تحریر : آغا مسعود حسین تاریخ اشاعت     20-11-2016

بھارت کی پاکستان کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ

بھارت کی پاکستان دشمن اور نسل پرست قیادت پاکستان سے دوستی اور مفاہمت کے لئے تیار نظر نہیں آ رہی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انتہا پسند نریندر مودی نے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ پاکستان کو نقصان پہنچا کر رہے گا۔ انہیں یہ جرأت اور حوصلہ ان ممالک کی جانب سے مل رہا ہے جو پاکستان کو اپنے سامراجی عزائم کی راہ میں رکاوٹ محسوس کرتے ہیں، خصوصاً اس وقت جب پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات میں مضبوطی آئی اور جب سی پیک کا اقتصادی منصوبہ تعمیرو ترقی کے مراحل سے گزر رہا ہے، بلکہ جو جزوی طور پر فعال بھی ہو چکا ہے۔ یہ منصوبہ بھارت سمیت ان طاقتوں کو ناپسند ہے جو اپنی مکروہ چال بازیوں سے اس کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ 
گزشتہ دو ڈھائی ماہ سے بھارت کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر بھاری توپ خانے سے مسلسل گولہ باری کر رہا ہے جس کی وجہ سے کئی معصوم پاکستانی شہری جاں بحق اور سو زخمی ہوئے جبکہ سات پاکستانی فوجیوں نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ پاکستان نے بھارت کی اس غیر اعلانیہ جارحیت کی سخت مذمت کرتے ہوئے پانچ بڑے ممالک (جو سیکورٹی کونسل کے مستقل ممبر ہیں) کو دفتر خارجہ کی جانب سے اس سنگین صورت حال پر بریفنگ دی ہے اور انہیں بتایا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے گھنائونے جرائم کو چھپانے کی غرض سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر بڑے توپ خانے سے اس طرح حملے کر رہا ہے، گویا اس نے پاکستان پر غیر اعلانیہ جنگ مسلط کر رکھی ہے، جو آئندہ کسی بھی وقت روایتی تصادم کے علاوہ نیوکلیئر جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ ان پانچ بڑی طاقتوں کے نمائندوںکو سیکرٹری خارجہ کے علاوہ جی ایچ کیو کے ملٹری آپریشن کے شعبے کے ماہرین نے تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ 2003ء سے کنٹرول لائن پر کبھی بڑے ہتھیار استعمال نہیں ہوئے، مجموعی طور پر امن قائم رہا، لیکن بھارت اب وہاں بڑے توپ خانے سے گولہ باری کررہا ہے جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تنائو گہرا ہوگیا ہے۔ بھارت لائن آف کنٹرول پر تعینات اقوام متحدہ کے مبصرین کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، جن کا برملا کہنا ہے کہ بھارت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حالات کو خراب کر رہا ہے، جو اس خطے کی مجموعی سلامتی کے لئے زہر قاتل ثابت ہو سکتے ہیں۔
بھارت کی آبدوز نے 14 نومبر کو پاکستان کے سمندری حدود میں داخل ہوکر حالات کو اور خراب کرنے کی کوشش کی؛ تاہم پاکستان نیوی نے اس کے مذموم عزائم کو ناکام بنا دیا ہے۔ بھارت کی غیر اعلانیہ جارحیت کا پاکستان کی فوج منہ توڑ جواب دے رہی ہے۔ اس نے بھارت کی جنونی قیادت کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ پاکستان ہر قسم کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہے، لیکن پاکستان بھارت کی جانب سے اشتعال انگیز کارروائیوں کے ٹریپ میں نہیں آئے گا۔ پاکستان جنگ نہیںکرنا چاہتا، لیکن وہ کشمیر ی عوام کی حمایت سے دستبردار بھی نہیں ہوگا کیونکہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ ہے جس کو اقوام متحدہ کے علاوہ ساری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ حالیہ دنوں میں بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں آٹھ لاکھ فوج روزانہ کی بنیاد پر نہتے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ بلا وجہ نوجوانوں اور بزرگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، سینکڑوں کی تعداد میں نوجوانوں کو بھارت کی فوج نے غائب کر دیا ہے، ان تمام Missing Persons کی بازیابی کے لئے مقبوضہ کشمیر میں مظاہرے بھی کئے جا رہے ہیں، لیکن تا حال انسانی جذبات سے عاری بھارتی حکومت ان کے مطالبات کو سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ چنانچہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ صور ت حال کیوں پیدا کر رہا ہے؟ ایک طرف تو وہ جنوبی ایشیا کے تمام ملکوں کے ساتھ اقتصادی ترقی اور غربت مٹائو کا عندیہ دے رہا ہے، لیکن دوسری جانب اس خطے کے اہم ترین ملک پاکستان کے خلاف جنگی صورت حال پیدا کر رہا ہے۔ شاید مودی اس خام خیالی میں مبتلا ہے کہ پاکستان پر حملہ کرکے وہ اس کو دولخت کرسکتا ہے، اس کے اس مذموم اور سامراجی خیال کی تائید بھارت میں انتہا پسند تنظیمیں آر ایس ایس اور شیوسینا کر رہی ہیں، جو بھارت کے مسلمانوں کو پہلے ہی سے کسی نہ کسی بہانے خوف زدہ کرتی رہتی ہیں اور ان کے لئے ملازمتوں کے دروازے بند کردیے ہیں۔ بعض ناعاقبت اندیش پاکستانی بھارتی لابی کا دانستہ شکار ہوکر (مالی مفادات کے پیش نظر) مقبوضہ کشمیر میں حالیہ آزادی کی جاری تحریک کو پاکستان کی حمایت کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں؛ حالانکہ بھارت کے باشعور عوام اور دنیا کے دیگر ممالک اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیںکہ مقبوضہ کشمیر میں تحریک کا آغاز برہان وانی کی شہادت سے شروع ہوا۔ یہ خالصتاً مقامی تحریک ہے، اس میں پاکستان کا کوئی دخل نہیں۔ بعض امریکی بھی یہی تصور رکھتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی تحریک خالصتاً مقامی ہے، پاکستان اس میں ملوث نہیں اور نہ ہی اس نے اس تحریک کو فعال بنا رکھا ہے۔ دوسری طرف امریکی صدر بارک اوباما نے اس اہم مسئلے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی بلکہ صرف اتنا کہا کہ یہ دونوں ملک باہم مل کر اس تنازع کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ برطانوی وزیراعظم تھر یسا مے نے بھی اپنے حالیہ دورہ بھارت کے دوران بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں ظلم و زیادتیوں کی مذمت نہیں کی بلکہ صرف اتنا کہا کہ بھارت اور پاکستان کو چاہیے کہ بات چیت کے ذریعہ اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔ پاکستان بھی یہ چاہتا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے اس دیرینہ مسئلہ کا کوئی حل تلاش کرنا چاہیے تاکہ بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر ظلم وتشدد کو روکا جاسکے، لیکن بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار نہیں ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کی بیجا حمایت کی وجہ سے بھارت کے جارحانہ رویے میں اضافہ ہوا ہے، اس لئے وہ پاکستان سے بات چیت کرنے کے لئے تیار نہیں؛ حالانکہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو پھر بھی جنگ کے بعد مذاکرات کا ہونا لازمی ہوتا ہے۔ 
ادھر نئے امریکی منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے یہ امید رکھنا کہ وہ پاکستان کے لئے ساز گار حالات پیدا کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا، صحرا میں اذان دینے کے مترادف ہے۔ اس نے حلف اٹھانے سے پہلے ہی بھارت کے وزیراعظم کو ایک عظیم رہنما قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مودی پاکستان پرچیک رکھے گا۔ گویا ٹرمپ کی نگاہ میں پاکستان ایک آزاد وخودمختار ملک نہیں، بلکہ ایک صوبہ ہے جس کی بقا کا انحصار بھارت پر ہے۔ کیا مضحکہ خیز منطق ہے۔ ویسے بھی ٹرمپ امریکی عوام کی اکثریت کی نگاہ میں ایک غیر ذمہ دار شخص ہے، جو نہ صرف نسل پرست واقع ہوا ہے، بلکہ وہ دنیا کو اپنی پالیسوں سے مزید غیر محفوظ بنا رہا ہے۔ مشہور امریکی دانشور نوم چومسکی نے صحیح کہا ہے کہ وائٹ ہائوس میں ایک ایسا شخص براجمان ہوگیا ہے جو دنیا کی تباہی اور تیسری جنگ عظیم کا ذمہ دار ہو سکتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved