اِس مرتبہ یلجیم سے علامہ مفتی عبداللطیف چشتی نے جو اہلسنت کے ایک ثقہ عالم ہیں ،ناروے آمد کے موقع پر یورپ کے بعض دیگرممالک کے دورے کی دعوت دی اور پروگرام مرتّب کیا ۔واضح رہے کہ شینگن ایریااُن 26یورپین ممالک پر مشتمل ہے ،جن کا ویزا مشترک ہوتا ہے اور اس ویزے کا حامل ان ممالک میں آزادانہ سفر کرسکتا ہے،یعنی ہر ملک کے لیے الگ ویزا لینے کی ضرورت نہیں ہوتی اور جس ملک سے بھی ویزے کے لیے کسی کی درخواست جائے ،وہ ملک سب رکن ممالک سے ایک نظام کے تحت اُس کی تصریح (Clearance)لیتا ہے ۔چنانچہ ہم نے مفتی صاحب کے طے شدہ پروگرام کے تحت ڈنمارک، سپین ،فرانس ، بیلجیم ، ہالینڈ اور جرمنی کا بھی دورہ کیا ۔سپین اور جرمنی کے علاوہ دیگر ممالک میں علامہ مفتی عبداللطیف چشتی ہمارے شریکِ سفر رہے ،اِسی طرح برطانیہ سے علامہ حافظ جمشید سعیدی اور سید فرید شاہ کاظمی بھی فرانس سے ہمارے ساتھ شامل ہوئے،لندن سے جماعتِ اہلسنت کے رہنما علامہ غلام ربانی افغانی بھی پیرس ملاقات کے لیے آئے ۔
اوسلو سے ہم31اکتوبر کو بذریعہ ہوائی جہازڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن گئے ،وہاں اُسی شب ''جامعہ محمدیہ سیفیہ ‘‘کی جامع مسجد میں خطاب کیا ۔یہ مرکزجدید تعلیم یافتہ نوجوان علماء مفتی طارق امین سیفی، مفتی عمران منیر سیفی اور اُن کے رُفقاء نے قائم کیا ہے، جو آئی ٹی کے شعبے میں اعلیٰ مناصب پر فائز ہیں ۔یہ حضرات محمدی سیفی سلسلے کے مرشد ڈاکٹر کرنل سرفراز صاحب کے مریدہیں، جن کا مرکز ترنول اسلام آباد میں ہے ۔اِن حضرات نے اپنے شوق کے تحت دینی علوم کے نصاب کی تکمیل کی،جسے ہمارے عُرف میں ''درسِ نظامی‘‘کہاجاتا ہے۔ اب وہ ڈنمارک کے اِس مرکز میں مسلم نوجوانوں کو پڑھا رہے ہیں ،ان میں پرعزم نوجوان ثاقب حسین سیفی بھی شامل ہیں، جنہیں ڈنمارک کی حکومت نے مسلسل دو مرتبہ ''بیسٹ ٹیچر آف دی ائیر ‘‘کا ایوارڈ دیا ہے ۔ ان کا شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن ہے۔جامع مسجد میں اکثریت باریش دستار پوش نوجوانوں کی تھی ۔یہ ڈینش زبان میں ہماری درسیات کی دینی کتب کے تراجم اور شرحیں بھی شائع کر رہے ہیں اورانہوں نے عام مسلمان بچوں کے لیے ڈینش زبان میںآسان دینی نصاب بھی مرتب کیا ہے۔کوپن ہیگن کی مدنی مسجد ویسٹابرو میں ہمارے ایک سینیر عالم علامہ محمد ظہیر بٹ خدمات انجام دے رہے ہیں اور چوہدری محمد ریاض اس مرکز کے صدر ہیں ۔اسلامک سینٹر ویسٹ البرٹ لون میں ہمارے ایک متحرک اورباصلاحیت عالم علامہ محمد سہیل احمد سیالوی حال ہی میں گئے ہیں اور جنابِ اسد خلجی اس کے انتظامی سربراہ ہیں ۔
اوسلو سے ہم 2نومبر کو سپین کے شہر ''علی سانتے‘‘گئے ،کہاجاتا ہے کہ اندلس پر مسلمانوں کی حکمرانی کے دور میں علی نامی شخص انتہائی دلنشیں آواز میں اذان دیتا تھا ،Canteسپینش زبان میں ''Singer‘‘کوکہتے ہیں ،چنانچہ اُن کے نام پر یہ شہر آباد ہوگیا۔وہاں سے ہم ویلنسیا گئے اور مولانا صوفی محمد منیر کی'' جامع مسجد فیضانِ مدینہ آیورا‘‘ میں'' پیغامِ اسلام کانفرنس ‘‘سے خطاب کیا ، اِس پروگرام کا انتظام مولانا قاری زاہد لطیف اورقاری محمد رفیق نے کیا تھا۔جامع مسجد رضائے مصطفی کے سید کرامت علی شاہ ، شیخ محمد طارق اور جناب عباس علی کی میزبانی سے فیض یاب ہوئے ۔
سپین سے 3 نومبر کو ہم پیرس گئے اور وہاںشانزے لیزے اورایفل ٹاورکی سیاحت کی ۔ 4نومبرجمعۃ المبارک کا خطاب جامعہ مسجد پیری فت میں کیااور اُسی شام کو جامع مسجد قبا میں خطاب کیا۔ 5نومبر کوبیلجیم کے اینٹ ورپن شہر میں علامہ مفتی عبداللطیف چشتی کے زیرِ اہتمام پیغامِ اسلام کانفرنس سے خطاب کیا ،پیرس کے رُفقاء نے بیلجیم تک ساتھ دیا اورکانفرنس میں بھی شریک رہے۔اَینٹ ورپَن کے معنی ہیں:'' قَطْعِِ یَد‘‘۔کہاجاتا ہے کہ اِس مقام پرایک بحری قزّاق ساحل پر تاجروں کو لوٹ لیتا تھا ،تو یہاں کے لوگوں نے اُس کے ہاتھ کاٹ دیے اور اُسی پر اس شہر کا نام'' اَینٹ وَرپَن‘‘ رکھا گیا۔بیلجیم کے بارے میں معلوم ہوا کہ یہاں کے حکمران جرمن افواج کے سامنے جنگ کے بغیر سِپَر انداز( Surrender)ہوگئے تھے ،اس لیے اُن کا ملک جنگِ عظیم کے دوران تباہی سے بچارہا۔اَینٹ وَرپَن میں ، جنابِ ظفر مغل، خواجہ جاوید اقبال ، جناب احمد شفیق، میاں مقصود احمد،جامع مسجد نورالحرم کی انتظامیہ اور دیگر رُفقاء نے مہمان نوازی کا شرف بخشا۔میڈیا سے وابستہ جناب ندیم بٹ اور دیگر اداروں کے نمائندوں نے بھی پروگراموں کی کوریج کی۔سفر کے بیشتر حصے میں حاجی محمد رفیق نے خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور اُن کاپُرخلوص رویّہ ہمیشہ یاد رہے گا۔
بیلجیم سے اتوار6نومبر کوہالینڈ روانہ ہوئے اور وہاں بعد نمازِ ظہر''کامیاب زندگی ‘‘کے موضوع پر جامع مسجد غوثیہ روٹرڈیم میںایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا، یہاں اس مسجد کے خطیب علامہ سید افتخار احمد شاہ ،مدرّس علامہ افتخار علی چشتی ، قاری محمد حنیف نقشبندی ، مولانا محمد عمران اور دیگر رُفقاء نے شرفِ میزبانی بخشا ۔اُسی روز بعد نمازِ مغرب دوسری'' جامع مسجد غوثیہ‘‘ میں'' پیغامِ امن کانفرنس‘‘سے خطاب کیا۔
7و8نومبر کو ہم نے اَینٹ وَرپَن میں میر کے مقام پر تجارتی بندرگاہ کو دیکھا اور برسلز میں بہت بڑے سائز کے نو گولوں پر مشتمل ایک عظیم فولادی تعمیراتی شاہکار ''اٹومیم‘‘کو دیکھا،جو مرسڈیز بینز کی کمپنی نے گفٹ کے طور پر بیلجیم کے بادشاہ کو تیار کر کے دیا تھا، اِسے بھی ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سیّاح دیکھنے آتے ہیں۔
9نومبر کو ہم جرمنی کے صنعتی شہر ''اِسٹُٹگارٹ‘‘گئے ،جہاں دنیا کی مہنگی ترین اور مشہور کاریں مرسڈیز بینز اور بی ایم ڈبلیو وغیرہ بنتی ہیں۔ڈاکٹر ظفر اقبال نوری کے ہمراہ مرسڈیز بینز کا مرکز دیکھا ،جس میں گھوڑے سے لے کر پہیے تک اور مختلف مراحل کی کاروں کے ماڈل دیکھے اور پھر زمین پر چلنے والی کاروں کے ارتقائی مراحل سے لے کر ہوائی جہاز تک کی تمام سواریوں کے ماڈل دیکھے اور کمپنی کے تازہ ترین ماڈل اور مکمل الیکٹرانک ماڈل بھی دیکھا۔اسی دوران بوسنیا ہرزیگوینا کے مسلمانوں کی شاندار مسجد اور اسلامی مرکز دیکھا۔ رات کو پاکستان ویلفیر سوسائٹی کی جامع مسجد المدینہ میں خطاب کیا،مفتی شوکت علی مدنی اس مسجد کے امام وخطیب اور شیخ منیر احمد صدر ہیں اور ڈاکٹر ظفر اقبال نوری مذہبی امور کے انچارج ہیں۔رات ہم نے جناب عدیل حسین کے ہاں قیام کیا اور اگلی شام کو بلنز کی ''پاک دارالسلام مسجدِ اقصیٰ ‘‘میں'' قرآن وحدیث کی صداقتیں جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں ‘‘کے موضوع پر خطاب کیا ، حاجی سجاد گل اس مسجد کے انتظامی سربراہ اور جناب خالد بٹ روح و رواں ہیں،مولانا محمد نوید اِس مسجد کے امام وخطیب ہیں ،جو ایرفورٹ یونیورسٹی میں چیئر پروفیسر ڈاکٹر جمال ملک کی سربراہی میں ایم فِل کر رہے ہیں ۔جناب ڈاکٹر جمال ملک بھی پروگرام میں موجود تھے اور انہوں نے ہمارے لیے عَشائیہ کا اہتمام کیا۔
11نومبر کو ہم پھر برسلز گئے ،وہاں ورلڈ اسلامک مشن کے زیرِ اہتمام ''جامع مسجد العابدین‘‘میں خطاب کیا ،مولانا محمد انصر مدنی اِس کے امام وخطیب ہیں۔رات ہم نے برسلز میں عیدگاہ شریف راولپنڈی میں سلسلۂ محمدیہ نقشبندیہ کے سجادہ نشین جناب پیر نقیب الرحمن کے مریدِ خاص محمد جمیل صاحب کے ہاں بسر کی اور اُن کی میزبانی سے فیض یاب ہوئے ۔پیر نقیب الرحمن صاحب کے مریدین یورپ کے تمام ممالک میں موجود ہیں اور وہ محبت وخلوص کے ساتھ ملتے رہے ۔رات کو ہم واپس اوسلو پہنچے، وہاں ہمارے میزبان ہمیشہ موہری شریف(گجرات) کے صوفی بزرگ خواجہ معصوم رحمہ اللہ تعالیٰ کے تعلیم یافتہ اور دینی مزاج کے حامل پوتے جناب محمد معصوم زبیر ہوتے ہیں ،جو نئے تعمیر شدہ مسلم سینٹر کے مذہبی امور کے انچارج ہیں۔اگلے دن بعد نمازِ عصر جامع مسجد میں الوداعی خطاب کیا اور پھر دوستوں کے ہمراہ ائیرپورٹ روانہ ہوئے ،13نومبر کوہماری پرواز مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ پہلے اسلام آباد ائیرپورٹ پر پہنچی اور وہاں سے کراچی کی کنیکٹنگ فلائٹ کے ذریعے صبح گیارہ بجے گھر پہنچے۔
ملک کے اندر اور باہرمیرے خطابات تربیتی ہوتے ہیں ،ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اہلسنت کو دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق دینی ومسلکی ترجیحات کا شعور دیا جائے ۔مثلاًاہلسنت وجماعت کے نزدیک ایصالِ ثواب اِجماعی اور مُسلَّم مسئلہ ہے ، لیکن یہ مالی وسائل سوم ،چہلم اور اَعراس کے مواقع پر لنگروں پر خرچ ہوتے ہیں ،زرِ کثیر سے نعت خوانی اور مجالس منعقد ہوتی ہیں ،اِن کے جواز پر کوئی کلام نہیں ہے ،لیکن رسول اللہ ﷺ نے ایصالِ ثواب کے لیے صدقاتِ جاریہ کو ترجیح دی ہے اور ہمیں اِن وسائل کا رُخ دینی ورفاہی اداروں کے قیام ، تعلیم کے فروغ اوردینی تزکیہ وتربیت کی جانب موڑنا ہوگا، وقت کا تقاضا یہی ہے ۔اِسی طرح اکابر اولیائے کرام کی سجادہ نشینی کو علمی ودینی معیارات سے یکسر صَرفِ نظر کر کے موروثی بنادیا گیا ہے ،جس سے اس شعبے کی غالب اکثریت نے ''روحانی جاگیرداری‘‘کی حیثیت اختیار کرلی ہے ،رُشد وہدایت کے مراکز میںتعلیم ، تزکیہ وتربیت کا مکمل فُقدان ہے ،جس کے لیے یہ مراکز قائم کیے گئے تھے، خطباء اور نعت خوان اپنے روزگار کی خاطر اِن کے لیے مارکیٹنگ کا کام کر رہے ہیں ،سو اب یہ شعبہ نفع رسانی کی بجائے نقصان کا سبب بن گیا ہے ۔ظاہر ہے میری اس فکر سے ہمارے جن طبقات کے مفادات پر زَد پڑتی ہے ،انہیں بے چینی ہوتی ہے ،میرا شِعار اللہ تعالیٰ کے اِس ارشاد پر مبنی ہے :''پس تم اُن سے نہ ڈرو اور (صرف) مجھ سے ڈرو ،(البقرہ:150)‘‘۔