تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     24-11-2016

محتاج

جہاں تک لکھنے والے کا تعلق ہے ، چینی مفکر کا قول ہی مجھے قولِ فیصل لگتاہے : اس کی اپنی مرضی ہے، بادشاہ بنے یا بھکاری ۔
رئوف کلاسرا کے کالم نے دل کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ڈرتے ڈرتے ایک پیغام انہیں بھیجا ۔ ازراہِ کرم میری بات انہوں نے مان لی اور پوری خوش دلی کے ساتھ۔ اس کا ذکر آخر میں ۔ وہی ایک نکتہ: قاری کے وقت پر لکھنے والے کا کوئی حق نہیں ۔ استحقاق پڑھنے والے کا ہوتاہے ۔ عارف سے عرض کیا: اخبار نویس کو کیا کرنا چاہیے ؟ فرمایا: اقتدار کی طرف پیٹھ اور خلق کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو جائے اور کھڑا رہے ۔
جولائی 2012ء میں کالم نگاروں کے انتخاب کی ذمہ داری سونپی گئی تو یہ بات ذہن میں تھی ۔ سب سے پہلے جناب اظہار الحق سے گزارش کی ۔ دل شاد ہے کہ تمام تر توقعات سے بڑھ کر نکلے۔ خالد مسعود خان کا میں قائل تھا۔ کلاسرا کا کچھ زیادہ نہیں ۔ رفتہ رفتہ انہوں نے قارئین کے دل میں گھر بنالیا۔ اپنے ہم عصروں کے محاسن پر آدمی کم ہی غور کرتاہے ۔ ان میں سے کئی ایک کو ناچیز خود سے بہتر پاتا ہے ۔ معلومات میں ، اندازِ تحریر میں ۔ اظہارالحق حیران کیے رکھتے ہیں ۔ اگر تھوڑی سی زیادہ توجہ سیاست کو دیں ۔
اپنی اہلیہ کی وفات کے بعد ، ان کے حوالے سے خالد مسعود خاں نے جو کالم لکھے ہیں ،اگر چھاپ دئیے جائیں تو مدتوں باقی رہیں گے ۔ ایک قرینہ یہ ہو سکتاہے کہ مزاحیہ الگ، سفر نامہ نگاری الگ اور یہ کالم تیسرا باب ہو جائے ۔ خالد مسعود کا ایک چوتھا رنگ بھی ہے ۔ سرکار دربارکے بارے میں ، جب وہ لکھتے ہیں تو قلم توڑ دیتے ہیں ۔ بے رحمی کی حد تک صداقت شعاری ۔
اپنے جھونپڑے سے بھی آدمی کو محبت ہوتی ہے ، اپنے ہاتھ سے اس نے جوتعمیر کیا ہو ۔ دنیاکاادارتی صفحہ تو ایک بو قلموں کائنات ہے ، جس کی تعمیر میں ایک ذرا سا حصہ ڈالنے کا موقعہ اللہ نے دیا ۔ حفیظ ؔ ایسا نہیں ؎
تشکیل و تکمیلِ فن میں جو بھی حفیظؔ کا حصہ ہے
نصف صدی کا قصہ ہے ، دو چار برس کی بات نہیں
میری تجویز یہ تھی : اخباری ادارے کے ستون ہوتے ہیں ۔ ایڈیٹر، میگزین ایڈیٹر ، چیف رپورٹر اور کالم نگار۔ ان سب کا انتخاب ایک کمیٹی کرے ۔ ایڈیٹر چن لیے گئے تھے اور نیوز ایڈیٹر بھی ۔ میگزین ایڈیٹر عامر ہاشم خاکوانی کا نام تجویز کیا۔ جی خوش کر دیا انہوں نے ۔ ریاضت کے ساتھ بے تعصبی ہے اور اس سے زیادہ انکسار۔ ایڈیٹر ندیم نثار اکثر مدیرانِ گرامی سے زیادہ با خبر آدمی ہیں ۔ ترازو ان کے ہاتھ میں کانپتی نہیں ۔
ارشاد عارف بعدمیں آئے ۔ باقاعدہ کالم نگاری کاآغاز اگرچہ برسوں پہلے نوائے وقت ایسے (تب) جیّد اخبار سے کیا تھا مگر چمکے یہاں ۔ آزادی میں جوہر کھلتا ہے ۔ آزادی اور ڈسپلن میں ۔ آزادی بڑھ جائے تو انارکی اور انتشار۔ ڈسپلن کا شکنجہ سخت ہو جائے تو بے دلی اور بے زاری ۔ تازہ خیالی تحلیل ہو جاتی ہے ۔ تازہ خیالی تمام،جیسے تازہ ہوا شاہراہوں سے غائب ہو جاتی ہے اور نواحِ شہر میں جا بستی ہے ۔
سینکڑوں آدمیوں سے بھرا پڑا ایک دفتر باغ یا کھیت کھلیان نہیں ہوسکتا لیکن اسے بسوں کا اڈہ بھی نہیں ہونا چاہئیے ۔ جیل خانہ یا تھانہ بھی نہیں ۔ دنیاکا ادارتی صفحہ اردو اخبارات میں اگر سب سے بہتر ہے تو اس کی وجہ آزادی ہے ، جتنی شاید ہی کہیں اور ہو ۔
ایک میڈیا گروپ اور قومی افواج میں شکر رنجی بڑھ کر تصادم ہو گئی تو اجلاس بلایا گیا۔ میری رائے طلب کی گئی تو عرض کیا: میں تو فریق بن چکا ، دوسروں کی آرا زیادہ اہم ہیں ۔ اصول واضح کر دیا گیا : قومی اور کاروباری ادارے برابر نہیں ہو سکتے ۔ سبھی نے بات کی اور کھل کر ۔ خاکسار نے عرض کیا: عظیم اکثریت گودل و جان سے قائل ہے مگر دوسرا نقطہ ء نظر بھی چھپتے رہنا چاہئیے ۔
صحافت کا وصف یہی ہے ۔ مختلف آرا خوش دلی کے ساتھ ۔ پسند اور ناپسند سے آدمی ہمیشہ اوپر نہیں اٹھ سکتا۔ تعصبات سے رہائی صوفیوں کا وصف ہے ۔عامیوں، علمائِ کرام ، لیڈروں اور اخبار نویسوں کا نہیں ۔ اتنی ہی بڑی سچائی یہ ہے کہ میڈیا تنوّع ہی میں پھلتا ہے ۔ اسی میں پروردگارِ عالم نے زندگی کو پیدا اور برپا کیا ہے۔ تنوع اور کشمکش میں ۔ ڈھنگ کا ہر اخبار نویس حکومت سے بیزار ہوتاہے ،تمام خلقِ خدا کی طرح ۔ اس لیے بھی کہ لوگوں کو اپنے حکمرانوں سے نفرت ہو اکرتی ہے ۔ اس لیے بھی کہ اس سرزمین کی اشرافیہ سیاہ کار ہے مگر دربار کی اپنی ایک غیر معمولی قوت ہوتی ہے ۔ مقناطیس کی طرح جو لوہے کے ذرات کو کھینچ لیتا ہے ۔ غلبے کی جبلت اخبار نویس کو دربار داری پہ مائل کرتی ہے ، تحفظ کی خواہش اس سے بھی زیادہ۔ کس طرح انسانی جبلتیں آدمی کو کھینچے لیے پھرتی ہیں ، اکثر خود اسے ادراک نہیں ہوتا۔ درہم و دینار، شہرت و مقبولیت اور انا پروری ۔ آدمی ایک پیچیدہ مخلوق ہے ۔
حرف مطبوعہ یا ٹی وی تھوڑی یا زیادہ مقبولیت بخش دیتاہے ، ظاہر ہے کہ اخبار نویس بھی عام آدمی ہوتاہے ۔ اگر وہ عام آدمی نہ رہے ،خاص ہو جائے تو اس کے پائوں زمین پر نہیں رہتے ۔ تعصبات کی شدت میں ، خود تنقیدی سے محروم ہو کر خود شکنی کی دنیا میں وہ داخل ہوتاہے ۔ پاکستان کے صحافتی کارزار میں کیسے کیسے دیوتا تھے، رفتہ رفتہ جو بونے ہو گئے ۔ حیرت ہوتی ہے کہ کوئی عبرت حاصل نہیں کرتا ؎
بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے دلی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دین
سب سے پہلے حضرت اظہار الحق کا کالم پڑھتا ہوں ، پھر جناب نذیر ناجی اور ارشاد عارف کا۔ کلاسرہ اور خالد مسعود خان کو گاہے کچھ دیر بعد کے لیے اٹھا رکھتا ہوں ۔اس اثنا میں ایک انگریزی اخبار ،جس کا عادی ہوں ۔ بہک گیا ہے مگر رپورٹنگ کا معیار اب بھی بہت بہتر ۔ میرے لیے اس کا مطالعہ ہی میڈیا کا مطالعہ ہے ؛اگرچہ اس کے اوّل صفحے اور ادارتی تبصرے کو احتیاط سے دیکھنا پڑتاہے ۔ ذہن میں کہیں زہر ہی انڈیل نہ دے ۔ بعض اخبارات کا مطالعہ تقریباً ترک کر دیا ہے اور بعض لکھنے والوں کا بھی ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ جن کا ذکر نہیں کیا، خدانخواستہ وہ ناپسندیدہ ہیں ۔ حسین بن منصور حلاج سے منسوب یہ ہے : ایک بار جو آدمی دربار میں بیٹھ جائے، عمر بھر وہ کھڑا نہیں ہو سکتا۔ ایسے کی شخصیت ہی نہیں ہو سکتی ، رائے کیا۔
اللہ انہیں صحتِ کاملہ دے ،جنگجو نے اپنی تلوار اگرچہ ہمیشہ بے نیام رکھی ۔ جناب نذیر ناجی نے اپنے بہترین کالم گذشتہ چاربرس کے دوران لکھے۔ کنور دلشار ایک نیا اضافہ ہیں ۔ خوشگوار حیرت میں مبتلا کرتے ہیں ۔ ایسی ہی حیرت کبھی بلال الرشید پہ ہوا کرتی۔ ایک دن مگر اس نے کنارہ کشی کا فیصلہ کیا۔ کسی دوسرے کا اس میں دخل نہ تھا ؎
نہ کوئی خواب ہی دیکھا نہ استخارہ کیا
یونہی ایک صبح خلق سے کنارہ کیا
اب شاید وہ ایک کتاب میں مگن ہے ۔ اگر ایسا ہے تو یہ ایک سعادت ہے ۔ رزق کا وعدہ اللہ نے کر رکھا ہے ۔ اب آکے کھلا ، شہرت ایسی چیز نہیں کہ ترجیح ہو ۔انا پروری ہے اور انا پروری عظیم ترین خطرات میں سے ایک ۔ ایک جج ہمیشہ امتحان میں رہتا ہے اور اخبار نویس بھی ۔ دوسروں کو تباہ کرنے کا گاہے وہ ارادہ کرتاہے ۔ اس عمل میں خود کو وہ برباد کر سکتاہے ۔ طالبِ علم کی بجائے تھانیدارہوجانا کون سی کامیابی ہے ؟
کوئی پسند کرے تو کل کا رئوف کلاسرہ کا کالم ایک بار پھر پڑھ لے ۔ میں نے اسے لکھا : کالم بے شک اچھا ہے ، غور و فکر کرنے والے کے لیے ، دل کو حرکت عطا کرنے والا ، ان کے لیے جو سبق سیکھنے کے آرزومند ہوں ۔ اس کے باوجود آخری تین سطور میں تبدیلی تجویز کرنے کی میں جرأت کرتا ہوں ۔
''جہاں تک ملک عبد اللہ سے غازی جنرل مشرف کے عطیہ قبول کرنے کا ذکر ہے اور قطری شہزادے سے قائدِ اعظم ثانی میاں محمد نواز شریف کے انعام پانے کا ، روپے پیسے کی شاید انہیں زیادہ ضرورت تھی ۔ بے چارہ امیر آدمی! وہ مجبور اور محتاج ہوتاہے ۔
جہاں تک لکھنے والے کا تعلق ہے ، چینی مفکر کا قول ہی مجھے قولِ فیصل لگتاہے : اس کی اپنی مرضی ہے، بادشاہ بنے یا بھکاری ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved