تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     20-11-2016

فیض صاحب‘ انڈیا اور پاکستان

بیس نومبر کو فیض صاحب کی برسی ہے۔ فیض صاحب غالب اور اقبال کے بعد اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں وہ شاعر ہونے کے علاوہ ٹریڈ یونینسٹ اور صحافی بھی تھے۔ ایک نقاّد نے انہیں رومانوی باغی کہا ہے۔ فیض کی شاعری مزاحمت کی شاعری ہے انہیں اس دن کا پیہم انتظار رہتا ہے جب تاج اچھالے جائیں گے اور تخت گرائے جائیں گے۔ انقلابی شاعر تو اور بھی بہت ہوئے ہیں اور اس ضمن میں جوش ملیح آبادی کی عظمت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن جو شعری نزاکت فیض کو ممتاز کرتی ہے وہ ان کا رومانوی انداز ہے ان کا محبوب وطن ہے انہیں انسان سے پیار ہے وہ مزدور کسان پر ظلم برداشت نہیں کر سکتے۔
فیض آفاقی شاعر ہیں مگر انہیں سمجھنے کے لیے ان کے عہد اور خاندان کا ذکر ضرور ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ سیالکوٹ نے برصغیر کو اردو کے دو عظیم شاعر دیے دونوں نے مولوی سید میر حسن سے عربی اور فارسی سیکھی اور دونوں اعلیٰ تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور گئے۔ فیض نے عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں ایم اے کیا۔ ان کے والد کابل میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ شاہ خرچ تھے دل کے دورے سے اچانک فوت ہوئے تو معلوم ہوا کہ بے حد مقروض تھے۔ لہٰذا فیض کی جوانی کا زمانہ تنگی اور عسرت میں گزرا۔ سوویت سوشلسٹ انقلاب1917ء میں برپا ہوا یعنی فیض صاحب کے بچپن میں انڈیا میں انگریز کی سطوت عروج پر تھی۔ فیض کی نوجوانی میں 1929ء میں عالمی اقتصادی زبوں حالی شروع ہوئی اور ایک عشرے تک پوری دنیا کو جکڑے رکھا۔ ان حالات میں فیض جیسے حساس شخص کا بائیں بازو کے افکار سے متاثر ہونا قدرتی امر تھا۔
بعض نقاد فیض صاحب کو سکّہ بند کمیونسٹ کہتے ہیں اور یہ مرض انڈیا میں عام ہے اس اختراع کا اصل مقصد یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ عقائد سے آزاد شخص کا پاکستان جیسی اسلامی جمہوریہ میں کیا کام۔ لیکن فیض صاحب کی شاعری اور ان کی زندگی کے اہم واقعات اس نقطہ نظر کی مکمل نفی کرتے ہیں۔ فیض کی شاعری میں قرآنی تلمیحات ملتی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے حیدر آباد جیل میں قیدیوں کو قرآن کا درس دیا۔ ایلس کے ساتھ فیض کا نکاح سری نگر میں ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نکاح شیخ عبداللہ نے پڑھایا۔ عمرِ عزیز کے آخری حصے میں فیض صاحب نے ضلع سیالکوٹ میں اپنے گائوں کالا قادر کی مسجد کی مرمت خود کرائی اور اس مسجد میں ایک بار امامت بھی کرائی۔ فیض جوانی میں ترقی پسند ادیبوں کی تحریک کا حصہ بنے مگر بعد میں تحریک کو چھوڑ دیا اور وجہ یہ بنی کہ لیفٹ کے دانشور اقبال کو ہدف تنقید بنانا اپنا اولین فرض سمجھتے تھے اور فیض کو اقبال سے خاص عقیدت تھی۔
1947ء میں فیض نے اپنی مشہور نظم صبح آزادی لکھی نظم ایسے شروع ہوتی ہے ؎
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
کہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
اس نظم کا آنا تھا کہ انڈیا کے دانش وروں کی باچھیں کھل گئیں وہ سمجھے کہ فیض نے برصغیر کی تقسیم کی نفی کی ہے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں تھا فیض صاحب دراصل 1947ء میں ہونے والے بہیمانہ قتل و غارت پر رو رہے تھے جس میں ہندو سکھ اور مسلمان سب شریک رہے تھے۔1948ء میں قائد اعظمؒ کا انتقال ہوا تو فیض صاحب روزنامہ پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے۔ اس اخبار کے اداریے میں جسے فیض صاحب کی نگرانی میں لکھا گیا تھا بابائے قوم کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا‘اور یہ بات انڈیا کے دانش وروں کو بالکل پسند نہیں آئی۔ حقیقت یہ ہے کہ فیض انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک پُل کی حیثیت رکھتے تھے سرحد کے اس پار ان کے کئی دوست تھے لیکن پاکستان سے ان کی محبت غیر متزلزل تھی۔
دنیا بھر میں انڈیا سفارت خانے اور انڈین ادبی تنظیمیں فیض ڈے اہتمام سے مناتے ہیں حالانکہ یہ کام تو پاکستانی سفارت خانوں کو پہلے کرنا چاہیے۔ غالباً1990ء میں لندن میں انڈین ہائی کمشن نے یوم فیض کی تقریب منعقد کی پاکستان کے ہائی کمشنر ڈاکٹر ہمایوں خان کو بھی مدعو کیا گیا اور پھر انہیں تقریر کے لیے کہا گیا۔ ڈاکٹر صاحب گویا ہوئے کہ فیض پاکستان اور انڈیا کے مابین امن کے داعی تھے میں اس بات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ آپ اُن کے نظریات کو خاص اہمیت دیتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ بھی دونوں ملکوں کے درمیان امن کے متمنی ہیں لیکن میری اتنی سی درخواست ہے کہ جتنی محنت آپ اس عظیم شاعر کا دن منانے کے لیے لگاتے ہیں اگر اس سے نصف بھی مسئلہ کشمیر کے حل پر لگا دیں تو برصغیر میں امن ہو سکتا ہے۔ انڈیا ہائی کمشن والوں پر خاموشی طاری ہو گئی۔ اسی طرح سے پیرس میں انڈین ایمبیسی والے فیض ڈے منا رہے تھے انڈین سفیر نے اپنی تقریر میں کہا کہ فیض ہندوستان سے بے حد محبت کرتے تھے اتنے میں ایک سامع نے پوچھا کہ اگر انہیں انڈیا سے اس قدر محبت تھی تو 1947ء میں پاکستان کیوں چلے گئے انڈین سفیر کا جواب حقیقت سے خاصا قریب تھا۔ ان کے خیال میں فیض صاحب مسٹر جناح کو لبرل اور ترقی پسند لیڈر مانتے تھے اور دوسرے ان کاوطن یعنی سیالکوٹ پاکستان میں تھا۔
پاکستان میں فیض صاحب نے چھ سال جیل میں گزارے لیکن ملک کے خلاف ایک لفظ بھی کبھی ان کی زبان سے نہیں نکلا۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں فیض یاسر عرفات کے پاس بیروت چلے گئے اور فلسطین کی تحریک آزادی کے لیے انگریزی کے رسالے لوٹس Lotusکی ادارت کرنے لگے۔ لبنان کی خانہ جنگی کی وجہ سے انہیں پاکستان واپس آنا پڑا۔ یہ ان کی زندگی کے آخری سال تھے اس عہد میں اسلام کے ساتھ ان کا رشتہ جو کبھی ٹوٹا نہ تھا اور مضبوط ہو گیا گائوں کے مسجد کی مرمت ان کا بین ثبوت ہے اسی دور میں انہوں نے چند پنجابی نظمیں بھی لکھیں۔ اب وہ فیض جو کبھی فلسطین کی آزادی کے گیت گاتا تھا اور کبھی افریقہ کے حریت پسندوں کے لیے نظمیں لکھتا تھا اب اس کے دل میں اپنی ماں بولی اور جنم بھومی کی محبت جاگ رہی تھی۔
ایک روایت جو میں نے حالیہ دنوں میں سنی ہے یہ ہے کہ انڈیا کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے فیض صاحب کو پیغام بھیجا کہ اگر وہ انڈیا کی نیشنلٹی کے بارے میں سوچیں تو حکومت ہند اس بات کا خیر مقدم کرے گی۔ فیض صاحب کا جواب دلچسپ تھا انہوں نے انڈیا آفر کو بڑے اچھے طریقے سے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور یہ کہا کہ انڈیا میری محبوبہ ہے جبکہ پاکستان میری منکوحہ۔ یہ حقیقت ہے کہ فیض نے تمام تلخیوں کے باوجود محبت تقسیم کی اور وہ بھی بے پناہ محبت جو انہیں اپنے وطن سے تھی مزدوروں سے تھی اوربنی نوع انسان سے تھی۔ اس محبت کا اور امن پسندی کا اندازہ ان کی اس تقریر سے ہوتا ہے جو ماسکو میں لینن امن انعام لینے پر کی گئی۔ اس غیور عاشق کا شعر ہے۔ ؎
کروکج جبیں پہ رُخِ کفن‘ مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن پس مرگِ ہم نے بھلا دیا
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved