تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     21-11-2016

آخری سوال

سچ کیا ہے اور جھوٹ کون سا۔ سچ کی پانچ نشانیاں کہاں سے ڈھونڈ یں؟ کیا ہم سچ تلاش کر رہے ہیں یا سب جھوٹ کے بیوپاری ہیں۔۔۔ کوئی بڑا، کوئی چھوٹا۔ حقیقت اور افسانہ آپس میں یوں گھُل مل گئے ہیں جیسے پارلیمنٹ کے اندرکی اپوزیشن اور پاناما والے حکمران۔ 
آئیے آج کا وکالت نامہ ''اکڑبکڑ‘‘ سے شروع کرتے ہیں ۔کچھ اِدھر اُدھر سے۔ کچھ کہانی سچ جیسی اورکئی سچ کہانیوںکی طرح کے۔کہانیاں تلاش کرنا پڑتی ہیں اور تلاش کے بغیر داستان گوئی ممکن نہیں ہوتی۔ ایک تازہ افسانچہ یا افسانے کا پٹھہ ملاحظہ ہو۔ مقدر کا سکندر ہر جگہ مقدر کا سکندر ہی رہتا ہے، سکندر مقدونیہ کا ہو یا گوالمنڈی کا، لندن کا یا پھر جدہ کا۔ اس سکندرکی کہانی کہاں سے شروع ہوئی، کوئی نہیں جانتا۔ شاید سکندر بیچارا خود بھی کہانی کے آغازسے لاعلم ہے۔ سکندر، جدہ سٹیل مل بیچ کر چیک بک احتیاط سے جیب میں رکھنے کے بعد لندن جا پہنچا۔ سکندرنے ادھر ادھر ڈھونڈا کہ شاید اسے کوئی اعظم خان مل جائے۔ اس کی قسمت نے فوراً یاوری کردی۔ چنانچہ سکندر اور اعظم ایک ہی صف میںکھڑے ہوکر سکندر اعظم بن گئے۔ بالکل ویسے ہی جیسے افغانستان سے آنے والے محمود و ایاز۔ سکندر نے فلیٹ کے مالک کا پتا کیا تو وہ یہ جان کر حیران رہ گیا وہ فلیٹ 1980ء سے خود سکندرکے نام ہے۔ جب فلیٹ تک پہنچ کرسکندر نے گھنٹی بجائی تو اندر سے اس کا اپنا چھوٹا بھائی برآمد ہوا۔ سکندر کا تو جیسے سر چکرا گیا۔ سکندر نے پلٹ کر گھر فون کیا اور ساری بات بتائی۔ سکندر کوگھر سے جواب ملابیٹا یہ فلیٹ تو میں نے 1994ء میں تمھارے چھوٹے بہن بھائیوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے خریدے تھے۔ یہ سن کر سکندر کے اوسان خطا ہوگئے۔ ویسے گھر والے اسے پیار سے ''ببلو‘‘کہتے تھے۔ آپ ببلو کہہ لیں یا سکندر، آپ کی مرضی۔ بہرحال سکندر اس بات پر پریشان ہوگیا کہ جب فلیٹ میرے ہی تھے تو پھر 
جدہ مِل بیچنے کی کیا ضرورت تھی؟ خیر ببلو نے اب سوچا کہ ان فلیٹس کو گروی رکھ کر بھاری قرضہ لے لیاجائے۔ بیچارا سکندر رجسڑی کے کاغذات لینے پاناما پہنچا تواس پر ایک اور قیامت ٹوٹ پڑی۔ اسے پتا چلا جو فلیٹ ایک عرب شیخ کی مہربانی سے سال 1980ء میں سکندر کے نام ہوگئے تھے، اس کی مالک تو کوئی اور ہستی ہے۔ اس پر ببلو کو بہت غصہ آیا۔ وہ واپس اپنے بھائی کے پاس پہنچا اور چیخ کربولا ''اوئے خوش بخت‘‘ توکس کو اتنا عرصہ کرایہ ادا کرتا رہا ہے؟ سکندر کا چھوٹا بھائی پیدائشی معصوم تھا، بڑی معصومیت سے کہنے لگا، کرایہ تو ہر تین ماہ بعد پاکستان سے آتا تھا۔
خواتین و حضرات! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مقدرکے سکندر کی کہانی ختم ہو گئی۔ معاف کیجیے گا، مقدر کے سکندر کے بارے میں ہماری قوم کی سوچ ہمیشہ غلط ثابت ہوتی آئی ہے۔ ویسے بھی آپ جانتے ہی ہیں کہ ہرکہانی میں ایک شہزادہ بھی ہوتا ہے،رحمدل شہزادہ ! جوکسی کو بھوکا دیکھ لے تو برسوں ''تلور‘‘ کا شکارکھانا چھوڑ دیتا ہے۔ سکندر کی کہانی میں بھی شہزادہ آیا۔ اس شہزادے کی اپنی کہانیاں بھی دنیا بھر میںمشہور ہیں ۔کچھ ضرورت مند اسے شہزادہ کہتے ہیں، لیکن کچھ دوسرے جو ہیر رانجھا کی عشقیہ داستان میںکیدوکا کردار اداکرنے کے عادی مجرم ہیں، وہ شہزادے کو ایل این جی شہزادہ کہہ کر پکارتے ہیں۔
یہ توآپ کو پتا ہی ہے کہ ایل این جی میں لاہوری شہزادہ بھی شامل ہے، جس کا اپنا ایک دیرینہ کوہ مری والا پیادہ بھی ساتھ ہے۔ ایل این جی کی کہانی پھرکبھی سہی، واپس آتے ہیں شہزادے کی طرف۔ شہزادے کی آمدکے ساتھ ہی سکندرکا موڈ بدل چکا ہے۔ پہلے سکندر، اس کے ہمنوا اور ساتھ ساتھ لانگری بھی قسمیں کھا کھا کرکہتے تھے کہ ہم نے ایک ایک قطرہ جمع کیا ہے۔ وہ بھی اتفاقیہ طور پر سٹیل بزنس سے۔ اب سارے کہہ رہے ہیں قطرہ قطرہ جمع نہیں کیا، سارا قطر نے دیا ہے۔ دیسی شہزادہ معظم کا چاہنے والا ایک دیسی شاعر بھی ہے۔ یہ بھی شہزادے کی طرح خورد بردکا عادی ہے۔ اس نے شعری واردات ڈال کر مقدرکے سکندر کی شان میں اصلی قصیدہ لکھ ڈالا۔ اس قصیدے کی خوبی یہ ہے کہ اس کے مصرعے صرف دوہیں، لیکن مضمون مکمل۔ با ملاحظہ، با ادب ہوشیار، نگاہ رُوبرُو، قصیدہ پیش خدِمت ہے:
اٹھ باندھ ''کمر‘‘ کیا ڈرتا ہے 
پھر دیکھ ''قطر‘‘ کیا کرتا ہے 
شہزادہ، شہزادہ ہی ہوتا ہے چاہے دیسی ہو یا ولایتی، سعودی ہو یا قطری، انگلستانی ہو یا لاہوری۔ ایساہی ایک شہزادہ تھا جس کے پاس بلکہ آس پاس صرف ایک دانش مند وزیر بھی موجودتھا۔ اس دانش مند وزیر کوشہزادے نے ہر فن مولاکا خطاب دیا۔ عربوں کی تجارت، ترکوں کی سرمایہ کاری، چینیوںکی بالکل ''مفت‘‘ میں ملنے والی اشرفیاں سب شہزادے کے دانش مند وزیر کے کمالات تھے۔ اس دانش مند وزیر کی آخری دانش مندی کی پہلی کہانی ''سپر مون‘‘ والی ہے۔ یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ مُون کسی کرکٹ کے کھلاڑی کا نام نہیں نہ ہی ہم کسی ''سپر لیگ‘‘ کی بات کر رہے ہیں جس میں ہر دفعہ ہر نئے کرکٹ میچ سے پہلے نیا چاند چڑھایا جاتا ہے۔ یہ سارے چاند ملا کر تین سالوں میںکل 35 نئے چاند بنتے ہیں۔ ان کا نئی جمہوریت اور نئے کرکٹ کے لیے لگائے جانے والے35 ''پینچروں‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بہرحال اس دانش مند وزیر کی کامیاب اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے قوم کی قسمت 70 سال بعد جاگ اٹھی۔ چنانچہ ترکی، قطری، چینی انویسٹروں کی طرح دانش مند وزیر کی اقتصادی پالیسیوں سے متاثر ہوکر سپر مون بھی پاکستان پہنچ گیا۔ اس دانش مند وزیر کی سفارش پر ہندوستان کے مودی اور 'را‘ کے چیف کی طرح سپر مون کو بھی پاکستان آنے کے لیے کوئی ویزہ وغیرہ نہیں لینا پڑا۔ پاک چاند دوستی زندہ باد۔
ایک اور دفعہ کا ذکر ہے کہ شہزادے نے گدھوں کوقطار میں چلتے دیکھا تو حیران ہو کر کمہار سے پوچھا، تم انہیں کس طرح سیدھا رکھتے ہو؟ کمہار نے جواب دیا جو گدھا بھی لائن توڑتا ہے اسے سزا دیتا ہوں۔ اسی خوف سے سب گدھے سیدھا چلتے ہیں۔ شہزادے نے کہا، کیا تم میرے ملک میں امن قائم کرسکتے ہو؟ کمہار بولا جی ہاں۔ شہر آئے تو بادشاہ نے اسے منصف بنا دیا۔کمہارکے سامنے ایک چورکا مقدمہ لایا گیا۔ کمہار نے فیصلہ سنایا کہ چورکے ہاتھ کاٹ دو۔ جلاد نے دانش مند وزیر کی طرف دیکھا، پھر کمہار کے کان میں کہا، جناب یہ وزیر صاحب کا خاص آدمی ہے۔کمہار دوسری دفعہ اونچی آواز میں بولا، چور کا ہاتھ کاٹ دو۔ یہ سننے کے بعد خود وزیر نے کمہارکے کان میں سرگوشی کی، تھوڑاخیال رکھیں، چور اپنا خاص آدمی ہے۔کمہار نے نیا فیصلہ سُنادیا، چورکے ہاتھ اور وزیر کی زبان دونوں کاٹ دو۔کمہارکے اس فیصلے کے بعد پورے ملک میں امن کی بانسری بجنے لگی۔ ہمارے ایک سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب نے مراثی کی کہانی سنائی جس کا باپ مر گیا۔ نماز جنازہ سے پہلے مراثی نے اعلان کیا کہ اگر میرے باپ پر کسی کا کوئی قرضہ باقی ہو تو وہ ہاتھ کھڑاکردے، میں نماز جنازہ سے پہلے اسے اداکردوںگا۔ مراثی کی توقع کے برخلاف لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے ہاتھ کھڑے کر لیے۔ مراثی گھبرا گیا، پھر بہت اطمینان سے بولا: ''ٹھیک ہے، اگر میرا باپ اٹھ کرصرف یہ کہہ دے کہ آپ سب لوگ ٹھیک کہہ رہے ہیں تو میں ابھی آپ سب کا قرضہ واپس کردوںگا‘‘۔
آج کل سوالات کا موسم ہے۔ سمجھ نہیں آئی پوری قوم کیوں سوال پر سوال پوچھ رہی ہے۔ لیکن کسی کو یہ بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ قوم کے سوالوںکا جواب کون دے گا یا جواب دینے کا ذمہ دارکون ہے؟ آخر میں سُنیے ایک عددشارٹ سٹوری۔ ''بادشاہ رتھ پر سوار ہو کر عوام کے سامنے ننگا کھڑا تھا۔ خوشامدی ضمیر فروشوں کے ہجوم میں کسی نے بھی ننگے بادشاہ پر سوال اٹھانے کی جرأت نہ کی۔ ننگے بادشاہ کا تماشا دیکھنے والے باپ کے کندھے پر سوار ننھے بچے نے آخری سوال کردیا۔ زورسے بولا: ابا جی! یہ بادشاہ تو ننگا ہے‘‘۔
پسِ نوشت: قارئینِ وکالت نامہ سے معذرت خواہ ہوں، جمعۃ المبارک کے روز میرا کالم 'کامران شاہد اور جمہوریت کا حسن‘ فنی خرابی کی وجہ سے آپ تک نہ پہنچ سکا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved