غالب کلکتہ سے شکستہ دل کے ساتھ لوٹ چکے تھے۔ وہ فرنگی سرکار کے پاس اپنا ایک مقدمہ لے کر کلکتہ گئے تھے۔ مقدمہ جیت جاتے تو ڈیرھ لاکھ روپے ملنے کی توقع تھی۔ اتنی ہی رقم کے وہ مقروض تھے۔
ساہوکار بھی بڑی بے چینی سے غالب کی دلی واپس کا انتظار کر رہے تھے۔ دلی میں خبر پھیل گئی کہ غالب اپنا مقدمہ ہارگئے ہیں۔ ردعمل سے بچنے کے لیے غالب نے کہنا شروع کردیا کہ اب وہ لندن عرضی بھیجیں گے۔ غالب کے اس مقدمے کے پیچھے باپ کی موت تھی۔ غالب پانچ سال کے تھے کہ والد کی وفات ہو گئی۔ والد عبداللہ بیگ آگرہ کے اہم خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ غالب کی والدہ عزت النسا خواجہ غلام حسین کی بیٹی تھیں جو میرٹھ کے مرہٹہ حکمرانوںکے قریب اور آگرہ شہر میں جائیداد کے مالک تھے۔ عبداللہ بیگ کبھی اہم عہدے پر نہیں رہے۔ حالات خراب ہونے پر عبداللہ بیگ حیدرآباد کے نواب نظام علی خان کی فوج کے تین سو نوجوان جنگجوئوں کے سربراہ بن گئے۔ حیدرآباد کے حکمران خاندان کے اندر جاری کشمکش اور سازشوں کی وجہ سے انہیں جلد اس عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے الور کے حکمران کی فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔ ایک روز ایک باغی زمیندار کو کچلنے کے لیے بھیجا گیا۔ جنگ میں گولی لگنے سے وہیں جاں بحق ہو گئے۔ حکمران بختاور خان نے مرحوم کے بچوں کے لیے الائونس (وظیفہ)کی منظوری دی۔ غالب کے چچا نصراللہ بیگ کے کندھوں پر ساری ذمہ داری آن پڑی۔ غالب ابھی نو برس کے تھے کہ چچا بھی فوت ہوگئے۔ اب ذمہ داری نواب احمدبخش کو سونپی گئی۔ نواب احمد کی دوستی لارڈ لیک سے تھی جس نے ان کی جاگیر پر پچس ہزار روپے ٹیکس معاف کردیا؛ تاہم طے پایا کہ وہ دس ہزار روپے نصراللہ بیگ کے خاندان بشمول غالب اور دیگرکو ادا کریںگے۔کچھ عرصے بعد نواب نے اس حکم نامے میں تبدیلی کرالی کہ دس ہزار روپے کی بجائے پانچ ہزار روپے نصراللہ بیگ کے لواحقین کو ادا کیے جائیںگے۔ پانچ ہزار میں سے پندرہ سو روپے غالب اور اس کے بھائی اور پندرہ سو نصراللہ کی ماں کا حصہ تھا جبکہ دو ہزار روپے دور دراز کے ایک رشتہ دار خواجہ حاجی کو ملنے تھے۔
جب یہ انتظامات ہو رہے تھے، غالب کا لڑکپن تھا۔ بیس بعد دلی میں غالب کی حالت پتلی ہوچکی تھی۔ وہ اپنی زندگی کے معیار پرکمپرومائز کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اچھی خوراک، اچھا لباس اور رہن سہن۔ اچھی شراب بھی ان کی کمزوری تھی۔ اس دوران میں نواب احمد بخش بوڑھے ہوکر ریٹائر ہوگئے تھے۔ ان کی جگہ نئے نواب کے غالب کے ساتھ اچھے تعلقات نہ تھے۔غالب کو اندیشہ لاحق ہوا کہ انہیں 1806ء میں لارڈ لیک کے انتظامات کی وجہ سے جو پیسے مل رہے تھے کہیں بند نہ ہوجائیں۔ قرضہ خواہوں کا اصرار بڑھا تو غالب کے ذہن میں خیال آیا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ لارڈ لیک نے دس ہزار روپے منظور کیے تھے اور ان سب کو پانچ ہزار روپے دیے گئے تھے۔ خواجہ حاجی کو دو ہزار روپے مل رہے تھے۔ چلیں ان کی زندگی تک ٹھیک تھا لیکن موت کے بعد وہ دو ہزار روپے اس کے بیٹے کو کیوں مل رہے تھے۔ غالب کا خیال تھا ،اگر وہ فرنگی سرکار کے ہاں یہ مقدمہ لڑیں تو انہیں پچھلے سالوں کے بقیہ جات مل جائیں گے۔ پانچ ہزارکی بجائے دس ہزار روپے کا حساب ہوگا اور خواجہ حاجی کی موت کے بعد دو ہزار روپے بھی انہی کو ملنے چاہئیں۔
غالب کے مطابق اس طرح انہیں ڈیرھ لاکھ روپے مل سکتے تھے۔ غالب نے ہمیشہ نواب احمد بخش کا احترام کیا تھا، لہٰذا جب تک معاملات ان کے پاس تھے کبھی شکوہ نہ کیا۔ نواب احمد بخش رقم کے علاوہ غالب کو بہت تحائف بھی بھیجتے رہتے تھے جو سالانہ وظیفے سے بھی بعض دفعہ زیادہ مالیت کے ہوتے تھے؛ تاہم اب ریٹائر ہونے کے بعد حالات بدل گئے تھے اور غالب نے مقدمہ لڑنے کی ٹھانی۔ جب غالب کلکتہ سے مقدمہ ہارنے کے بعد دلی لوٹے تو دل گرفتہ تھے۔ حالات بہت خراب ہو چکے تھے۔ پچاس ہزار روپے کے قریب قرض ان پر چڑھ گیا تھا۔ سمجھ نہیں آرہی تھی رقم کا بندوبست کہاں سے کیاجائے؟ ایک طرف خاندانی وقار اور جاہ و جلال کا خیال تو دوسری طرف قرض خواہوں کا بڑھتا ہوا اصرار۔ قرض خواہ اب تک اس وجہ سے چپ تھے کہ دلی میں غالب کا بہت بڑا نام تھا اورانہیں یہ توقع بھی تھی کہ شاید وہ مقدمہ جیت کر لوٹیں گے اور ان کا قرض واپس ہوجائے گا۔
دلی خالی ہاتھ واپسی سے سب کی امیدیں ٹوٹ گئیں۔ اب غالب کیا کریں۔ ترک زادہ کس دروازے پر دستک دے۔ تیموری عزت خطرے میں تھی۔ غالب سے زیادہ بری حالت ان ساہو کاروں کی تھی جنہوں نے قرضہ دے رکھا تھا اور کلکتہ سے اچھی خبر سننے کے انتظار میں تھے۔ آخر غالب پر یہ سوچ غالب آنے لگی کہ انہیں بھی دستور زمانہ کے مطابق کسی ہندوستانی نواب کے ہاں ملازمت کرلینی چاہیے۔کسی نواب کا درباری بن جانا چاہیے۔ کسی نواب کا درباری بننے میں حرج نہیں تھا لیکن غالب اپنے آپ کو قائل نہ کرسکے کہ کسی نواب کے دربار میں ہاتھ باندھے، گردن جھکائے گھنٹوں سر ہلاتے اور نواب کے گن گاتے رہیں۔ غالب کو کسی نواب کا درباری بننا اپنے خاندانی وقار کے خلاف محسوس ہو رہا تھا۔ ایک جنگجو ترک باپ کا بیٹا جو میدان جنگ میں گولی کھا کر مرا تھا، کیسے کسی نواب کی نوکری کرے!
یوں غالب کی فاقہ کشی جاری رہی۔ عزت اور انا ان پر حاوی ہوگئی۔ غالب کو پتا تھا کہ ان کی عزت خطرے میں ہے۔ دو ساہوکاروں نے تو مقدمہ کر کے پانچ ہزار روپے ادائیگی کا فیصلہ بھی غالب کے خلاف لے لیا تھا۔ غالب کے پاس پیسے نہ تھے۔ قانون کے تحت جس کے پاس ڈگری تھی وہ انہیں گرفتارکراکے جیل بھجوا سکتا تھا؛ تاہم اس دور کے ایک قانون کے تحت دلی کی اہم شخصیتوں کو ان کے گھر کے اندر سے گرفتار نہیں کیا جاسکتا تھا، اس لیے غالب اب گھر سے نہیں نکلتے تھے کہ کہیں گرفتار نہ ہو جائیں۔ رات ڈھلنے کا انتظار کرتے پھر دوستوں سے ملنے جاتے۔
ایک دن غالب نے دوست کو لکھا: چار ماہ گزر گئے، میں گھر کے اندر قید ہوں۔کسی دوست سے نہیں ملتا۔ گھر میں ایک قیدی کی طرح کھاتا پیتا اور سوتا ہوں۔ مجھے شدید ذلت کا احساس ہوا جب دو ساہوکاروں نے عدالت سے ڈگری لے لی۔ قانون کہتا ہے یا تو قرضہ دو یا پھر جیل جائو۔ اس میں امیر غریب سب کے لیے برابر قانون ہے، تاہم اہم شخصیتوں کے ساتھ قانون یہ رعایت کرتا ہے کہ عدالتی بیلف ان کے گھر چھاپا نہیں مارتا اور ملزم کوگھر سے گرفتار نہیںکیا جا سکتا۔ ہاں وہ گھر کے باہر کہیں پھرتا نظر آجائے تو گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ میرے پاس پیسے نہیں ہیں، اس لیے اپنی عزت بچانے کے لیے ہر وقت گھر میں رہتا ہوں۔ اب تو کسی دوست اور اجنبی سے بھی نہیں ملتا۔ میری اپنی عزت اور انا کے احساس کے ہاتھوں خود کو ہی اپنے گھر میں قیدکر رکھا ہے۔ خدا بیڑہ غرق کرے اس کا جس نے دلی کے ریذیڈنٹ ولیم فریزر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ میں کبھی کبھار رات گئے ایک الو کی طرح اپنے گھر کے کونے سے چھپ چھپا کر اپنے اس مجسٹریٹ دوست سے رات کے کچھ لحمے گزارنے چلاجاتا تھا۔ وہ بھی اب نہیں رہا۔
اس دوران غالب کے دوست ناسخ نے غالب کو لکھا، وہ حیدرآباد دکن چلے جائیں جہاں مہاراجہ چندو لال ادیبوں اور شاعروںکا بڑا خیال رکھتا ہے۔ اس پر غالب نے ناسخ کو لکھا، پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ اپنے ساہوکاروں کا قرض ادا کیے بغیر دلی نہیں چھوڑ سکتے۔ دوسرے مہاراجہ انہیںکیوں گھاس ڈالے گا کیونکہ وہ اسے نہیں جانتا اور نہ ہی ان کی شاعری سے وہ واقف ہے اور پھر وہاں قتیل فارسی شاہ نذیرکو اردو پر اتھارٹی سجھا جاتا ہے، وہاں غالب اور ناسخ کو کون گھاس ڈالے گا؟
اس دوران ہندوستانی حکومت کے سیکرٹری جیمز تھامسن نے دلی کالج کا دورہ کیا تو اسے لگا فارسی پڑھانے کا بندوبست مناسب نہ تھا۔ اس نے فیصلہ کیا فارسی ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ کسی اہم لٹریری شخصیت کو لگایا جائے۔ مفتی صدرالدین نے تین نام پیش کیے جنہیں فارسی پر اتھارٹی مانا جاتا تھا۔ مرزا اسداللہ غالب، حکیم مومن خان مومن اور شیخ امام بخش صہبائی۔ جیمز تھامسن نے غالب کے نام کی منظوری دی اور انہیں انٹرویو کے لیے بلوایا۔ غالب ایک پالکی میں ملنے گئے اور اس میں بیٹھ کر انتظار کرتے رہے کہ جیمز باہر نکل کر ان کا استقبال کرے اوراندر لے جائے۔ جیمز نے اپنے ماتحت کو بھیجا، پتا کرو غالب کو اندر آنے میں دیر کیوں ہو رہی ہے۔ ماتحت نے جا کر جیمزکو بتایا کہ آپ نے باہر نکل کر غالب کا استقبال نہیں کیا جو روایت ہے، اس لیے وہ اندر نہیں آئے۔
یہ سن کر سر جیمز باہر آیا اور غالب کو کہا کیونکہ اب کی دفعہ وہ نوکری لینے آئے ہیں نہ کہ دلی کے شرفاء کی حیثت سے میرے گھرکسی دعوت میں، لہٰذا ہندوستان حکومت کا سیکرٹری باہر نکل کا استقبال نہیں کرسکتا۔ یہ خلاف قانون ہے۔ اس پر ترک زادے نے جواب دیا: میں فرنگی سرکار کی نوکری اس لیے چاہتا ہوں تاکہ اپنے خاندانی وقارکو برقرار رکھ سکوں نہ کہ اسے مزید برباد کروں۔ یہ کہہ کر غالب نے جیمز کی طرف اپنی پیٹھ موڑی اور پالکی والوں کو کہا اسے واپس گھر لے جائو۔۔۔!
چند دن بعد اردو شاعری کا بڑا نام کوٹلہ فیروزکے قریب ایک جیل میں قرض واپس نہ کرنے کے الزام میں قید تھا۔ غالب نے قید قبول کرلی لیکن اپنے تئیں اپنی عزت ، وقار اور انا کا سودا کر کے کسی نواب یا ہندوستانی سرکارکی نوکری قبول نہ کی تھی!
(تقریبا دوسوسال پرانی یہ کہانی جنرل مشرف کی طرف سے سعودی بادشاہ سے ایک ارب روپے لینے اور نواز شریف کے بچوں کے حق میں قطری شہزادے کے سپریم کورٹ میں پیش کے گئے خط سے متاثر ہوکر لکھی گئی۔)