تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     24-11-2016

آئین کے وفادار جنرل کو ہمارا سلام!!

فرزندِ لال حویلی (وزیر اعظم نواز شریف کے بقول‘ آئے روز طوطا فال نکالنے والے) کی ایک پیش گوئی تو درست ثابت ہوئی‘ ''نومبر میں دو شریفوں میں سے ایک نہیں رہے گا‘‘۔ اور ایک شریف اپنی آئینی مدت مکمل کر کے 29 نومبر کو تشریف لے جا رہے ہیں‘ اس تزک و احتشام اور عزت و احترام کے ساتھ جو اس سے پہلے پاک آرمی کے بہت کم سربراہوں کے حصے میں آیا۔ سوشل میڈیا پر وہ ٹاپ ٹرینڈ بن گئے‘ داد و تحسین کا سلسلہ ہے کہ بڑھتا ہی چلا گیا؛ البتہ بعض ریٹائرڈ عسکری دانشوروں سمیت ہمارے دوست‘ وہ کالم نگار اور تجزیہ کار خاموش ہیں‘ جیسے سانپ سونگھ گیا ہو‘ جو فرزندِ لال حویلی کی طرح ہر چوتھے‘ پانچویں یہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ فوج کا پیمانۂ صبر لبریز ہو چکا‘ ''مودی کا یار‘‘ صبح گیا کہ شام گیا۔
اور اب نئے آرمی چیف کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہے۔ جناب راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ یہ خبر بھی شائع ہوئی کہ نواز شریف 5واں آرمی چیف نامزد کرنے والے پہلے وزیر اعظم بن جائیں گے۔ 1991ء میں جنرل آصف نواز‘ ان کی ناگہانی وفات پر جنوری 1993ء میں جنرل وحید کاکڑ‘ اکتوبر 1998ء میں جنرل جہانگیر کرامت کے ''استعفے‘‘ پر جنرل پرویز مشرف‘ 2013ء میں جنرل راحیل شریف اور اب ان کی ریٹائرمنٹ پر نئے آرمی چیف کا تقرر‘ (1996ء میں جنرل کرامت کا تقرر وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دور میں ہوا۔ اور نومبر 2007ء میں‘ جنرل مشرف صدر تھا‘ جب اس نے کمان جنرل کیانی کے سپرد کی‘ جسے 2010ء میں زرداری+گیلانی حکومت نے فل ٹرم ایکسٹینشن دے دی) لیکن اس دوران وزیر اعظم نواز شریف نے ایک تقرر جنرل ضیاء الدین کا بھی تو کیا تھا‘ اپنے آئینی اختیار کے تحت اور اس کے لیے خود ایوانِ صدر جا کر‘ جناب رفیق تارڑ سے توثیق بھی کروا لائے تھے۔ نئے آرمی چیف کو چوتھا اسٹار بھی لگ گیا تھا۔ ٹی وی پر باتصویر خبر بھی نشر ہو گئی تھی‘ لیکن چیف آف جنرل اسٹاف جنرل عزیز اور کور کمانڈر راولپنڈی جنرل محمود نے بغاوت کر دی۔ تب کولمبو سے واپسی پر مشرف کا طیارہ فضائوں میں تھا۔ کولمبو روانگی سے قبل موصوف یہ سارا انتظام کر گئے تھے۔ کراچی کے جنرل عثمانی بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ 
جنرل محمود بنفسِ نفیس پرائم منسٹر ہائوس پہنچے (یہ اعزاز بھی صرف میاں صاحب کے حصے میں آیا‘ کہ خود کور کمانڈر انہیں حراست میں لینے کے لیے پرائم منسٹر ہائوس گیا۔ بھٹو کی برطرفی کے لیے تو ایک جونیئر افسر گیا تھا) پاکستان کا یہ چوتھا ''مارشل لاء‘‘ واحد مارشل لاء تھا‘ جو جنرل مشرف (اور کارگل مس ایڈونچر میں شریک ان کے دو‘ تین رفقا) کی نوکری بچانے کے لیے نافذ ہوا‘ ورنہ اس سے قبل تینوں مارشل لائوں میں‘ ملک کو درپیش سنگین داخلی بحران‘ امن و امان کے مسائل‘ بیرونی خطرات اور آئینی مشینری فیل ہو جانے‘ جیسے ''جواز‘‘ پیش کئے گئے تھے۔ خود مشرف نے بی بی سی سے انٹرویو میں یہ بات کہی تھی‘ وہ مجھے برطرف نہ کرتا تو آج بھی وزیر اعظم ہوتا اور ایڈیٹروں سے ملاقات میں کہا‘ اس نے مجھے دھکا دینے کی کوشش کی‘ میں نے اسے دھکا دے دیا۔ جناب عرفان صدیقی‘ فاران کلب کراچی میں الطاف صاحب کی کتاب ''ملاقاتیں کیا کیا‘‘ کی تقریب رونمائی میں بتا رہے تھے کہ 12 اکتوبر کی شام مشرف کراچی میں اترا‘ صدر رفیق تارڑ سے فون پر رابطہ کیا اور درخواست کی کہ وہ استعفے جیسے کسی اقدام کی بجائے‘ اس کی وفاقی دارالحکومت آمد کا انتظار کریں۔ اگلی شام وہ ایوانِ صدر آیا تو تارڑ صاحب نے بھی اس سے یہی بات کہی‘ یہ پہلا ماورائے آئین اقدام ہے‘ جو صرف اپنی نوکری بچانے کے لیے کیا گیا۔ وہ وضاحتیں کرتا رہا کہ اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا اور یہ کہ وہ وزیر اعظم کی برطرفی کے بعد بھی آئینی نظام کا تسلسل چاہتا ہے‘ اسی لیے اس نے پارلیمنٹ بھی نہیں توڑی اور وہ صدر صاحب سے بھی درخواست گزار ہے کہ آئینی تسلسل کے لیے اپنے منصب پر قائم رہیں۔
جنرل ضیاء الدین کے ساتھ قسمت نے عجب کھیل کھیلا تھا۔ وہ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ اس سے قبل فوج میں نہایت اہم ذمہ داریاں انجام دے چکے تھے۔ آئی ایس پی آر سے ریٹائر ہونے والے کرنل اشفاق حسین‘ جو اس وقت کراچی میں خدمات انجام دے رہے تھے اور کراچی میں جنرل مشرف کی ایمرجنسی لینڈنگ‘ جنرل عثمانی کی طرف سے کئے گئے اقدامات اور رات گئے جنرل مشرف کی نشری تقریر سمیت اہم واقعات کے لیے عینی شاہد تھے‘ اپنی کتاب "Witness to Blunder" میں جنرل ضیاء الدین کے فوجی کیریئر کی تفصیلات بیان کر چکے‘ جن کی بنا پر وہ آرمی چیف بننے کے پوری طرح اہل تھے۔ ان کی ریٹائرمنٹ میں تین چار ماہ باقی تھے۔ وہ 12 اکتوبر کو آرمی چیف کے طور پر اپنے تقرر سے تین روز قبل9 اکتوبر کو وزیر اعظم سے ملے‘ اور اپنی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے لیے درخواست کی۔ وزیر اعظم کے استفسار پر بتایا کہ فوجی فرٹیلائزر کے چیئرمین کی اسامی خالی ہے‘ اور وہ آرمی چیف جنرل مشرف سے بھی درخواست کر چکے ہیں کہ انہیں قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے ساتھ‘ فوجی فرٹیلائزر میں یہ ملازمت دے دی جائے۔ وزیر اعظم نے وعدہ کیا کہ وہ دبئی سے واپسی پر اس بارے جنرل مشرف سے بات کریں گے۔ اسی شب جنرل ضیاء الدین کی آئی ایس آئی آفسرز میس میں اپنے کورس میٹس کے ساتھ گیٹ ٹو گیدر تھی‘ یہاں بھی انہوں نے اپنے ریٹائرڈ ساتھیوں کو بتایا کہ وہ بھی بہت جلد ان میں شامل ہونے والے ہیں۔
دس اکتوبر کو وزیر اعظم دبئی روانہ ہوئے اور جنرل ضیا کو بھی ساتھ لیتے گئے کہ وہ دورانِ سفر انہیں کشمیر اور افغانستان کی صورتِ حال پر بریف کریں۔ اس دوران بھی وزیر اعظم نے جنرل کو‘ اپنے ارادے کی بھنک تک نہ پڑنے دی کہ وہ انہیں آرمی چیف بنانے جا رہے ہیں۔ بدقسمتی جنرل کا تعاقب کر رہی تھی۔ 12 اکتوبر کی شام وزیر اعظم کے ساتھ‘ ان کے نامزد نئے آرمی چیف بھی گرفتار کر لیے گئے۔ جنرل ضیاء الدین‘ مشرف کے خلاف کسی ''سازش‘‘ کا حصہ نہ تھے۔ وہ تو خود ان سے‘ قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے ساتھ‘ فوجی فرٹیلائزر میں چیئرمین کے عہدے پر تعیناتی کی درخواست کر چکے تھے‘ ان کا قصور اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وزیر اعظم نے اپنے آئینی اختیار کے تحت انہیں آرمی چیف نامزد کیا‘ اور انہوں نے آئین کی پابندی کرتے ہوئے سرِ تسلیم خم کر دیا۔ 8 اکتوبر 1998ء کو‘ جنرل کرامت سے ''استعفے‘‘ کے بعد خود مشرف بھی تو اسی طرح آرمی چیف بنا تھا۔ چودہ ماہ کی پُراذیت حراست کے بعد وزیر اعظم جدہ جلا وطن ہو گئے۔ جنرل ضیاء الدین (اور وزیر اعظم کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر جاوید اقبال) اس کے بعد بھی زیر عتاب رہے اور انہیں کسی قسم کی مراعات کے بغیر ریٹائر کر دیا گیا۔
جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ پاکستان کی سیاسی اور عسکری تاریخ کا شاندار اور ہنگامہ خیز دور اختتام کو پہنچا۔ کہا جاتا ہے ان کے پیش رو جنرل کیانی نے اپنے جانشین کے لیے جو فہرست دی تھی‘ اس میں راحیل شریف ان کی اولین ترجیحات میں نہیں تھے‘ وزیر اعظم نے لیکن ان کا انتخاب کیا۔ اس میں جنرل عبدالقادر بلوچ کی ''سفارش‘‘ کا بھی دخل تھا کہ راحیل شریف ان کے جونیئر کے طور پر کام کر چکے تھے اور ان کی شہرت ایک سچے پروفیشنل فوجی کی تھی۔ وہ اپنے خاندان میں دو نشان حیدر کے اعزازات بھی رکھتے تھے۔ ان کے ماموں میجر عزیز بھٹی (جنگ ستمبر 1965ء) اور پھر ان کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف (دسمبر 1971ء)۔ برادر محترم عبدالقادر حسن‘ اس خاندان کی قومی غیرت و حمیت کا ایک واقعہ بیان کیا کرتے ہیں۔ راحیل کے والد میجر شبیر لاہور جم خانہ کے ممبر تھے۔ ایک دن جم خانہ آئے تو دیکھا کہ جنرل اے اے کے نیازی بھی موجود تھے۔ میجر شبیر کو 16 دسمبر 1971ء کا ریس کورس ڈھاکہ کا شرمناک منظر یاد آ گیا‘ جنرل نیازی کا‘ بھارتی جنرل اروڑا کو اپنا پستول پیش کرنے کا منظر‘ پاک فوج نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ میجر شبیر کا خون کھول اٹھا۔ اس نے چیخ کر کہا‘ یہاں ایک غدار بیٹھا ہے‘ وہ چلا جائے ورنہ میں اسے گولی مار دوں گا اور جنرل نیازی چپکے سے کھسک لیے۔
تین سال کے اس عرصے میں جنرل راحیل شریف کو اقتدار پر قبضے کے لیے کس کس طرح اکسایا گیا؟ اس کے لیے کیا کیا ''جواز‘‘ پیش کئے گئے؟ سول اور عسکری قیادت میں اختلافات کے کیا کیا فسانے تراشے گئے؟ 6 اکتوبر کی ''ڈان لیکس‘‘ کو اونٹ کی کمر پر آخری تنکا کہا گیا‘ لیکن راحیل شریف اپنے آئینی حلف پر قائم رہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ رخصت ہو رہے ہیں تو ہر طرف داد و تحسین کا شور ہے۔ آرمی چیف کے طور پر ان کا تقرر ہوا تو والدہ محترمہ نے اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ ان کا بیٹا اپنے خاندان کی اعلیٰ روایات کا پاس کرے گا اور اس کی رخصتی عزت و وقار کے ساتھ ہو گی۔ بیٹا اپنی ماں کی اور پوری قوم کی توقعات اور خواہشات پورا اترا ہے‘ جنرل راحیل شریف کو ہمارا سلام!!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved