حالیہ دنوں ترکی سے کئی ایک پریشان کن کہانیوں سننے کو ملیں۔ کبھی ترکی دنیائے اسلام کے لیے سکیولر جمہوریت کی ایک نادر مثال تھا کہ کس طرح ایک ریاست اپنے اسلامی تشخص کا تحفظ کرتے ہوئے ان اقدار کی پاسداری یقینی بناسکتی ہے ۔ لیکن اب ہمارے سامنے ایک ایسی ریاست ہے جہاں پریس اور عدلیہ کی آزادی عملی طور پر ختم ہوچکی ہے ۔ ان حالات میں جمہوریت کے پروان چڑھنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
ترک صدر ،طیب اردوان نے شب خون کی حالیہ ناکام کوشش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک آزاد معاشرے کے تمام خدوخال پر بلڈوزر چلا دیا ہے ۔ نیویارک ٹائمز میں ترک میڈیا کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ میں اپوزیشن کی ترجمانی کرنے والے ترکی کے سب سے بڑے اخبار، ''جمہوریت‘‘کے مقبول کالم نگار قادری جورسل کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ اس وقت مسٹر جورسل جیل میں ہیں۔ ان کا ''جرم‘‘ یہ تھا کہ اُنھوںنے اپنے قارئین سے کہا تھا کہ صدر اردوان کی اپنے قریب سموکنگ کرنے والوں کو لیکچر دینے کی عادت کے خلاف احتجاج کے طور پر سگریٹ سلگائیں۔ اگرچہ یہ بات کالم نگار نے محض مذاق میں کہی تھی لیکن اُنہیں دہشت گردی کے الزام میں جیل میں ڈال دیا گیا ۔
اس وقت ایک سو بیس صحافیوں کے جیل میں ہونے کی وجہ سے ترکی دنیا میں سب سے زیادہ صحافیوں کو قید کرنے والا ملک بن چکا ہے ۔ کچھ صحافیوں پر الزام ہے کہ جولائی میں شب خون سے پہلے اُنھوں نے ایسے مضامین لکھے جن کے ذریعے اُنھوں نے مبہم الفاظ میں فوجی بغاوت کی راہ ہموار کی ۔ کچھ کا جرم یہ تھا کہ اُنھوںنے حکومت کو کالعدم کرد تنظیم، 'پی کے کے ‘ کے ساتھ بات چیت کرنے کا مشور ہ دیا تھا۔ سینکڑوں دیگر صحافیوں پر صدر کی توہین کا الزام ہے ۔ شاید سب سے تباہ کن اقدام ایک سوپچاس نیوز آئوٹ لٹس، جن میں ٹی وی، اخبارات اور آن لائن ویب سائٹس شامل ہیں، کی بندش ہے ۔اب ان آئوٹ لٹس کو اردوان کے بزنس مین حامیوں کے ہاتھ فروخت کرنے کی پیش کش کی جارہی ہے ۔ 'رپورٹرز ودآئوٹ بارڈز‘ نامی تنظیم ترک میڈیا کے مستقبل سے مایوس ہے ۔ اس سے تعلق رکھنے والے صحافی ، Erol Onderoglu کا کہنا ہے ۔۔۔''یہاں تنقیدی صحافت کا گلا گھونٹ دیا ہے ، 90 فیصد پریس کو تباہ کیا جارہا ہے ۔ تحقیقاتی صحافت کو غداری کے مترادف قرار دیا جاتا ہے۔ حکومت نے صحافت پر ڈاکا ڈالا ہے۔‘‘
اردوان حکومت کے ہاتھوں تباہی سے دوچار ہونے والا صرف میڈیاہی نہیں ہے ، بی بی سی کے مطابق ایسی قانون سازی کی جارہی ہے جس سے خواتین کے حقوق کو عشروں تک سلب کرلیے گئے ہیں۔ ایک قانون کا مسودہ تیا رکیا جارہاہے جس کے مطابق کمسن لڑکیوںکی آبروریزی کرنے والے آدمیوں کو معاف کیا جاسکے گا بشرطیکہ وہ اس لڑکی سے شادی کرنے کے لیے تیارہوجائیں۔ اس انتہائی شرمناک قانون کا جواز یہ دیا جارہا ہے کہ چونکہ بہت سے آدمی اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں، چنانچہ اسے ''باقاعدہ قانونی شکل ‘‘ دیے جانے کی ضرورت ہے ۔
جولائی میں شب خون کی ناکام کوشش نے طیب اردوان کو ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے بے پناہ اختیارات حاصل کرنے اور اپنے مخالفین کو کچلنے کا موقع فراہم کردیا ہے ۔ تمام اپوزیشن اور میڈیا کو کچلتے ہوئے اب وہ ایک ریفرنڈم کے ذریعے امریکی ایگزیکٹو صدارت کے عہدے کی طرح انتہائی اختیار رکھنے والا صدارتی عہدہ تخلیق کرنے کے اپنے دیرینہ خواب کو عملی جامہ پہنانے جارہے ہیں۔ ایک ہزار کمروں کے محل میں رہنے والے اردوان خود کو عثمانی دور کا سلطان سمجھ رہے ہیں۔حالیہ دنوں پاکستان کے دورے کے دوران اُنھو ںنے ''Feto terrorists‘‘ کے نیٹ ورک کا ذکر کیا تھا۔ اُنھوںنے یہ نام فتح اﷲ گولن کی فلاحی کام کرنے والی تنظیم ''خدمت‘‘ کے لیے استعمال کیا تھا۔ اردوان کو یقین ہے کہ شب خون کے پیچھے اُن کے حریف، جلاوطن عالم ِ دین فتح اﷲ گولن کا ہاتھ تھا۔ اردوان''خدمت ‘‘ تنظیم کو داعش اور القاعدہ کے ساتھ جوڑتے ہیں، تاہم یہ الزام درست نہیں۔ ''خدمت ‘‘روشن خیال اور لبرل تعلیم دینے والی ایک تنظیم ہے جو دنیا بھر میں فلاحی کام کرنے کی شہرت رکھتی ہے ۔ اگر اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد شب خون کی حمایت کرنے والوں میں شامل تھے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ پاکستان میں پاک ترک کے زیر ِ اہتمام چلنے والے تعلیمی اداروں کے ترک اساتذہ پر ترکی میں شب خون مارنے کا الزام لگادیں۔ ان محنتی اور قابل اساتذہ کو توہین آمیز طریقے سے پاکستان سے مختصر نوٹس پر بے دخل کیا جارہا ہے ۔
ترک حکومت کے آمرانہ رویے کا ایک اور اظہار 'پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی‘ سے تعلق رکھنے والے دس ارکان ِ پارلیمنٹ کی گرفتاری ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں پارٹی کے لیڈرصلاح الدین دیمتراز(Selahattin Demitras) بھی شامل ہیں، جنہیں اکثر ''ترکی کا اوباما‘‘ قرار دیا جاتا ہے ۔ ان ارکان ِ پارلیمنٹ پر کرد علیحدگی پسند تنظیم 'پی کے کے ‘ کی حمایت کرنے کا الزام ہے ۔یہ بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ اردوان بڑے منظم طریقے سے ہر ممکنہ اپوزیشن کو کچل رہے ہیںتاکہ تاحیات صدارت کا منصب اپنے پاس رکھ سکیں۔ یہ رجحان اُن ترکوں کو پریشان اور خوفزدہ کررہا ہے جو آزادی اور سیکولرازم ماحول میں پروان چڑھے ہیں۔ اب اُنہیں احساس ہورہا ہے کہ اُن کا ملک یکایک ان اقدار کی مخالف سمت لے جایا جارہا ہے ۔دوسری طرف مذہبی اور قدامت پسند ترک اردوان کو پسند کرتے ہیں، چنانچہ اردوان کو مقبولیت میں کمی کا کوئی مسئلہ نہیں ۔
ترک معاشرے میں لبرل اور قدامت پسندوں کے درمیان موجود تقسیم کی لکیر اگرچہ نئی نہیں ، لیکن اردوان نے اپنی اسلام پسندی سے اسے بہت نمایاں کردیا ہے ۔ اب وہ مذہبی عقائد کو پبلک زندگی پر لاگو کرنے جارہے ہیں۔ اس طرح اُن کے اقتدار کے دوران ترکی کے ایک جمہوری ملک سے ایک مذہبی ریاست میں تبدیل ہونے کا خطرہ لاحق ہوچلا ہے ۔ بیرونی دنیا میں اردوان کی موجودہ پالیسی پریشانی کا سامان کررہی ہے ۔ اب ترکی کی یورپی یونین میں شامل ہونے کی درخواست کے منظور ہونے کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ معدوم ہوچکے ہیں۔ نیٹو نے شام کے حوالے سے ترکی کامبہم رویہ بہت تشویش ناک نظروں سے دیکھاکہ اس نے ایک اہم عرب ملک اور کچھ دیگر خلیجی ریاستوں کے ساتھ مل کر داعش اور النصرہ کو فروغ دیا۔ اس کے علاوہ اردوان کی کرد آبادی کو کچلنے کی کوشش کو بھی ناپسندیدہ نظروںسے دیکھا جاتا ہے ۔اس وقت ترکی کے دوست اور دشمن سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اردوان ترکی کو کس سمت لے کر جارہے ہیں۔ اُنھوں نے روس، مصر اور اسرائیل کے ساتھ اپنے اختلافات دور کرلیے ہیں ، جبکہ امریکہ اور یورپی یونین سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ اگرچہ ترکی ایک اہم علاقائی طاقت ہے ، لیکن کیا اردوان اسے عثمانی خلافت میں تبدیل کرپائیں گے ؟