کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف گولہ باری روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ اب شاید ہی کوئی دن گزرتا ہو‘جب پاکستانی اور بھارتی کسانوں پر گولے نہ برسائے جاتے ہوں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ‘ ان حملوں میں شدت بڑھتی جا رہی ہے۔ لائن آف کنٹرول کے علاوہ اب دونوں ملکوں کے شہری بھی تواتر سے نشانہ بننے لگے ہیں۔ دونوں اطراف کے دیہاتی اپنی آبادیوں سے بے گھر ہونے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ اس قسم کی کارروائیوں کا نہ کوئی ذمہ دار ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی حکومت بے گناہ اور نہتے شہریوں پر حملوں کو تسلیم کرتی ہے۔ بھارت نے کافی عرصہ پہلے سے پاکستان کے کسانوں اور زمینداروں کی فصلیں تباہ کرنے کا سلسلہ شر وع کر رکھا ہے، لیکن گزشتہ دس بارہ ہفتوں سے یہ قاتلانہ حملے معمول بن چکے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق‘ بھارتی فوج نے وادی نیلم میں ایک مسافر بس کو نشانہ بنایا‘ جس میں مجموعی طور پر گیارہ بے گناہ افراد شہید ہوئے جبکہ اٹھارہ کے قریب شدید زخمی ہوئے۔ ایس ایس پی نیلم کے مطابق ان حملوں کے علاوہ بھارتی فوج نے لالہ اور راوٹہ کے قریب بھی گولہ باری کی ہے۔ واقعے کے بعد تعلیمی ادارے غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دیے گئے ہیں۔ بھارت کی ان کارروائیوں کے حوالے سے سپیکر قانون ساز اسمبلی مظفر آباد‘ شاہ غلام قادر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ مسافر وین کو راکٹ اور چھوٹے ہتھیاروں سے نشانہ بنایا گیا۔ ان اندھا دھند کارروائیوں میں ایک ایمبولینس کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ وزیراعظم آزاد کشمیر ‘فاروق حیدر نے بھارتی فوج کی جانب سے مسافر بسوں کو نشانہ بنانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی فوج‘ معصوم شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ مسافربس کونشانہ بنانا بھارتی فوج کی دہشت گردی کا کھلا ثبوت ہے‘ عالمی برادری بھارتی فوج کی جارحیت کانوٹس لے۔ آئی ایس پی آرکے مطابق بھارتی فوج کی جانب سے بٹل‘ کریلہ‘ شاہ کوٹ ‘ باگسر اور تتہ پانی سیکٹرز پر بلا اشتعال فائرنگ کی گئی جس میں بھارتی فوج نے مارٹرگولوں سے مقامی آبادی کو نشانہ بنایا جبکہ پاک فوج نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے دشمن کی چوکیوں کو نشانہ بنایا‘ جس کے نتیجے میں کئی اہم بھارتی چوکیاں تباہ ہوئیں اور اسے شدید جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ واضح رہے کہ بھارتی فوج کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر‘ سیز فائر معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی جاری ہے جس کے نتیجے میں اب تک خواتین ‘ بزرگوں اور بچوں سمیت درجنوں افراد شہید ہو چکے ہیں۔
روز مرہ کی فائرنگ کے نتیجے میں دونوں طرف کی دیہی آبادی‘ اپنی فصلوں اور گھروں کو چھوڑ کر خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ پاکستان اپنے داخلی سیاسی عدم استحکام اور حکمرانوں کو لاحق پریشانیوں کے باعث ایسی منظم جارحانہ کارروائیوں میں پہل نہیں کر سکتا۔ موجودہ حکومت بھارت کے ساتھ امن کی پالیسی جاری رکھنے کی خواہش مند ہے لیکن بھارت کسی طویل مدتی جارحانہ منصوبے کے مطابق ‘سرحدی کشیدگی کو طول دینے پر مصر ہے۔ یہ مسلسل اشتعال انگیزی‘ مودی حکومت کے کسی طے شدہ منصوبے کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ بی جے پی کے انتہا پسند رہنمائوں کی مسلم دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ مودی نے جس طرح گجرات میں اپنی وزارت
اعلیٰ کے دوران‘ سرکاری طور پر مسلم دشمنی کے مرحلہ وار اقدامات کئے‘ انہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ بھارتی میڈیا پوری تفصیل کے ساتھ گجرات میں مسلمانوں کا خون بہانے کے واقعات دکھا چکا ہے۔ وہاں کی پولیس جو عام شہریوں کی حفاظت کی ذمہ دارتھی‘اسے ایک سازش کے تحت‘ قاتلوں اور بلوائیوں کی جنونی کارروائیوں کی مشینری میں بدل کر استعمال کیا گیا۔ پولیس کے جن اعلیٰ افسروں تک مودی کی شنوائی تھی‘ انہیں خفیہ بریفنگز میں احکامات دیے گئے کہ شرپسندوں کو کس طرح مسلمان آبادیوں پر حملوں کے لئے منظم کیا جائے؟ ہندو جنونیوں نے طویل تجربوں کی روشنی میں جو مخصوص حربے مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے آزمائے تھے‘ گجرات میں پوری آزادی سے ان کا استعمال کی کیا گیا۔ بی جے پی نے اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں جو سیاسی طرزعمل اختیار کرکے کامیابی حاصل کی تھی‘ وہ سب کچھ خاک میں مل گیا۔ مودی نے گجرات کی تجربہ گاہ میں جو سبق حاصل کیا‘ اسے بھارت کے گزشتہ عام انتخابا ت میں بڑی مہارت سے استعمال کیا۔ بھارت کے متعصب سرمایہ دار طبقے ‘جو نسل در نسل مسلمانوں کا استحصال کرتے آرہے تھے‘ انہیں پہلی مرتبہ مسلم دشمن پالیسیوں پر عمل کرنے کی آزادی ملی۔ بھارتی میڈیا نے مودی کا پورا ساتھ دیا۔ اگر آپ مودی کے دور حکمرانی کے حالیہ عرصے کا جائزہ لیں تو آسانی سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ان کے دور حکومت میں مسلمانوں کو اپنا ہدف بنا کر کس طرح کاروبار اور روزگار سے بے دخل کر کے کمزور اور بے وسیلہ قوم کی حیثیت دی جا رہی ہے؟
بھارت میں متعصب ہندو ئوں نے طویل مدت تک نازیوں کی طرز پر اپنی قوم کو منظم کیا تھا‘ اب اس پر عمل درآمد کرنے کے لئے ماحول سازگار دکھائی دے رہا ہے۔گزشتہ چند ہفتوں کے دوران‘ جتنی تیزی سے ہندو کی روایتی تنگ نظری کے مظاہرے دیکھنے میں آئے‘ ماضی میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں۔ بال ٹھاکرے نے اپنی فاشسٹ تنظیم کے ذریعے‘ ایک تنگ نظر سیاسی گروہ ضرور تیار کیا تھا‘ جس نے مہاراشٹرا میں مسلمانوں اور خصوصاً غریب اور محنت کش بہاریوں کے خلاف وحشیانہ کارروائیاں کی تھیں‘ وہ قصہ پارینہ بن چکی تھیں، لیکن اب مرکزی حکومت پر مودی نے اپنے ہم خیال انتہا پسندوں کو جمع کر کے‘ آئندہ کے منصوبے بنانے شروع کر دیے ہیں۔ امریکہ میں حالیہ انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد ‘مسلم دشمنی کی جو مہم شروع کی جا رہی ہے‘ وہ مودی اور ان کے انتہا پسند حامیوں کے لئے غیبی امداد ثابت ہو رہی ہے۔ ٹرمپ اپنے حکومتی عہدیداروں کا انتخاب کرتے ہوئے چن چن کر ایسے لوگوں کو آگے لا رہا ہے‘ جو ایک عقیدے کی طرح مسلم دشمنی پر یقین رکھتے ہوں۔ لیکن امریکی ایک آزاد خیال قوم ہیں۔ وہ آزادی فکر و نظر کے نہ صرف حامی ہیں بلکہ دو صدیوں سے اسی آزاد خیالی کی راہ پر چلتے نظر آرہے ہیں۔ ہر چند ٹرمپ کے بھارتی پیروکار‘ اپنے ہم خیال کی غیر متوقع کامیابی پر‘ غیر معمولی توقعات لگا ئے بیٹھے ہیں لیکن امریکی عوام کے اندر جو رد عمل پیدا ہو رہا ہے‘ وہ قابل دید ہے۔ دو صدیوں کی آزاد خیالی اور شہری حقوق کا وسیع تجربہ‘ ٹرمپ کو تنگ نظری کے دائرے سے نکلنے پر مجبور کر دے گا۔ طویل جمہوری تجربے سے شہری آزادیوں کی جو روایات‘ امریکیوں کی زندگی کا اب حصہ بن چکی ہیں‘ انہیں ترک کرنا آسان نہیں ہو گا۔ سب سے شدید رد عمل سیاہ فام امریکیوں کی طرف سے سامنے آ رہا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ نے انسانی آزادیوں کی جس طاقتور روایت کو جنم دیا‘ اسے امریکہ میں اب کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ رنگ و نسل پر مبنی سیاست کے لئے امریکہ میں اب کوئی جگہ نہیں۔ اگر انتہا پسند ہندو سیاست دانوں نے اپنے فرسودہ نظریات کے لئے امریکہ سے مدد لینا چاہی تو انہیں بری طرح پسپا ہونا پڑے گا۔ ممکن ہے کہ انسانی حقوق کے جو نظریات‘ ٹرمپ کی سیاسی کامیابی کے نتیجے میں ابھرنے لگے ہیں‘ ان کا ردعمل سامنے آنا شروع ہو جائے اور ایسا ہو چکا ہے۔ متعصب ہندو سیاست دان جو امریکہ کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں‘ انہیں جلد ہی سمجھ آجائے گی کہ صدیوں پرانے فرسودہ نظریات‘ آج کے دور میں پھر سے پروان نہیں چڑھائے جا سکتے۔