھنا سیٹھوں کی نیند حرام کر دی ہے‘ اور عام لوگوں کو بھی تھوڑی بہت فکر میں ضرور ڈال دیا ہے‘ لیکن یہ فکر بے بنیاد ہے۔ عام لوگوں کو گھبرانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔ ان دونوں نوٹوں کو سرکار نے رد نہیں کیا ہے‘ صرف بدلا ہے۔ اگر وہ انہیں رد کر دیتی تو ملک کے سبھی بینک انہیں 30 دسمبر تک قبول کیوں کرتے؟ بینکوں کو صبح آٹھ بجے سے رات آٹھ بجے تک کھلا کیوں رکھا جاتا؟ ہر بینک میں نئے کائونٹر کیوں کھولے جاتے؟ ہزاروں روپوں سے بھری گاڑیاں بینک کی طرف کیوں دوڑائی جاتیں؟ لوگوں کو پانچ سو اور دو ہزار کے نوٹ کیوں دیے جاتے؟ انہیں دس لاکھ روپیہ جمع کرانے تک کی چھوٹ کیوں دی جاتی؟ خواتین کو خاص چھوٹ کیوں دی جاتی؟ چار ہزار روپیہ روزانہ نکالنے کی چھوٹ کیوں دی جاتی؟ سرکار اس بات کا پورا دھیان رکھ رہی ہے کہ عام آدمیوں کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ پھر بھی تکلیف ہو رہی ہے۔ گائوں کے لوگوں کو زیادہ تکلیف ہو گی۔ سرکار اور نوکر شاہ کو پورا زور لگانا ہو گا کہ عام لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔
جہاں تک نقد پریمی کروڑ پتیوں‘ ارب پتیوں‘ کھرب پتیوں اور ہمارے عظیم لیڈروں کا سوال ہے‘ انہیں بھی زیادہ ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنے ہزاروں ملازمین اور لاکھوں پارٹی کارکنان میں سے ایک ایک کو لاکھوں پرانے نوٹ دے کر انہیں نئے نوٹوں میں بدلوا سکتے ہیں۔ اتر پردیش کے لیڈروں نے یہ 'اچھا کام‘ شروع بھی کر دیا ہے۔ لیڈر ہی لیڈر کو پٹخنی مار سکتے ہیں۔ ظاہر ہے سرکار ڈال ڈال ہے تو سیٹھ اور لیڈر پات پات ہیں۔ اب دو ہزار نوٹوں کے سبب انہی تجوریوں اور پیٹیوں میں ڈبل مال بھرا جا سکے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ 30 دسمبر کے پانچ سات دن پہلے سرکار نئی پالیسی اعلان کر دے‘ جس کے تحت چھپا دھن جمع کروانے والوں کو پچاس یا ساٹھ فیصد ٹیکس لے کر بری کر دیا جائے۔ بھارت سرکار بھی مالامال ہو جائے گی۔ اسے کم ازکم 8 یا 10 لاکھ کروڑ مل جائیں گے اور سارا چھپا دھن بھی ظاہر ہو جائے گا۔ لیکن یہ کالے دھن کی جڑ بنیاد سے اکھاڑنے کا حل نہیں ہے۔ پھر بھی یہ راستہ اسی منزل کی طرٖف جاتا ہے‘ اس لیے اس کا خیر مقدم ہے۔ اس تاریخی قدم کا کریڈٹ بابا رام دیو اور انیل بوکیل کو ہے‘ جنہوں نے کالے دھن اور بڑے نوٹوں کے خلاف زبردست مشن چلایا تھا۔
مودی کیوں ہوئے اتنے جذباتی ؟
وزیر اعظم نریندر مودی اتنے جذباتی کیوں ہو گئے؟ ایسا جذبات ہم نے1962ء میں بھی نہیں دیکھا‘ جب وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو چین کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔ مودی کی آنکھوں میں آنسو اور زبان میں سوز کا کیا سبب ہے؟ انہوں نے جیسی باتیں اپنے جلسوں میں کہی‘ کیا وہ کسی وزیر اعظم کو اچھی لگتی ہیں؟ آپ مجھے زندہ جلا دیں تو بھی میں ڈرنے والا نہیں ہوں‘ اور جو قدم میں نے اٹھائے ہیں ان پر ڈٹا رہوں گا۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی ایسی باتیں کہہ ڈالیں جو کسی جمہوری لیڈر کو کہنے سے بچنا چاہیے۔ ان کے اقوال سے ان کی اپنی بات خراب ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ملک کے خاص خدمت گار نہیں‘ خاص مالک ہیں۔ جو چاہیں گے سو کرکے دکھا دیں گے۔ کیا انہیں پتا نہیں کہ اندرا گاندھی جیسی عوام میں مقبول اور طاقتور لیڈر کو بھارت کے لوگوں نے سوکھے پتے کی طرح 1977ء میں پھونک مار کر اڑا دیا تھا؟ اندرا کے آگے مودی کی بساط کیا ہے؟ پھر بھی مودی اتنے کیوں بوکھلا گئے ہیں؟ شاید اس لیے کہ انہیں لگ رہا ہے کہ ان کی یہ سرجیکل سٹرائیک بومے رِنگ ہو گئی ہے یعنی انہوں نے جو تیر کالے دھن پر مارا تھا‘ وہ لوٹ کر انہیں کے سینے پر لگ رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بڑے نوٹوں کے بدلائو کو لے کر ملک کے سوا ارب لوگ پریشانی کو محسوس کر رہے ہیں‘ لیکن مودی نے جو کیا‘ وہ ملک کی بہتری کے لیے کیا ہے۔ وہ مخالفین کے الزامات پر زیادہ دھیان نہیں دے رہے‘ لیکن ان پر مودی ضرورت سے زیادہ دھیان دے رہے ہیں؟ ان کے اس رویے نے شک پیدا کر دیا ہے۔ کہیں دال میں کچھ کالا تو نہیں؟ اس موقع پر مودی اور ارون جیٹلی کو قبول کرنا چاہیے کہ انہوں نے مناسب تیاری کے بنا ہی اتنی انقلابی تجویز عاید کر دی۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ اتر پردیش کے چنائو میں اپوزیشن پارٹیوں کو ابھی سے بے حد فکر میں ڈال دیا ہے‘ لیکن عوام کو اگر اگلے پچاس دن تک اسی طرح کے مصائب جھیلنا پڑے تو بھاجپا اتر پردیش میں منہ کی کھائے گی اور مودی کا سورج بھی غروب ہو جائے گا‘ جیسے کہ بوفورس کُھلتے ہی راجیو گاندھی کا ہو گیا تھا۔ یہ ٹھیک وقت ہے‘ جبکہ سرکار کو اس پہل پر پوری طرح سے پھر سوچنا چاہیے۔ لوگوں کو کچھ اور سہولیات مہیا کروانی چاہئیں اور پھر بھی مصیبت بنی رہتی ہے تو اس قدم پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ جذبات میں بہہ کر ملک کا اور خود کا نقصان نہیں کرنا چاہیے۔
بھارتی حکومت اور اپوزیشن
کانگریس کے ایک اجلاس میں نائب صدر راہول گاندھی نے کہا کہ یہ وقت جمہوریت کے لیے نہایت ہی اندھیرے کا وقت ہے۔ میرے خیال میں انہوں نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔ وہی جمہوریت طاقتور مانی جاتی ہے‘ جس میں سرکار اور اس کے مخالفین‘ دونوں ہی مضبوط ہوں۔ اب یہاں بھارت میں مودی سرکار تو مضبوط ہے‘ لیکن اپوزیشن؟ 
اپوزیشن کا کیا حال ہے۔ اپوزیشن ہے کہاں‘ جو اس کا ہم حال بتائیں؟ لوک سبھا میں کسی بھی اپوزیشن کو منظوری ہی نہیں ہے۔ کانگریس سب سے بڑی پارٹی ہے لیکن اس کے پاس پچاس ممبر بھی نہیں۔ دوسری پارٹیاں لگ بھگ سبھی صوبائی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ سب پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں ہیں۔ وہ جمہوریت کی حفاظت کیا خاک کریں گی؟ وہ تو اپنا نفع نقصان پہلے دیکھتی ہیں۔ وہ کوئی نیا بڑا اتحاد بنانے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ ایسے میں ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی بہت کچھ کر سکتی ہے‘ لیکن اس کا کیا حال ہے؟ وہ سب سے بڑی پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی ہے۔ ماں بیٹا کمپنی! اگر نہیں تو اٹھارہ برس تک سونیا جی لگاتار صدر کی کرسی پر کیسے جمی ہوئی ہیں (ان کی عمرِ دراز ہو‘ یہ میری نیک خواہش ہے) ہر کانگریسی کو پتا ہے کہ کانگریس جیسی عظیم اور دنیا کی سب سے بڑی پارٹی کی موجودہ حالت کے لیے کون ذمہ دار ہے‘ پھر بھی سبھی کی متفقہ رائے سے اسے ہی صدر بنائے ہوئے ہیں‘ جو اس کے لیے ذمہ دار ہیں‘ یہ بھارتی جمہوریت کا نہیں کانگریس کا سب سے اندھیرے والا دور ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کانگریس میں لائق لوگوں کا کال پڑ گیا ہے۔ آج بھی کانگریس میں جتنے قابل اور عوام سے جڑے ہوئے لیڈر ہیں‘ ملک کی کسی دیگر پارٹی میں نہیں ہیں‘ لیکن لگاتار اقتدار میں رہنے کے سبب وہ پلپلے ہو گئے ہیں۔ ان میں دم نہیں ہے کہ وہ خم ٹھوک کر کھڑے ہو جائیں اور کانگریس کو طاقتور پارٹی کے طور پر پیش کریں۔ کیا میں انہیں یاد دلائوں کہ 1964ء سے1967ء تک کی لوک سبھا میں ڈاکٹر لوہیا کے پاس ایوان کے درجن بھر ممبر بھی نہیں تھے لیکن وہ ملک کی سب سے مضبوط سرکار کی کھاٹ کھڑی رکھتے تھے۔ اب کھاٹ سبھا رَچانے والی کانگریس اسی کھاٹ پر لمبی ہونے کی تیاری کر رہی ہے۔ راہول جی بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت کا یہ سب سے برا وقت ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved