تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     22-11-2016

نریندر مودی کے نئے نوٹ

ایک رات سوتے میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے جی میں کیا آئی کہ 8 نومبر کی صبح اٹھتے ہی ریڈیو اور ٹیلیویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے نادر شاہی حکم جاری کر دیا کہ بھارتی کرنسی کے پانچ اور ایک ہزار روپے کے تمام نوٹ کل9 نومبر سے منسوخ کر دیئے گئے ہیں اور ان کی جگہ نئے نوٹ جاری کئے جائیں گے اور ان نئے کرنسی نوٹوں کے ساتھ 2 ہزار روپے کا ایک نیا کرنسی نوٹ بھی جا ری کیا جا رہا ہے۔ منسوخ کئے جانے والے ان کرنسی نوٹوں کو تبدیل کرانے کی آخری تاریخ پندرہ نومبر رات بارہ بجے تک مقرر کر دی گئی ہے۔ ا س کے بعد جس کے پاس بھی پرانا کرنسی نوٹ ہو گا وہ منسوخ تصور ہو گا جس کی بھارتی کرنسی میں سوائے کاغذ کے ایک ٹکڑے کے کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔ ریزرو بینک آف انڈیا کی جانب سے پانچ سو روپے کا کرنسی نوٹ 1987ء میں جاری ہوا اور پھر2000ء میں ایک ہزار روپے کے نوٹ کو بھارت میں متعارف کرایا گیا ۔ بھارت کے وزیر خزانہ ارون جیتلی کے مطا بق ریزرو بینک آف انڈیا کی جانب سے فیصلہ کیا گیا تھا کہ پانچ اور دس ہزار روپے کے نئے کرنسی نوٹ متعارف کرائے جائیں گے لیکن مودی جی کے من میں نہ جانے کیا خیال آیا کہ انہوں نے پانچ سو اور ایک ہزار روپے کے نوٹوں کی منسوخی کو ترجیح دے دی۔ اس لئے خیال کیا جا رہا ہے کہ بھارت میں جلد ہی بڑے کرنسی نوٹ بھی متعارف کرائے جائیں گے۔ نریندر مودی کی تقریر کے ساتھ ہی کرنسی نوٹ کیا منسوخ ہوئے کہ پورے بھارت میں ایک کہرام مچ گیا پہلے دن تو لوگوں 
کو سمجھ نہ آئی کہ کیا حکم جاری ہوا ہے لیکن جب سب کے اوسان بحال ہوئے تو بینکوں سمیت تمام مالیاتی اداروں کے باہر صبح سے رات گئے تک لمبی لمبی قطاریں لگنا شروع گئیں۔کانگریس سمیت بہت سی جماعتوں کی جانب سے مودی کے ا س فیصلے پر سخت نکتہ چینی کی گئی ۔مودی کے اس اچانک فیصلے سے بھارت بھر میں نہ جانے کتنی شادیاں اور دوسری خاندانی اور سماجی تقریبات رک گئی ہیں اور اس کیلئے بھارتی بینکوں نے عوام کو رعائت دینے کی خاطر صرف ڈھائی لاکھ روپے فی خاندان دینے کی اجا زت دے دی ہے۔وہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ جو مختلف آپریشن کرانے کیلئے ہسپتالوں میں لیٹے ہوئے تھے پیسے کا منہ دیکھ رہے ہیں، کیونکہ اس کے بغیر کوئی بھی ڈاکٹر اور ہسپتال مریض کو ہاتھ لگانے کو تیار نہیں۔ کیجریوال نے نریندر مودی کے اچانک کئے جانے والے اس مضحکہ خیز فیصلے پر الزام لگایا کہ پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹوں کی منسوخی اور دو ہزار روپے کا نیا کرنسی نوٹ چھاپنے کے پیچھے مودی کے کچھ ذاتی مفادات لگتے ہیں۔ جبکہ بھارت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر نے بہت دور کی کوڑی لاتے ہوئے جنتا کی مودی سرکار کے خلاف پیدا ہونے والی نفرت کا رخ موڑنے کیلئے بھارتی سیا ستدانوں کے ہمیشہ سے رٹے رٹائے جملے دھراتے ہوئے سب کا غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے کہنا شروع کر دیا ہے 
کہ جب سے پانچ اور ایک ہزار روپے کے کرنسی نوٹ منسوخ ہوئے ہیں بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں مظاہرے ختم ہو کر رہ گئے ہیں کیونکہ ہر کشمیری نوجوان کو پولیس اور فوج پر پتھر برسانے کیلئے روزانہ پانچ سو روپے دیئے جاتے تھے۔کانگریس کا کہنا ہے کہ ایک ار ب بیس کروڑ کی آبادی والے ملک کو کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کیلئے سات دن کی مہلت ناکافی تھی اور مودی کے اس غلط فیصلے سے جنتا کے گیارہ لاکھ کروڑ روپے ناکارہ ہو گئے ہیں اور اس نقصان سے بھارت بھر کے متاثرہ خاندان جس قسم کی معاشی مشکلات سے گزر رہے ہیں اس کا اندازہ بھارتی جنتا پارٹی کی مودی سرکار کو کیوں نہیں ہو رہا۔ میڈیا پر دکھائے جانے والے افسوسناک منا ظر شائد حکومت کی نظروں سے اوجھل چلے آ رہے ہیں۔ بہت سی بزرگ خواتین اور مرد کئی کئی گھنٹے بھوکے پیاسے قطاروں میں کھڑے کھڑے لقمہ اجل بن گئے اور بھارت نے یہ منا ظر بھی دیکھنے تھے کہ اس کی ناریاں دس دس گھنٹے قطاروں میں کھڑی رہنے کے بعد احتجاج کرتے 
ہوئے خود کو برہنہ کر تے ہوئے مودی سرکار کے خلاف''ننگا احتجاج‘‘کرنا شروع ہو گئی ہیں اور اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو بھارت کہاں جا کر کھڑا ہو گا ۔امن عامہ کی صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ اے ٹی ایم کے باہر لگی ہوئی لمبی لمبی قطاریں جگہ جگہ لڑائی جھگڑے کے میدانوں میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہیں اور حکومت ہے کہ نہ جانے کہاں سوئی ہوئی ہے۔ منوہر پاریکر اپنے وزیر اعظم کے نادر شاہی حکم کے خلاف پھیلنے والی عوامی نفرت کا رخ تبدیل کرنے کیلئے جو کچھ بھی کہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ مودی سرکار کے اس فیصلے کے بعد بھارت کے طول و عرض میں جگہ جگہ میلوں لمبی قطاروں میں لگے ہوئے بھارتی شہری اپنی جمع پونجیاں لیئے ہوئے بینکوں اور مالیاتی اداروں کے باہر گھنٹوں کھڑے ہوئے نریند رمودی کو برا بھلا کہتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔رائے عامہ کے حالیہ سروے کے مطا بق سرکار کے اس فیصلے سے عوام کو پیش آنے والی بے پناہ مشکلات کی وجہ سے مودی کی مقبولیت میں بہت کمی آ چکی ہے۔
نریندر مودی کے کمالات کہہ لیں یا بوکھلاہٹ کہ اس نے دو ہزار روپے کا جو نیا کرنسی نوٹ جاری کیا ہے اس کو ہاتھ میں لیتے ہی بے ساختہ ہنسی چھوٹ جا تی ہے اور اگر کوئی مہذب ملک ہو تا تو اس غلطی پر اس کا وزیر خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک فوری طور پر مستعفی ہو جاتے اور وزیر اعظم خود ریڈیو اور ٹی وی پر آ کر قوم سے معافی مانگتا لیکن بھارت میں ابھی تک ایسا نہیں ہوا شائد اس کی وجہ یہ ہے یہاں سب سے بڑی جمہوریت کا راج ہے جہاں کوئی کسی کو جواب دہ نہیں ہوتا ۔ مودی سرکار کے جاری کئے گئے نئے INR2000 کرنسی نوٹ پر DO HAZAR RUPYE لکھنے کی بجائے DO BAZAR RUPYE لکھا ہوا صاف نظر آ رہا ہے اور لوگ بھارت سرکار کی افراتفری اور راج نیتی پر ہنسے جا رہے ہیں کہ جب یہ کرنسی نوٹ دنیا کے سامنے رکھا جائے گا تو ہم اس قسم کی کارکردگی پر کس طرح شائننگ انڈیا کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ لوگ سوال کریں گے جس ملک کے کرنسی نوٹوں کی عبارت ہی غلط ہے وہاں کی گورننس کا کیا حال ہو گا ؟... بھارتی عوام اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے ان نئے کرنسی نوٹوں سے اب جس نئے کرب سے گزر رہے ہیں اس نے ان سب کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں کہ ایک جانب وہ کئی کئی گھنٹے قطاروں میں کھڑے اپنے پاس موجود کرنسی نوٹوں کو تبدیل کرا رہے ہیں اور دوسری جانب ان کے بدلے میں جو کرنسی نوٹ حاصل کر رہے ہیں اس کی پرنٹنگ ہی غلط ہے جس سے بھارت بھر کے لوگوں کو شدید پریشانی نے گھیررکھا ہے کہ دو ہزار روپے کے نئے کرنسی نوٹوں پر لکھی جانے والی غلط عبارت کی وجہ سے کل کو اگر یہ حکم جاری ہو گیا کہ یہ نوٹ بینکوں کو واپس کر دیئے جائیں تو اس سے ایک بار پھر بھارت کی کروڑوں کی آبادی بینکوں کے باہر طویل قطاروں میں دھکے کھاتی نظر آ ئے گی ۔
ہندی کے سکالرز کا کہنا ہے کہ مودی سرکار دو ہزار روپے کے نئے نوٹ کو منسوخ کرنے کے بعد جب دوسری بار نیا نوٹ جاری کرے تو اسے ہندی زبان کے ماہرین کو پاس بٹھانا ہو گا کیونکہ ڈر ہے کہ کہیں پھر کوئی غلطی نہ کر جائے کیونکہ ایسا لگ رہا ہے کہ وزارت خزانہ صرف اور صرف بازار اور ہزار کے الفاظ پر ہی نظر رکھے ہوئے ہے جبکہ ہندی زبان میں اگر 2 لکھنا ہو تو اسےDO نہیں بلکہDHON ہزار روپے لکھنا ہو گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved