زہے نصیب، اِس وقت جو لوگ بولنے کے میدان میں شہسواری فرما رہے ہیں اُن میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف بھی نمایاں ہیں۔ اُن کے انٹرویوز نے دھوم مچا رکھی ہے۔ بہت سے معاملات میں یہ قوم چونکہ خاصی بُودی واقع ہوئی ہے اِس لیے قدرت نے چند ''اہلِ دانش‘‘ کا اہتمام کر رکھا ہے جو وقفے وقفے سے نمودار ہوکر ہر حقیقت کو یُوں بیان کرتے ہیں کہ وہ روزِ روشن کی طرح سامنے آ جاتی ہے۔ جب وہ لب کُشائی فرماتے ہیں تو لب بستہ ہو رہنے کے سوا چارہ نہیں رہتا۔ بقول غالبؔ ع
وہ کہیں اور سُنا کرے کوئی
نصیب کی بات ہم نے اِس لیے کی کہ پرویز مشرف بھی ہمارے مربّیوں میں سے ہیں کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں اُس کی کوکھ سے ہمیں کالم ملتے رہے ہیں۔ پاک چین راہداری منصوبے کے حوالے سے بڑی طاقتوں کی ناراضی اور ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب دو ایسے معاملات ہیں جن پر ہم سوچنے کا حق ادا نہیں کر پارہے تھے۔ ایسے میں سابق صدر نے ایک بار پھر لب کُشا ہوکر ہمارے ذہن کی بہت سی گرہیں کھول دیں۔
دنیا نیوز سے دو حالیہ انٹرویوز میں سابق آرمی چیف نے جو کچھ کہا ہے وہ واقعی قابلِ غور ہے۔ اور قابل غور بھی اس قدر کہ ہم نے غور کیا اور اِس کا نتیجہ اِس کالم کی شکل میں آپ کے سامنے ہے۔
دنیا نیوز کے پروگرام ''ٹونائٹ ود معید پیرزادہ‘‘ میں پرویز مشرف نے کہا ''چین سے دشمنی کے معاملے میں امریکا اور بھارت ایک ہوچکے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو اپنی ترجیحات واضح کرنا ہوں گی، خارجہ پالیسی بدلنا ہوگی۔‘‘ سابق صدر نے یہ بات اگرچہ اُردو میں کہی مگر ہم بھی ایسے نا اہل واقع ہوئے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں پائے۔ امریکا عالمگیر سطح پر اپنی بھرپور اجارہ داری کی چادر میں بڑھتے ہوئے چھید دیکھ کر پریشان ہے۔ اُس کا پریشان ہونا ہماری بھی سمجھ میں آتا ہے۔ ظاہر ہے، چین اُسے ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ دوسری طرف بھارت بھی پریشان ہے کہ چین نے کبھی اُس کی مانی ہے نہ کسی معاملے میں کوئی رعایت دی ہے۔ 1962 میں چین اور بھارت کے درمیان جنگ بھی ہوچکی ہے۔ اس جنگ میں چین نے جو سبق سکھایا تھا وہ امریکا اور یورپ کا ''انوکھا لاڈلا‘‘ اب تک بھول نہیں پایا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ امریکا اور بھارت کو چین سے کوئی شِکوہ ہے یا دشمنی پالنے کا شوق ہے تو پاکستان کیا کرے؟ چین سے دشمنی کے معاملے میں امریکا اور بھارت اگر ایک ہیں، بلکہ ایک جان دو قالب ہیں تو پاکستان اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کیوں کرے؟ کیا پرویز مشرف صاحب یہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی مشکل میں ساتھ نہ دینے والے امریکا اور ہمیں تکلیف دینے کا کوئی بھی موقع ضائع نہ کرنے والے بھارت کو خوش کرنے کے لیے ہم چین کو ناراض کرلیں؟ پالیسیوں پر نظر ثانی کے مشورے کا مطلب تو یہی لیا جائے گا کہ ہم چین کو ایسی کوئی بھی رعایت نہ دیں جس سے امریکا ناراض ہو اور بھارت کو تکلیف پہنچے۔ ایسے میں ذہن میں ایک انتہائی بنیادی سوال یہ بھی ابھرتا ہے کہ چین کی طرف سے بڑھایا جانے والا دوستی اور پارٹنرشپ کا ہاتھ جھٹک کر ہم امریکا اور بھارت سے کیا حاصل کرسکیں گے؟ کیا ہمارے معاملے میں اِن کی نیت کا فتور ختم ہوچکا ہے؟ ؎
جو اب تک ہوچکا، کافی نہیں کیا!
تمہی پر پھر بھروسہ کیوں کریں ہم؟
سابق صدر نے دنیا نیوز سے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ ''بھارت اس وقت بڑی طاقت بننے کی تیاری کر رہا ہے۔ دنیا اُس کی طرف دیکھ رہی ہے۔ امریکا بھی بھارت میں غیر معمولی دلچسپی لے رہا ہے۔‘‘ اور یہ کہ ''پاکستان کا وجود بھارت کی آنکھ میں کھٹکتا ہے۔‘‘ ہم کیا اور ہماری سوچ کیا؟ سابق صدر خود ہی بتائیں کہ کہ جب پاکستان کا وجود بھارت کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے تو پھر ہم بھارت کی طرف جُھکنے کے بے تاب کیوں ہوں یا چین کی طرف جُھکنے سے گریز کی پالیسی کیوں اپنائی جائے؟ پرویز مشرف خیر سے آرمی چیف بھی رہے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے بھارت کے ہر طرح کے اور بالخصوص عسکری عزائم اُن سے بڑھ کر کون جانتا ہوگا؟ ایسے میں ہم بھارت کی ناراضی کو خاطر میں لاتے ہوئے چین کی جانے سے گریز کی راہ پر کیوں گامزن ہوں؟
رہی یہ بات کہ امریکا اس وقت بھارت میں غیر معمولی دلچسپی لے رہا ہے تو عرض ہے کہ امریکا نے اب تک ہم سے دوستی کا صرف ناٹک کیا ہے اور ہر معاملے میں ہمیں ٹرخاتے رہنے ہی پر اکتفا کیا ہے۔ کسی زمانے میں امریکا ہم میں بہت دلچسپی لیتا تھا۔ پھر اس کا نتیجہ بھی ہم نے بھگت لیا۔ اب شاید نتیجہ بھگتنے کی باری بھارت کی ہے۔
رہا بڑی طاقت بننے کے خبط کا معاملہ تو ہم کیا کہیں، پرویز مشرف خود ہی بتائیں کہ بھارت نے بڑی طاقت بننے کی کوشش کب نہیں کی؟ خطے کے تمام ممالک کو دبوچ کر رکھنے کی راہ پر تو وہ ہمیشہ گامزن رہا ہے۔ ایک بس پاکستان ہے جو اُسے، کسی حد تک، منہ دینے کی سکت رکھتا ہے اور منہ دیتا بھی رہا ہے۔ ہم سے زیادہ یہ بات کون سمجھ سکتا ہے کہ کسی ابھرتی ہوئی طاقت کی راہ میں مزاحم ہونا کیا ہوتا ہے؟ ہم نے اِس معاملے میں صرف بولی نہیں لگائی، قیمت بھی چُکائی ہے!
سابق صدر نے اپنے انٹرویو میں وزیر اعظم کو بھی (مزید) مشکل میں ڈالنے سے گریز نہیں کیا۔ کہتے ہیں ''پاکستان کو امریکا سے تعلقات بہتر بنانا ہوں گے۔ وزیر اعظم ڈونلڈ ٹرمپ کو متاثر کریں۔‘‘
سابق صدر کی اِس نکتہ سنجی نے ہمیں پل بھر کے لیے فرحاں و شاداں کردیا۔ یہ بھی خوب رہی۔ امریکا سے تعلقات بہتر بنانا کیا صرف ہمارا کام ہے؟ اس حوالے سے امریکا پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟ ایک کال پر ڈھیر ہوکر تعلقات کو ''راہِ راست‘‘ پر لانے کا فارمولا تو ہمیں معلوم ہے۔ ہم بہت شکر گزار ہوں گے اگر پرویز مشرف امریکا سے تعلقات بہتر بنانے کا کوئی اور کارگر فارمولا بھی مرحمت فرمائیں۔
نواز شریف کو آج کل چومُکھی جنگ لڑنی پڑ رہی ہے۔ اُن کے لیے ملک کی حدود ہی میں کسی کو زیادہ متاثر کرنا آسان نہیں رہا۔ ایسے میں امریکا کے نومنتخب صدر کو متاثر کرنا! چاہنے کو تو ہم بھی یہی چاہیں گے کہ نومنتخب امریکی صدر بھی میاں صاحب کے ''متاثرین‘‘ میں شامل ہوں مگر ایک ہمارے چاہنے سے ہوتا کیا ہے۔ اس وقت ملک میں کئی دیدہ و نادیدہ قوتیں خراج تحسین کی منزل سے آگے بڑھ کر میاں صاحب کی حکومت کو خراج عقیدت پیش کرنے کی منزل تک پہنچنا چاہتی ہیں! ایسے میں میاں صاحب کے پاس اتنی فراغت کہاں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو سمجھانے جائیں؟
بدلتے ہوئے علاقائی منظرنامے اور راہداری منصوبے کے حوالے سے امریکا و بھارت کے عزائم سے ڈرانے کے بعد پرویز مشرف قومی معاملات کی طرف آئے۔ ایک طرف تو ان کی باتوں سے یہ تاثر ملا کہ امریکا و بھارت تاک میں ہیں کہ کہ کوئی ڈھنگ کا موقع ملے تو وہ ہماری کھال میں بُھوسا بھریں۔ اور ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی قوم اس وقت تبدیلی کے حق میں ہے اور کسی تیسری قوت کو گلے لگانا چاہتی ہے۔ اور یہ بھی کہ حکومت نے تو کئی مواقع دیئے مگر فوج نے ٹیک اوور کرنا مناسب نہ سمجھا۔
جب دشمن تاک میں ہو تو ملک میں کسی بڑی تبدیلی کی گنجائش ہی کہاں رہتی ہے؟ ایسے میں تو مکمل سیاسی ہم آہنگی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ موقع ملنے پر بھی ٹیک اوور نہ کرنے والی بات پر صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ فوج اب غیر ضروری بدنامی مول لینے کے موڈ میں نہیں۔ اور یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جب دُودھ کم نرخ پر اور آسانی سے میسّر ہو تو کوئی بے وقوف ہی ہوگا جو بھینس پالنے کی زحمت گوارا کرے گا!
معید پیرزادہ سے گفتگو میں پرویز مشرف نے یہ بھی بتایا کہ ''امریکا کے سابق صدر جارج واکر بش سے ملاقات کرتا رہتا ہوں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ میرے خلاف سازش کریں۔‘‘ اِس بیان یا دعوے پر ہم کوئی تبصرہ نہیں کریں گے کہ ایسا کرنے سے عبارت کا ''حُسن‘‘ جاتا رہے گا!