تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     24-11-2016

قصہ مختصر

آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے فو ج کی مختلف فارمیشنز اور ہیڈ کواٹرز میں بالآخر الوداعی ملاقاتوں کا آغاز کر تے ہوئے ان تمام افواہوں اور قیاس آرائیوں کو ختم کر دیا ہے جو میڈیا اور عوام کے ذہنوں میں جنم لے رہی تھیں جب یہ واضح ہو گیا کہ اب وہ اپنی مدت ملازمت پوری کرتے ہوئے29 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں تو پھر سب کا دھیان ان کی جانب سے ہٹ کرمتوقع آرمی چیف کی جانب ہو گیا اور ہمارے جسے فارغ بیٹھے ہوئے لاکھوں لوگ اب اپنے اپنے انتہائی ''با خبر ذرائع‘‘ سے نئے نام کی پیش گوئیاں دینے میں مصروف ہو چکے ہیں اور یہ پردہ بھی اب طویل ایکٹ کے درمیان حائل نہیں ہو گا کیونکہ چند دنوں بعد یہ اٹھنے ہی والا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ نیا نام بہت پہلے سامنے آجاتا جسے وزیر اعظم کی جانب سے کب کا فائنل بھی کیا جا چکا ہے لیکن ملک کے دو بڑوں کے درمیان ایک خاموش معاہدہ تھا کہ میرے جانے سے48 گھنٹے پہلے دوسرا فریق جانشین کا اعلان نہیں کرے گا یہی وجہ تھی کہ جانے یا نہ جانے کی باتیں زور شور سے جاری رہیں لیکن جب ڈان لیکس پر آرمی نے وزیر اعظم کا پانچ رکنی کمیشن تسلیم کرتے ہوئے آئی ایس آئی اور ایم آئی سے ایک ایک نمائندے کا نام بھیج دیا تو مجھے اسی وقت یقین ہو گیا تھا کہ جنرل راحیل شریف اپنی مدت ملازمت پوری کرتے ہوئے 29 نومبر کو ریٹائر ہونے جا رہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بارے میں گردش کرنے والی تمام افواہوں کے دم توڑتے ہی ان کے نئے جانشین کی بات کریں تو اس وقت دو نام ہی تجزیہ کاروں کی مارکیٹ میں گردش کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک نام لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم کا ہے جن کے بارے میں دانشوروں کا ایک گروپ یقین سے کہہ رہا ہے کہ وہ نئے آرمی چیف ہوں گے‘ جبکہ مسلم لیگ نواز کے انتہائی اہم لوگ جنہیں ''ان‘‘ سے قربت کا بہت دعویٰ ہے وہ کب سے لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے کے نام پر مطمئن بیٹھے ہوئے ہیں۔یہ دونوں نام بغیر کسی شک کے پاکستان کی با وقار فوج کا فخر ہیں اس لئے کچھ فرق نہیں ان چاروں میںلیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسحاق ڈار اور ائر چیف کی کثرت سے ہونے والی ون ٹوون ملاقاتوں کے نتیجے میں اس دفعہ چیئر مین جائنٹ چیف آف سٹاف کا قرعہ فال اگر نیوی یا ائر فورس کی جانب رخ کر لیتا ہے تو زبیر محمود حیات نئے آرمی چیف ہو سکتے ہیں اور اس سے ہمارے ملک اور افواج کو یہ فائدہ حاصل رہے گا کہ ہمارے چند ایک ذہین، تجربہ کار اور قابل فخر لیفٹیننٹ جنرل اس وقت مشرقی اور مغربی سرحدوں پر جاری کشیدگی اور بھارت کی ممکنہ جارحیت کی صورت 
میں میدان جنگ کے نقشوں کو ترتیب دینے میں ممد و معاون ثابت ہوں گے۔باقی اﷲ نے جس کسی کو جس کام کیلئے منتخب کر رکھا ہے ا س کیلئے ہم سب کو دعا گو رہنا ہو گا۔بس یہ دعا کرتے رہیں کہ جو بھی ہو پاکستان کیلئے بہتر ہو۔آمین
اس میں کسی قسم کا شک نہیں کہ پاکستان آرمی کے چیف جنرل راحیل شریف کو پاکستانی عوام کی جانب سے جس قدر عزت و تکریم ملی ہے وہ اب تک کسی بھی آرمی چیف کے نصیب میں نہیں ہوئی اور اس بات کو ہر آنے والے آرمی چیف کو اپنے سامنے رکھنا ہو گا جنرل راحیل شریف انسان تھے کوئی فرشتہ نہیں ممکن ہے کہ ان سے بھی کچھ غلطیاں ہوئی ہوں ان سے بھی کچھ شکوے شکایات پیدا ہوئے ہوں لیکن ان سب کاپتہ اس وقت چلے گا جب وہ اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد پر وقار وردی اتار کر معمول کے سول لباس میں گھر جائیں گے اس وقت ان کی تین سالہ کارکردگی کے بارے میں کچھ بے لاگ اور بیباک تبصرے اور تجزیئے شروع ہوجائیں گے ۔
''ارادے باندھتا ہوں توڑ دیتا ہوں‘‘ یا بقول منیرنیازی مرحوم کے ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں۔۔۔اور دیر کردینے یا ارادے توڑ دینے کی بات جب بھی کی جائے گی تو جنرل راحیل شریف سے اس قوم کو جو شکوہ او ر شکایت رہے گا وہ ڈان لیکس کی زد میں آنے والی ''National Security Breach'' پر ان کی خاموشی ہے یہ خاموشی کسی مصلحت کی وجہ سے ہوئی یا کسی دبائو کی وجہ سے تاریخ ان سے یہ سوال ہمیشہ کرتی رہے گی۔ وقت ان سے ضرور پوچھے گا کہآپ نے تو بھارت کے صرف ایک بندر (کلبھوشن یادیو کا کوڈ نام )کو گرفتار کیا ہے یہاں نہ جانے کتنے
بندر تماشا دکھانے والے مداریوں کے کندھوں پر اچھلتے پھر رہے ہیں۔ اپنی مدت ملازمت میں جنرل راحیل شریف کو سول حکومت سے ہمیشہ یہی شکوہ رہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں ہو رہا۔
کیا آپ اچھی طرح جان نہیں پائے کہ آپ کا واسطہ قانون کے محافظ سیاستدانوں سے نہیںبلکہ ایک کریمنل گینگ سے رہا ہے اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جیسے ہی جنرل صاحب نے الوادعی ملاقاتوں کا آغاز کیا ہے تو یہی وہ گینگ ہے جو ایک ایک کر کے آپ کیلئے رطب اللسان ہوا پھر رہا ہے۔آپ اپنے حلف کو ایک بار پھر پڑھ لیں جس میں آپ نے خدا کو حاضر و ناظر جان کر عہد کیا ہے کہ میں اپنی زندگی کے آخری موڑ تک ملک و قوم کے مفادات اور اس کے دشمنوں کے خلاف آخری گھڑی آخری وقت تک اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے ان کا قلع قمع کرنے کیلئے لڑتا رہوں گا؟۔ ڈان لیکس پر اٹھنے والے سوالوں کا جواب آپ اپنی ریٹائر منٹ کے بعد کسی بھی مرحلے پر دینے کی کوشش کرتے ہیں تووہ بریکنگ نیوز تو بن جائے گی لیکن ''نیوز‘‘ نہیں؟۔ قصہ مختصر پاکستان کا ایک عام شخص نہیں جانتا کہ ڈان لیکس والے کیس میں کون مجرم ہے اور کون بے گناہ اور معصوم ہے انہیں تو صرف یہ ڈر ہے کہ ڈان لیکس کل کو اس ملک میں ایک روایت ہی بن کر نہ رہ جائے۔ دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی۔!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved