تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     22-11-2016

زیادہ حدِّ ادب

زیادہ حدِّ ادب! کچھ ایسی بھی چیزیں ہوتی ہیں کہ تشریح ان کی ہرگز نہ کرنی چاہیے۔ تفصیل میں ہرگز نہ جانا چاہیے۔
ایک کامیاب اور ناکام آدمی کا فرق کیا ہوتا ہے؟ کئی طرح سے شاید یہ بیان کیا جا سکتا ہے۔ ایک قرینہ یہ ہے کہ کسی شخص کی ترجیحات کو دیکھا جائے۔ اس کے لئے اہم ترین کیا ہے اور کم ترین کیا۔ مثال کے طور پر صوفی وہ شخص ہوتا ہے‘ پروردگارِ عالم‘ کائنات‘ انسان اور زندگی کا خالق جس کی سب سے پہلی‘ سب سے بڑی‘ اور سب سے اہم ترجیح ہوتا ہے۔ اس کی مرضی و منشا‘ اس کے قوانین اور اپنی مخلوق سے اس کا مطالبہ۔ آسانی کے لئے‘ زیادہ تفہیم کے لئے صوفی کی بجائے‘ اسے مرد مومن کہہ لیجئے۔ ؎
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواّص کو مطلب ہے‘ صدف سے کہ گہر سے
کچھ لوگ ہوتے ہیں کہ اصطلاح میں الجھ جاتے ہیں‘ الفاظ کے گورکھ دھندے میں۔ عامی نہیں‘ بڑے بڑے لوگ۔ صوفی کا لفظ کہاں سے آیا؟ کس زبان سے؟ اس کا ماخوذ و سرچشمہ کیا ہے؟ کن کن زبانوں میں‘ کس کس مفہوم میں کبھی برتا گیا۔ علم کی جس کو لگن ہو‘ اسے مقصود پہ نظر رکھنی چاہیے۔ یہ کہ تصوف کا حقیقی تصور کیا ہے۔ 
یہ نہیں کہ تاریخ اس کی مدد نہ کرے گی۔ یہ نہیں کہ زبان و بیان سے وہ بے نیاز ہو جائے۔ اسے البتہ‘ معانی سے غرض ہونی چاہیے‘ لفظ سے نہیں۔ جنیدِ بغداد سے لے کر‘ جنہیں سیّدالطائفہ‘ یعنی اس قبیلے کا سردار کہا جاتا ہے‘ خواجہ مہر علی شاہ تک‘ اقبالؔ جنہیں شاگرد کی طرح مخاطب کیا کرتے‘ کسی بھی صاحبِ اسرار کو‘ طالب علم اس نقطہء نظر سے دیکھے گا... اور ظاہر ہے کہ بدلتے زمانوں کے رنگ و روپ کو ملحوظ رکھ کر۔
کج بحث ہوتے ہیں۔ ایک تو خبث باطن پر تلے ہوئے‘ مگر کم کم۔ ان کے بارے میں یہ کہا گیا: جب جہلا ان سے مخاطب ہوتے ہیں‘ تو وہ کہتے ہیں: تم پر سلامتی ہو۔ عادی معترض ہوتے ہیں‘ اکثر تنگ نظر یا ضدّی۔ اپنا موقف اس قدر عزیز ہوتا ہے کہ دوسروں کی سنتے ہی نہیں۔ رویہ ان سے بھی وہی ہونا چاہیے مگر زیادہ نرمی کے ساتھ: آپ کی رائے سر آنکھوں پر‘ مجھ ناچیز کا موقف مختلف ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے یہ کہا تھا: اگر کوئی کانٹا آپ کے دامن سے الجھنے کی کوشش کرے تو دامن کا اتنا حصّہ اس کے حوالے کر دیجئے کہ لے تُو اس سے دل بہلا‘ میں آگے چلتا ہوں۔
جناب حامد علی خان کا فرمان یہ ہے کہ میڈیا نے ان سے انصاف نہ کیا اور ایک مقدمہ ان کے خلاف گھڑ لیا۔ ایسی ایک صورتِ حال پیدا کر دی کہ پاکستانی تاریخ کے اہم ترین کیس سے الگ ہونے پر وہ مجبور ہو گئے۔ بجا ارشاد‘ مہذب آدمی کا طریق یہی ہوتا ہے: آپ سب کو اعتراض ہے‘ لیجئے‘ میں الگ ہوتا ہوں۔
فیصلہ تو حامد علی خان نے درست کیا۔ بعدازاں فکر لاحق ہو گئی کہ قصوروار قرار نہ دیئے جائیں۔ کیوں اور کیسے قرار دیئے جائیں گے؟ فیصلہ اب تحریکِ انصاف کے حق میں ہو یا اس کے خلاف۔ اب اور لوگ ذمہ دار ہیں۔ داد یا بے داد میں اب وہ شریک نہیں ۔
اعتزاز احسن سمیت‘ خان صاحب کے دوستوں کی تشویش قابلِ فہم ہے۔ ایک جہاں دیدہ اور دیانت دار آدمی کی نیّت اور صلاحیت پر شبہ نہ کرنا چاہیے۔ بالکل نہ کرنا چاہیے۔ کسی نے کیا بھی نہیں۔ پارٹی کے زعما کی رائے یہ ٹھہری کہ شاید کوئی دوسرا‘ زیادہ توجہ اور زیادہ یکسوئی کے ساتھ دلائل دے سکے۔ خان صاحب نے ان کے تیور دیکھے تو وہ فیصلہ کر ڈالا‘ جو ایسے میں کرنا چاہیے‘ وہی جو ان کے شایان شان ہے۔ محض ایک ممتاز قانون دان ہی نہیں‘ وکلا کے وہ لیڈر ہیں۔
2007ء سے 2009ء تک جاری رہنے والی‘ تاریخ ساز تحریک کے سب سے ممتاز لیڈر‘ ججوں کی بحالی پر جو منتج ہوئی۔ اس کے باوجود کہ فوجی حکمران‘ جنرل پرویز مشرف اور 2008ء کے الیکشن کی سب سے مقبول پارٹی‘ ججوں کی بحالی کے خلاف تھی۔ سامنے تو چیف جسٹس افتخار چوہدری تھے اور اعتزاز احسن؛ چنانچہ عوامی سطح پر ان کا اعتراف زیادہ ہوا۔ زیادہ باخبر لوگ جانتے تھے کہ حامد علی خان کے بغیر‘ وکلا کی تنظیم ایسی موثر کبھی نہ ہوتی؛ چنانچہ ان کا اعتراف بھی ہوا‘ ہونا ہی چاہیے تھا۔
دو بڑی غلطیاں البتہ ان سے سرزد ہوئیں۔ ایک کا ذکر اخبارات اور ٹی وی میں ہوا‘ دوسری کا نہیں۔ عمران خان کے خلاف‘ جسٹس افتخار چوہدری کے مقدمے میں جو موقف عدالت میں انہوں نے پیش کیا‘ ان کے موکل نے اسے اپنانے سے انکار کر دیا۔ انکار ہی نہیں‘ صاف صاف کہہ دیا کہ یہ وکیل کا بیان ہے‘ اس کا نہیں۔ وکیل نے کہا تھا کہ مدعا علیہ معافی کا خواست گار ہے۔ اس نے صاف صاف کہا: سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اپنی رائے پر میں قائم ہوں۔ عدالت میں اپنا دفاع کروں گا۔
خان صاحب کو اب احتیاط اختیار کرنی چاہیے تھی۔ بالکل برعکس‘ اسی طرز عمل پر وہ قائم رہے۔ بجا کہ قانون کا وہ زیادہ فہم رکھتے ہیں۔ اپنی جگہ یہ کتنی ہی بڑی سچائی ہو‘ کتنے ہی وہ لائق اور دانا ہوں‘ وہ موکل کے نمائندہ ہیں۔ مقدمہ لڑتے ہوئے‘ اس بات کا انہیں خیال رکھنا چاہیے۔ خان صاحب نے انکار کر دیا۔ بھاڑ میں جائے مؤکل‘ میں تو اپنی سی کروں گا۔
سات گھنٹے‘ جی ہاں‘ مشاورت کی اوّلین مجلس‘ سات گھنٹے جاری رہی۔ تمام ضروری دستاویزات ان کی خدمت میں پیش کی گئیں۔ زیادہ تر یہ پارٹی کے دو رہنمائوں کی کاوش تھی۔ نعیم بخاری بھی شامل و شریک تھے۔ عدالت میں انہیں پیش نہ ہونا تھا‘ مگر خان صاحبان سے کم فکرمند وہ نہیں تھے‘ حامد علی خاں اور عمران خان سے۔ ایک ترتیب کے ساتھ دلائل وہ لکھ کر لائے تھے‘ ان کی رائے میں جو ججوں کو قائل کر سکتے۔
راوی کا کہنا ہے کہ لاابالی پن کی حد تک‘ خوش باش اور کھلنڈرا دکھائی دینے والا یہ شخص‘ عملاً بہت ذمہ دار اور مرتب واقع ہوا ہے۔ دس بجے وہ سونے چلا جاتا ہے کہ صبح سویرے جاگ اُٹھے‘ طلوعِ آفتاب سے ایک گھنٹہ قبل۔ یہ کامران لوگوں کی بہترین عادات میں سے ایک عادت ہے۔ سحر کی خاموشی میں‘ تارے جب بجھ رہے ہوتے ہیں۔ پرندے جب جاگ اُٹھتے‘ مگر چپ رہتے ہیں کہ عبادت کو فرض اور فرض کو عبادت سمجھنے والوں کی ریاضت میں مخل نہ ہوں۔ ہوا جب رچائو اور گداز جنم دیتی ہے۔ انسانی حافظہ‘ بہترین انداز میں بروئے کار آتا ہے۔
نعیم بخاری کی کاوش کو سراہا گیا۔ دوسروں نے بھی حصہ ڈالا۔ آخر ان سب کے لئے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ کامیابی کا مطلب‘ کامرانیوں کے ایک سلسلے کا آغاز ہو گا۔ ناکامیابی‘ مایوسی اور بے دلی میں ڈھلے گی۔ وقتی طور پر ہی سہی‘ لاکھوں کارکنوں کی ہمت پست کر دینے والی۔
دستاویزات خان صاحب کے سپرد کر دی گئیں اور دلائل کا انبار بھی۔ نشان زدہ عبارتیں‘ سطور کے نمبر اور اجاگر الفاظ۔ کیا اپنے رفقا کو انہیں داد نہ دینی چاہیے تھی؟ خود خان صاحب نے بھی ایثار سے کام لیا تھا۔ اسی لئے قیادت انہیں سونپی گئی۔ سب سے بڑھ کر انہی پر اعتماد کیا گیا۔ جو لوگ ان کی مدد کو پہنچے‘ ان کی یہ ذمہ داری ہی نہ تھی؛ چنانچہ اس وقت‘ کم از کم اس وقت وہ زیادہ تحسین کے حق دار تھے۔ سردار کو زیبا یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کی حوصلہ افزائی کرے کہ یہ انسانی روح کی غذا ہے۔ ولولہ اسی سے اگتا اور فروغ پاتا ہے۔ وہ خاموش رہے اور کہا تو بس یہ کہا کہ وہ دیکھ لیں گے‘ وہ نمٹا دیں گے۔ فکرمندی کی ضرورت نہیں۔
باقی تاریخ ہے۔ باقی ہر ایک کی اپنی رائے۔ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا: ہر آدمی کا اپنا سچ ہے اور ہر آدمی اپنے سچ کا ذمہ دار۔ 
اب یہاں ایک چھوٹا سا سوال ہے: میرے نزدیک‘ فقط میری ہی سچائی اگر اہمیت رکھتی ہے‘ یعنی میرا موقف۔ دوسروں کی رائے کو اگر پرِکاہ برابر میں اہمیت نہیں دیتا‘ تو اس کا مطلب کیا ہے؟ بات مکمل ہو گئی۔ زیادہ حدِّ ادب! کچھ ایسی بھی چیزیں ہوتی ہیں کہ تشریح ان کی ہرگز نہ کرنی چاہیے۔ تفصیل میں ہرگز نہ جانا چاہیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved