تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     20-11-2016

بچے اور بچے کُھچے

آج 20 نومبر ہے اور عالمی کیلنڈر کے مطابق آج دنیا کے کئی ملکوں میں بچوں کا دن منایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ دن بچوں کے نام کیا جاتا ہے۔ بچے جو ایک ہی ڈگر پر بھاگتی دوڑتی‘ مصروفیت کا بوجھ ڈھونڈتی زندگی میں تازگی‘ حُسن اور اطمینان کا ذریعہ ہیں۔ بچے مستقبل کی علامت ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ بچے ہمارے ہیں یا کسی اورکے‘ غریب ہیں یا امیر‘ کالے ہیں یا گورے! تعلیم‘ صحت‘ اچھی غذا ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ یہ باتیں بہت خوب صورت ہیں لیکن یہ کتابی ہیں‘ تصوّراتی ہیں‘ حقیقت کی دنیا ان دلکش باتوں سے بہت مختلف ہے۔
حقیقت کی دنیا میں تعلیم‘ صحت‘ بروقت دوا اور اچھی غذا ہر بچے کو بنیادی حق کے طور پر میسر نہیں ہے۔ زندگی کی خوشیوں اور آسودگیوں پر صرف اُن بچوں کا حق ہے جو امیر گھرانوں میں پیدا ہوتے۔ بھٹہ مزدوروں کے بچے‘ کوڑا اٹھانے والے ‘ جھگیوں میں رہنے والے خانہ بدوشوں کے بچے‘ مزدوروں کے بچے‘ ورکشاپوں پر کام کرنے والے بچے‘ پھول بیچنے والے‘ گھروں میں کام کرنے والے بچے‘ ٹریفک کی سرخ بتی پر رُکی بڑی بڑی گاڑیوں کے شیشے جلدی جلدی صاف کرنے والے بچے‘ قالین بافی کی صنعت پر اپنا بچپن وار دینے والے بچے‘ ہوٹلوں کے چھوٹے‘ ہر آواز پر بھاگ کر آپ کی خدمت میں 
حاضر ہونے والے بچے‘ بچوں کی مذکورہ تعریف پر پورے نہیں اترتے۔ ایسے بچے نہ تو بچوں میں شمار ہوتے ہیں اور نہ ہی بڑوں میں‘ ایسے بچے کوئی اور ہی مخلوق بن جاتے ہیں۔ اِن کے معصوم چہروں کو دیکھو‘ بچپن میں بڑھاپا اوڑھ کے کیسے بڑے بڑے لگتے ہیں۔ اِن کو فکریں لاحق ہوتی ہیں۔۔۔۔ کھانے پینے کی‘ روٹی کی‘ سردیوں میں سویٹر اور جرابوں کی‘ جوتی کپڑوں کی‘ ماں کی بیماری کی‘ باپ کی بے روزگاری کی‘ بہن کی شادی کی! یہ بچے اپنے ننھے سے وجود میں فکروں‘ پریشانیوں کا ایک جہان آباد کیے ہوتے ہیں۔ یہ بوجھ انہیں بچپن ہی میں بوڑھا کر دیتا ہے۔ اِن کو زندگی کی ہر تلخی وقت سے پہلے مل جاتی ہے‘ اسی لیے وقت سے پہلے طِفل سیانے ہو جاتے ہیں۔
ہم سب ایسے بچوں کے قرض دار ہیں۔ ہمارے آس پاس ‘ ہمارے گھروں میں ایسے بچے ضرور موجود ہوں گے جن کے حقوق سے ہم نے پہلو تہی کی ہے۔ حکومتوں اور حکمرانوں کا تو کیا ہی کہنا‘ بات کبھی وعدوں سے آگے جائے تو اِن بچوں کی قسمت کُھلے۔ کھربوں روپے کے فنڈز پرکشش دکھائی دینے والے میگا پراجیکٹس پر لگ رہے ہیں۔ ''تعلیم ہر بچے کا حق‘‘ صرف ایک نعرہ ہے۔ تعلیم‘ صحت اور دوا سے محروم بچوں کے اعداد و شمار مختلف این جی اوز اکٹھے کرتی رہتی ہیں‘ یقین کریں کہ یہ اعداد و شمار اس قدر خوفناک ہیں کہ ناقابلِ یقین لگتے ہیں۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کراچی کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی بچوں میں بڑھتے ہوئے کینسر کی وجہ اُن کی کم تر درجے کی خوراک اور نشو و نما کے لیے ضروری اجزاء سے بھر پور خوراک کی عدم دستیابی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق صوبہ بلوچستان میں 83 فیصد بچے کم خوراکی کا شکار ہیں۔ سندھ میں 70 فیصد پنجاب میں 65 فیصد اور خیبر پختونخوا میں 67 فیصد بچے ان بنیادوں سہولتوں سے محروم ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اِن بچوں کا مدافعتی نظام کمزور ہو جاتا ہے‘ بیماریاں اِن پر آسانی سے حملہ آور ہو سکتی ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کراچی نے یہ سروے پلاننگ کمیشن پاکستان اور ورلڈ فوڈ پروگرام کے ساتھ مل کے کیا۔
چند اور اعداد و شمار پر نظر ڈالیں۔ پاکستان میں ہر روز 10بچے جنسی درندگی کا شکار ہوتے ہیں۔ 14بچوں میں سے ایک بچہ اپنی پہلی سالگرہ دیکھنے سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ پاکستان کے 13فیصد بچے اپنی پانچویں سالگرہ نہیں منا پاتے۔ پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے۔ سندھ میں صورت حال یہ ہے کہ سکول اگر آباد بھی ہیں تو وہاں کے اساتذہ کو انگریزی کے عام لفظوں کے ہجے نہیں آتے۔ انہیں سندھی کے سوا کوئی زبان نہیں آتی۔ ایسے استاد بچوں کو کیا تعلیم دیتے ہوں گے۔ یہ صورتحال سندھ کے گوٹھوں کی ہے۔ سندھ میں ایک بدقسمتی بستی ایسی بھی ہے جہاں بچے ہر روز مرتے رہتے ہیں مگر اِن کی موت اب خبر بھی نہیں بنتی۔ 2013ء میں تھر میں 311 بچے چند مہینوں میں مر گئے تھے‘ اب بھی کم و بیش وہی صورتحال ہے۔ وہاں قحط ہے۔ کمزور و نحیف مائیں لاغر بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ اس صورت حال کے باوجود بلاول بھٹو زرداری فرماتے ہیں کہ ''میں سندھ میں تبدیلی لے آیا ہوں‘ اب پورے پاکستان میں لائوں گا‘‘۔
آج پاکستان میں بچوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے مگر دیکھ لیجئے گا کہ آج بھی حقوق سے محروم بچوں کے اہم ایشوز کو میڈیا کے پرائم ٹائم پروگراموں میں جگہ نہیں ملے گی کیونکہ پرائم ٹائم کے تمام تبصرے اور تجزیے پاناما لیکس کے لیے مختص ہیں۔ ویسے تو موضوعِ گفتگو ان پروگراموں میں بھی بچے ہی ہیں۔ بہت معصوم‘ سیدھے سادے شریف بچے! ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ اُن کا نام پاناما پیپرز میں آ گیا ہے۔ اِن بچوں کا ایک اور قصور بھی ہے کہ اِن کے والد ملک کے وزیر اعظم ہیں اور شاید انہی کی وجہ سے یہ بچے آج اربوں کھربوں کے مالک ہیں۔ کتنے خوش نصیب ہیں یہ بچے کہ والد تیسری بار ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ یہ بچے معجزاتی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ جلا وطن ہو کر دوسرے ملکوں میں اربوں کا کاروبار کرتے ہیں۔
بچوں کے عالمی دِن پر اِن عظیم بچوں کو ہمارا سلام کیونکہ یہی اصل بچے ہے۔ میں نے کالم کے آغاز میں حقوق سے محروم جن کم نصیبوں کا ذکر کیا وہ بھی کوئی بچے ہیں! وہ تو بس بچے کھچے ہیں!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved