قمر زمان کائرہ کو وسطی پنجاب کا صدر بنا کر پیپلز پارٹی نے ایک درست فیصلہ کیا ہے اور اس طرح لگتا ہے کہ پنجاب میں بھی ‘ جو کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ اور گھر ہوا کرتا تھا، یہ جماعت پر پرزے نکالنے میں کامیاب ہو سکتی ہے اور بلاول نے یہاں پر میدان میں نکل کر ایک طرح سے اس کا آغاز بھی کر دیا ہے؛ اگرچہ پلوں پر سے بہت سا پانی گزر چکا ہے اور پارٹی کے لیے یہاں دوبارہ اپنا مقام حاصل کر لینا ایسی آسان بات نظر نہیں آتی کیونکہ نواز لیگ سے جو لوگ بد دل ہو چکے تھے ان میں سے زیادہ تر اور خصوصاً نوجوان طبقہ عمران خان کے گھاٹ اُتر چکا ہے جبکہ پارٹی کے زوال میں سب سے زیادہ حصہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خواہ مخواہ کی پنگے بازی تھی جس کا سارا کریڈٹ آصف علی زرداری کو جاتا ہے اور جس کا ازالہ بجائے خود کوئی آسان کام نہیں ہے۔
بلاول کو دوسرا بھٹو بنانے کی کوششیں بھی تسلیم‘ لیکن اس کی راہ میں جو رکاوٹیں اور جو بہت بڑی کمیاں ہیں‘ وہ کیونکر دور ہوں گی۔ اکیلا بھٹو کچھ نہیں تھا بلکہ اسے بھٹو بنانے والے ڈاکٹر مبشر حسن‘ جے اے رحیم، حنیف رامے‘ شیخ رشید‘ معراج محمد خان اور کئی دوسرے تھے جو سراسر بائیں بازو کے آدمی تھے اور انہی کی حکمت عملی اور دیے ہوئے نعروں نے آن کی آن میں عوام کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا ورنہ چند روز ہی پہلے تو وہ ایوب خان کا وزیر خارجہ اور اُسے ڈیڈی کہا کرتا تھا۔
سو‘ پہلی رکاوٹ تو یہ ہے کہ اس پارٹی میں اب کوئی بھی لیفٹ کا آدمی نہیں ہے جو کوئی اہمیت رکھتا ہو اور اگر اس کا کوئی تھنک ٹینک ہے تو وہ بھی بائیں بازو سے سراسر محروم ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک میں صحیح معنوں میں کوئی لیفٹ کی پارٹی ہے ہی نہیں‘ یعنی نواز لیگ اور تحریک انصاف جو خود دائیں بازو سے تعلق رکھتی ہیں‘ پیپلز پارٹی ان حالات میں اس وقت تک کوئی شناخت یا انفرادیت حاصل نہیں کر سکتی جب تک کہ یہ بھی اُسی یعنی دائیں بازو سے منسلک رہتی ہے کیونکہ اس کے پاس کوئی نعرہ ہی نہیں ہو گا جو عوام کو اپنی جانب راغب کر سکے۔ روٹی کپڑا اور مکان ہی ایک ایسا طلسماتی نعرہ تھا جس نے نہ صرف اپنا کام کر دکھایا بلکہ پارٹی کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا اور یہی نعرہ پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں ایک قصّہ پارینہ بلکہ مذاق بن کر رہ گیا تھا۔
بائیں بازو سے منسلک ہونے کا مطلب کمیونزم ہرگز نہیں اور نہ ہی مندرجہ بالا حضرات میں سے کوئی کمیونسٹ تھا بلکہ اس کا مقصد صرف عوام کے قریب ہونا ہے‘ خاص طور پر ہاریوں‘ مزارعوں اور مزدور پیشہ طبقے سے موانست ‘ جو اب تک محروم چلے آ رہے ہیں۔ رونے کا مقام تو یہ ہے کہ سابقوں میں سے صرف ڈاکٹر مبشر حسن ہی حیات ہیں لیکن پارٹی قیادت نے ان کے ساتھ کبھی علیک سلیک کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی‘ پارٹی کو دوبارہ سرفراز کرنے کی دعوت دینا تو دُور کی بات ہے۔ حتیٰ کہ ان کے علاوہ بھی اس کردار کے لوگ کہیں کہیں موجود ہیں جو یا تو بد دل ہو کر خود ہی پیچھے ہٹ گئے یا پارٹی نے انہیں بُری طرح نظر انداز کر دیا۔ لطف یہ ہے کہ بینظیر بھٹو کے قریب رہنے والوں میں سے بھی اب کوئی پارٹی میں دکھائی نہیں دیتا۔
ان حالات میں سب سے پہلے تو پارٹی کو اپنا سیاسی قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے کہ ان گم شدہ لوگوں کی طرف رجوع کرے جو اسے صحیح معنوں میں ایک عوامی پارٹی بننے میں مدد دے سکیں۔ واضح رہے کہ نواز لیگ کے پاس کوئی عوامی اپروچ نہیں ہے‘ بلکہ وہ اپنی چالبازیوں اور تجربے کی بناء پر سب سے آگے نظر آتی ہے؛ حالانکہ کرپشن کا اتنا دور دورہ ہے کہ لوگ پیپلز پارٹی کی کرپشن کو بھول گئے ہیں‘ لیکن انہیں کوئی دوسرا راستہ نظر ہی نہیں آتا۔ ورنہ اس جماعت اور اس کے حکمرانوں نے ملک کی جو حالت کر رکھی ہے، متبادل اور معقول قیادت نظر آئے تو لوگ کبھی اس کے پاس بھی نہ پھٹکیں۔
اس کے بعد نئی قیادت کے لیے ازبس ضروری ہے کہ بدنام زمانہ انکلوں سے اپنے آپ کو مناسب فاصلے پر رکھے اگر ان سے گلو خلاصی نہیں بھی کر سکتی ‘ کیونکہ اگر بلاول نیا اور تازہ دم ہے تو اس کے مصاحبین بھی ایسے ہی ہونا چاہئیں۔ بلاول کو اردو نہیں آتی‘ ٹھیک ہے‘ لیکن بھٹو کو کون سی اردو آتی تھی‘ اس نے بھی سیکھی اور ایک شعلہ بیان مقرر بن کر ابھرا کیونکہ اسے اردو سکھانے والے دستیاب تھے‘ جبکہ سب سے زیادہ ضرورت اس تاثر کو ممکنہ حد تک زائل کرنے کی کوشش کرنے کی ہے کہ پارٹی کی اصل باگ ڈور آصف علی زرداری کے ہاتھ میں ہے کیونکہ جب تک یہ نہیں ہو گا پارٹی کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا خواب بس خواب ہی رہے گا کیونکہ جب تک یہ آسیب اس کے سر پر سوار ہے وہ ایک قدم بھی آگے نہیں جا سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے دفاتر سے زرداری کی تصاویر ہٹا دے اور اشتہارات میں بھی اس کی تصویر کو غائب کر دے‘ بلکہ بلاول بھٹو زرداری کہلانے کی بجائے آئندہ صرف بلاول بھٹو کہلانے پر اکتفا کرے۔ زرداری بلاول کا باپ پھر بھی رہے گا لیکن اپنی سیاست سے اسے منہا کرے‘ اگر وہ سیاست کرنا چاہتا ہے۔ اور جہاں تک اس کی اُردو کا تعلق ہے تو وہ بھی رفتہ رفتہ آ جائے گی کہ ویسے بھی بقول شاعر ع
کہ آتی ہے اُردو زباں آتے آتے
بلاول کی شکل و صورت بھی بینظیر سے بہت مشابہ ہے اور تقریر کرنے کا انداز بھی اپنے نانا کی طرح کا ہے لیکن وہ اگر عوام کو اپنی طرف راغب کر سکتا ہے تو بینظیر کا بیٹا بن کر، زرداری کا بیٹا بن کر نہیں؛ چنانچہ اگر زرداری کو اس کے ساتھ ذرا سی بھی ہمدردی ہے تو خود ہی اس سے فاصلہ اختیار کر لے اور اسے آزادانہ کام کرنے دے۔ بیشک وہ غلطیاں بھی کرے گا لیکن ان غلطیوں سے سیکھے گا بھی بہت کچھ‘ جہاں تک زرداری کا تعلق ہے تو وہ اپنا حصہ اور باری لے چکے ہیں کیونکہ ایک با اختیار صدر پاکستان ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے جس کے مزے وہ اٹھا چکے ہیں۔
سو‘ نواز لیگ اور پی ٹی آئی کے ہوتے ہوئے بھی یہاں پیپلز پارٹی کی زبردست گنجائش اب بھی موجود ہے بشرطیکہ بلاول کو نہ صرف خود اعتمادی سے کام اور فیصلے کرنے کا موقع دیا جائے بلکہ ایسا ہوتا نظر بھی آئے اور بلاول ان دونوں پارٹیوں سے مختلف ہو کر ہی آگے بڑھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ اپنے پائوں کی وہ زنجیریں کاٹ ڈالنے میں کامیاب ہو جائے جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے کہ اس طرح یقینی طور پر اس پارٹی کا احیاء ہو سکتا ہے ورنہ نہیں‘ کبھی نہیں!
آج کا مقطع
کسی کے دل میں جگہ مل گئی ہے تھوڑی سی
سو‘ کچھ دنوں سے ظفر گوشہ گیر ہو گئے ہیں