انسان کی زندگی عجیب ہے۔ کوئی مہینہ ایسا نہیں جس میں کوئی بڑا سانحہ رونما نہ ہوا ہو۔ سانحات کے باوجود زندگی رواں دواں رہتی ہے، حادثات کے باوجود گاڑی چلتی رہتی ہے۔ بعض سانحات پرانے ہو جاتے ہیں مگر ان کے زخم سینے میں تازہ رہتے ہیں۔ ایسا ہی سانحہ تھا جو گزشتہ سال ماہ نومبر کی 20 تاریخ کو بنگلہ دیش میں رونما ہوا۔ علی احسن محمد مجاہد بھی جرم بے گناہی میں پھانسی کے پھندے سے جھول کر زندۂ جاوید ہو گئے۔ آہ! وہ درخشندہ ستارہ جو غروب ہو کر افق کے اس پار جا چمکا۔ شہدا مرا نہیں کرتے، وہ امر ہوتے ہیں۔ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا۔ ؎
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں
مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
علی احسن محمد مجاہد دورِ جدید کی عظیم اسلامی شخصیات میں بہت نمایاں اور ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ انھوں نے بچپن سے جوانی تک اور پھر جوانی سے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اللہ کے دین کی سربلندی، نبیٔ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے احیا اور بنی نوع آدم کی بے لوث خدمت کے لیے ناقابل فراموش خدمات سرانجام دیں۔ علی احسن مجاہد کون تھا، ایک دنیا اسے جانتی ہے۔ وہ ایک نایاب ہیرا تھا، مگر بدبخت بنگلہ دیشی حکمران حسینہ واجد نے دیگر عالی مقام اسلامی شخصیات کی طرح اس عظیم فرزند اسلام کو بھی تختۂ دار پر لٹکا دیا۔ وہ تو زندۂ جاوید ہو گیا، مگر انسانیت کے ناقابل تلافی نقصان کی ذمہ دار یہ ظالم خونخوار دیوی اللہ کی پکڑ سے نہ بچ سکے گی۔ اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ۔
مشرقی پاکستان کے ضلع فریدپور میں 23 جون 1948ء کو عالم ربانی مولانا محمد عبدالعلی کے گھر میں ایک بچے نے آنکھ کھولی، جس کا نام علی احسن محمد مجاہد رکھا گیا۔ مجاہد بھائی نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں حاصل کی۔ گھریلو ماحول، دینی اور تحریکی تھا۔ مولانا محمد عبدالعلی جماعت اسلامی کے مقامی رہنما اور علاقے میں دینی شخصیت کے طور پر معروف و مقبول تھے۔ جماعت اسلامی ضلع فرید پور کے برسوں تک امیر رہے۔ ان کی شخصیت اتنی مقبول تھی کہ جماعت اسلامی کی مخالف پارٹیوں کے لوگ بھی ان کا خطبہ سننے کے لیے ان کی مسجد میں آیا کرتے تھے۔ علی احسن محمد مجاہد نے سکول کے زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی چھاتروشنگھو) کی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا اور بہت جلد ترقی کی منازل طے کیں۔ راجندرو ڈگری کالج فرید پور میں تعلیم کے دوران وہ ضلع فرید پور کی جمعیت کے ناظم منتخب ہوئے۔ 1970ء میں فرید پور سے ڈھاکہ آئے اور ڈھاکہ یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ ڈھاکہ میں (مولانا) سردار عبدالسلام جمعیت کے ضلعی ناظم تھے، جن کے ساتھ ایک سیشن میں مجاہد بھائی نے معتمد ضلع (سیکرٹری) کے طور پر کام کیا۔ اگلے سال وہ ناظم منتخب کیے گئے۔ اس زمانے میں مرکز میں محترم مولانا مطیع الرحمن نظامی اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ منتخب ہو گئے تھے۔ اس دوران علی احسن محمد مجاہد مشرقی پاکستان جمعیت کے صوبائی ناظم منتخب ہوئے۔
1971ء میں مجاہد بھائی مشرقی پاکستان جمعیت کے صوبائی ناظم تھے‘ جب انڈیا نے مشرقی پاکستان میں اپنی فوجیں داخل کر دیں اور مکتی باہنی کے درندہ صفت مہم جو اور علیحدگی پسند مسلح دستوں کے ساتھ مل کر پاکستان کو دولخت کرنے کا منصوبہ شروع کیا۔ پاک فوج نے دشمن کا مقابلہ کیا، مگر غیروں کی سازشوں اور اپنوں کی بے وفائیوں اور خود غرضیوں کے نتیجے میں بھارت کی 65ء کی جنگ میں شکست خوردہ فوج اپنا بدلہ لینے میں کامیاب ہو گئی۔ دنیا کی سب سے بڑی اور اسلام کے نام پر بننے والی ریاست پاکستان کو دولخت کر دیا گیا۔ اس عرصے میں تمام محبِ وطن عناصر نے بھارتی حملہ آوروں اور علیحدگی پسند عناصر کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ جنرل نیازی کے ہتھیار ڈال دینے کے نتیجے میں پاک فوج اور سرکاری ملازمین تو انڈیا کی جیلوں میں چلے گئے‘ پاکستان کے بنگالی محب وطن عناصر اب حالات کے رحم و کرم پر تھے۔
اس عرصے میں اسلامی جمعیت طلبہ بھی منظر عام سے غائب ہو گئی، مگر اس کا کام ختم نہیں ہوا۔ علی احسن محمد مجاہد زیر زمین جاری سرگرمی کے دوران 1972ء میں اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی چھاتروشنگھو)، جس کا نام بعد میں اسلامی چھاتروشبر رکھا گیا، کے پہلے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ ان پُرآشوب حالات میں انھوں نے جمعیت کی رہنمائی بھی کی اور ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے قائم کردہ ایک تعلیمی ادارے آئیڈیل سکول نرائن گنج کے پرنسپل کے طور پر بھی کام کیا۔ علی احسن محمد مجاہد جمعیت سے فارغ ہوئے تو جماعت میں شامل ہو گئے۔ اس عرصے میں جب 1974ء میں انڈیا، بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان سہ فریقی معاہدہ طے پایا تو جماعتِ اسلامی نے 'اپنا کام اپنے نام‘ سے اپنا کام شروع کر دیا۔ چھاتروشبر بھی تعلیمی اداروں میں کھل کر کام کرنے لگی۔
علی احسن محمد مجاہد جماعت کی قیادت میں نمایاں شخصیت کے طور پر سرگرم عمل ہو گئے۔ علی احسن محمد مجاہد انتہائی ذہین، سنجیدہ اور منضبط سیاسی رہنما تھے۔ سہ فریقی معاہدے کے مطابق طے پا گیا تھا کہ پاکستان نے سرکاری طور پر بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا ہے۔ تینوں ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کے دوران اور مابعد جو بھی امور و معاملات وقوع پذیر ہوئے ہیں‘ ان کی بنیاد پر تینوں ملکوں میں سے کسی بھی ملک کے کسی شہری پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔ اگر پہلے سے کچھ مقدمات درج ہیں تو وہ کالعدم قرار پائیں گے۔ علی احسن محمد مجاہد اور ان کی پوری جماعت نے بنگلہ دیش کو اپنا وطن تسلیم کر لیا۔ جب تک بنگلہ دیش نہیں بنا تھا تمام مشرقی پاکستانی باشندہ، خواہ وہ ہندو اور عیسائی تھے یا مسلمان، متحدہ پاکستان کے شہری تھے۔ اس زمانے میں جن لوگوں نے پاکستان کے خلاف بغاوت کی، حقیقت میں وہ مجرم تھے اور جنھوں نے پاکستان کی سالمیت کو بچانے کے لیے جدوجہد کی وہ محبِ وطن شہری تھے۔ اب ان سارے معاملات کو دفن کر دیا گیا اور یہ طے پایا کہ بنگلہ دیش کا ہر شہری یکساں حقوق کا حامل ہے۔
علی احسن محمد مجاہد کے ساتھ جمعیت کے زمانے میں راجندرو کالج فریدپور میں زیر تعلیم ایک دوست سے بیرون ملک ملاقات ہوئی۔ ان کے ساتھ ایک اور بنگلہ دیشی ساتھی بھی موجود تھے، جن سے وہیں اپنے مذکورہ دوست کے ذریعے تعارف ہوا۔ دونوں نے اپنی یادوں کے دریچے کھولے اور واقعات کو بیان کرتے ہوئے بے ساختہ دونوں کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔ ظاہر ہے کہ اپنے شہید بھائی کے یہ تذکرے سن کر میں بھی اپنے آنسو نہ روک سکا۔ اس ساتھی نے کہا کہ علی احسن محمد مجاہد دورِ طالب علمی سے ہی حقیقی معنوں میں قائد اور مربّی تھے۔ میں نے مدرسے کی تعلیم کے ساتھ میٹرک کیا تھا۔ ایک روز مجھ سے فرمایا کہ راجندروکالج فرید پور کا سب سے اچھا کالج ہے، اس میں داخلہ لے لو۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں نے کوشش کی لیکن سائنس کے مضامیں میں گنجایش موجود ہے، جبکہ آرٹس میں سب سیٹیں پُر ہو چکی ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ میرے پاس پوری معلومات ہیں، تم کامرس میں داخلہ لے سکتے ہو، وہاں نشستیں بھی موجود ہیں۔ اگر اس مضمون میں مشکلات ہوں گی تو سال کے دوران آرٹس میں مائی گریٹ ہونے کا موقع نکل آئے گا۔ چنانچہ میں نے انہی کی ہدایت پر عمل کیا اور اللہ کے فضل سے اپنی تعلیم کے مدارج مکمل کیے۔
دوسرے ساتھی نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا کہ میں جو کہانی بیان کرنے جا رہا ہوں وہ قدرے دردناک ہے۔ جب پاک فوج نے بھارتی جرنیلوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تو ہمیں اندازہ ہو گیا کہ اب بنگلہ دیش بن کر رہے گا۔ اس موقع پر میں ڈھاکہ میں علی احسن محمد مجاہد کے ساتھ موجود تھا۔ وہ ہمارے طالب علم رہنما اور ناظم تھے۔ انھوں نے اپنے سب ساتھیوں کو رات کے وقت اکٹھا کیا وہ رات ہمارے لیے ایک یادگار رات ہے۔ درد اور رنج بھی حد درجے کا تھا اور امید بندھانے والے نے ہمیں اس انداز میں رہنمائی بھی دی تھی کہ ہر ساتھی خود کو توانا محسوس کرنے لگا۔ یوں تو ہم نے جمعیت کی زندگی میں کئی شب بیداریاں کی تھیں، مگر وہ شب بیداری مجھے کبھی نہیں بھول سکتی۔ علی احسن محمد مجاہد نے کچھ ایسا خطاب کیا جس کا ایک ایک لفظ دلوں میں اترتا چلا گیا۔ انھوں نے کلمہ شہادت پڑھا، پھر جمعیت کے دستور کے مطابق حلف نامے سے قبل پڑھی جانے والی سورۃ الانعام کی آیت تلاوت کی۔ یہ آیت ہمیں جمعیت کے زمانے میں ہی یاد ہوئی۔ قُلْ إِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ پھر انھوں نے فرمایا‘ ہم نے اپنی وفاداریاں کسی فرد کے ساتھ نہیں، اللہ کی سچی کتاب اور رسولِ برحقؐ کی سنت مبارکہ کے ساتھ وابستہ کیں۔ دنیا میں ہر چیز فنا کے گھاٹ اترنے والی ہے، مگر ہمارا یہ بنیادی منبع کبھی بھی نہیں مٹ سکتا۔ دوستو! مشکل وقت آ گیا ہے، لیکن ایسے حالات میں مومن کی ڈھال صبر اور اس کا ہتھیار عزم و ہمت ہے۔ اس کی نظر ظاہری وسائل سے زیادہ اللہ کی تائید و نصرت پر ہوتی ہے۔