تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     25-11-2016

انتظار موت سے شدید تر ہے

سمجھ نہیں آ رہی کہ قصہ کہاں سے شروع کروں؟ کس طرح لکھوں کہ بات سمجھا سکوں اور کیا دعا کروں کہ معاملہ کسی کنارے لگے۔ بات عبداللہ بن مسعود سے شروع کروں یا کراچی کے نومنتخب میئر وسیم اختر سے؟ قتل‘ دہشت گردی اور امن و امان تہہ و بالا کرنے والوں کے میئر بننے کا تذکرہ کروں یا راشد کمال کی گمشدگی کا ذکر کروں؟درجنوں سنگین الزامات میں ضمانتوں پر رہا ہونے پر قانون کی کسمپرسی کو پرسادوں یا پنجاب یونیورسٹی کے استاد اور اپنے دوست ڈاکٹر اشتیاق گوندل کو لاہور کی پررونق سڑک سے دن دہاڑے اٹھا لینے والوں کی زور آوری پر چار حرف لکھوں؟ مملکت خدا داد پاکستان میں ایک طرف ملک کے خلاف نعرے لگانے والے اور ان کے حواری اقتدار کی ٹھنڈی ہوائیں لے رہے اور دوسری طرف بلا جرم(یا کم از کم جرم بتائے بغیر) مہینوں سے لاپتہ افراد کے گھر والے جس اذیت اور دُکھ کا شکار ہیں اسے بیان کرنا ممکن نہیں۔
مسعود احمد میرا قریب بیس بائیس سال پرانا دوست ہے۔ متحمل‘اعتدال پسند‘ صبر اور حوصلے والا۔ ہماری دوستی کا آغاز بڑے عام طریقے سے ہوا۔ میں اور وہ ایک ہی انڈسٹری سے متعلق دو مختلف اداروں میں کام کرتے تھے اور کاروباری سلسلے میں ایک دوسرے سے سلام دعا شروع ہوئی اور اس کی دھیمی طبیعت اور خوش مزاجی کے باعث یہ تعلق دوستی میں بدل گیا۔ میری اہلیہ دو چار بار لاہور ان کے گھر گئی تو بچوں کی بھی آپس میں دوستی ہو گئی۔ میری دونوں بیٹیاں پہلی بار ان کے گھر گئیں تو ان کی بیٹی سے ایک نیا کھیل سیکھ کر آئیں اور کئی دن تک ملتان آ کر اسے کھیلتی رہیں۔ عبداللہ تب چھوٹا سا تھا، بیبا سا بچہ۔ میں نے نوکری چھوڑ دی اور لکھنے لکھانے سے وابستہ ہو گیا۔ مسعود نے نوکری چھوڑ کر اپنا کاروبار شروع کر لیا تاہم ہماری ملاقاتیں جاری رہیں اور تعلقات میں زیادہ پختگی آتی گئی۔
بچے بڑے ہو گئے ۔ مسعود اس دوران تھوڑا مذہب کی طرف راغب ہو گیا۔ داڑھی رکھ لی اور نماز پنجگانہ میں بڑی باقاعدگی اختیار کر لی۔ لیکن مجال ہے خوش مزاجی اور حس مزاح میں رتی برابر فرق آیا ہو۔ طبیعت کی نرمی، جو عموماً مذہب کی طرف رغبت سے سختی میں بدل جاتی ہے، اور اسی طرح قائم رہی۔ میری مسعود سے ملاقاتیں جاری رہیں؛ تاہم اس کے گھر جانے کا ایک عرصے تک اتفاق نہ ہوا۔ قریب پندرہ سال بعد میری اہلیہ میرے ہمراہ اس کے ماڈل ٹائون ایکسٹینشن والے گھر گئی تو بچے بڑے ہو چکے تھے۔ چھوٹا سا عبداللہ جو اپنی بہن مدیحہ کے ساتھ بہبود آبادی کے ایک ٹی وی کے اشتہار میں بھی آیا تھا اب ماشاء اللہ جوان ہو چکا تھا۔ تب وہ غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی المعروف جی آئی کے آئی میں داخل ہوا تھا۔ میری اس کے بعد بھی عبداللہ سے دو تین بار ملاقات ہوئی اس میں ایک ہونہار اور سعادت مند نوجوان کی ساری خوبیاں موجود تھیں۔ سترہ جون کو مسعود کا فون آیا آواز سے پریشانی جھلک رہی تھی۔
کہنے لگا آج علی الصبح آٹھ دس گاڑیوں میں پچیس تیس مسلح لوگ آئے تھے اور عبداللہ کو گھر سے لے گئے ہیں۔ اس کے جی آئی کے آئی کے دو پرانے دوست اور کلاس فیلو بھی گھر آئے ہوئے تھے وہ ان تینوں کو لے گئے ہیں۔ ان کا رویہ بڑا درشت تھا وجہ پوچھی تو آگے سے سختی سے جواب دیا کہ چپ رہو۔ ہمیں پتہ نہیں کہ بچے کہاں ہیں اور کون لے گیا ہے اور ان کا جرم کیا ہے؟ پھر وقتاً فوقتاً میں اس سے پوچھتا رہا کہ کچھ پتہ چلا؟ مسعود بے بسی میں بتاتا کہ کچھ پتہ نہیں چلا۔ اس کے دادا نے جو تیس سال تک پاک فوج میں بطور خطیب نوکری کے 1986ء میں ریٹائر ہوئے تھے، جنرل راحیل شریف کو خط بھی لکھا مگر جواب ندارد۔ تنگ آ کر مسعود نے اسلام آباد میں ''کمیشن آف انکوائری آن انفورسڈ ڈِس اپیرنسزCommission of Inqniry on enforced Disappearancesمیں درخواست دی، جہاں سے بائیس ستمبر کو اس گمشدگی بارے ایف آئی آر درج کرنے کا حکم ملا۔ پچیس ستمبر کو تھانہ فیصل ٹائون لاہور میں اس گمشدگی کی ایف آئی آر نمبر1079-16درج ہوئی اور معاملہ داخل دفتر ہو گیا۔ ظاہر ہے جب آگے کارروائی کی کسی میں جرأت ہی نہ ہو تو معاملے کو داخل دفتر ہی کہا جائے گا۔ عبداللہ بن مسعود اپنے دو کلاس فیلوز شبیرالحسن اوروقاص فرید کے ساتھ عرصہ پانچ ماہ اور آٹھ دن سے لاپتہ ہے۔ اس کا ضعیف العمر دادا اور پریشان حال والدین صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس کا جرم کیا ہے اور وہ کہاں ہے؟ مسعود کا کہنا ہے کہ اگر اُس نے کوئی جرم کیا ہے تواس کو سزا ملنی چاہیے مگر ہمیں پتہ تو چلے کہ وہ کہاں اور اس کا جرم کیا ہے۔ ایک پریشان حال گھرانہ اس سے زیادہ کچھ نہیں مانگ رہا۔
راشد کمال میرے برادر نسبتی کا برادر نسبتی ہے۔ اسلام آباد میں رہتا تھا اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ مکان بنا کر فروخت کرنے کے کاروبار سے متعلق تھا۔ مورخہ بیس جولائی کو اس کے گھر والوں نے ملتان سے فون کیا تو کوئی جواب نہ ملا۔ بار بار فون کیا مگر معاملہ اسی طرح تھا کسی کو فون کر کے گھر بھیجا تو وہ بند تھا ۔ اب پریشانی لاحق شروع ہوئی اسی طرح کئی روز گزر گئے نہ راشد کمال کا پتہ چلا اور نہ ہی اس کی گاڑی کا۔ مہینوں بعد پتہ چلا کہ اسے زمینی فرشتے لے گئے ہیں۔ اس کی بہن ملتان سے اسلام آباد گئی اور اسی 'دھنیا کمیشن‘‘ میں پیش ہوئی۔ گمشدگی کی ایف آئی آر درج ہوئی اور اللہ اللہ خیر سلا۔ آج چار ماہ پانچ دن ہو گئے ہیں کچھ پتہ نہیں راشد کمال کہاں ہے؟ گھر والے پریشان ہیں صرف اتنا جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کہاں ہے؟۔ ان کا کہنا ہے اگر وہ مجرم ہے تو سزا دیں اور جیل بھجوا دیں اگر بے گناہ ہے تو گھر بھجوا دیں۔ مگر دو میں سے ایک بات بھی پوری نہیں ہو رہی۔
ڈاکٹر اشتیاق گوندل کے بارے میں کیا لکھوں؟۔جناب علیؓ کی حکمت اور دانائی کے بارے میں اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ جناب رسول اکرم ﷺ نے انہیں علم کا دروازہ قرار دیا۔ فرماتے ہیں کہ کسی شخص کو جاننا ہو تو اس کے ساتھ سفر کر کے دیکھیں۔ ڈاکٹر اشتیاق گوندل بارہا میرے ہم سفر رہے اور ہر بار پہلے سے بڑھ کر حلیم‘ ایثار پیشہ‘ پر خلوص ‘ متحمل اور خوش مزاج پایا۔ پنجاب یونیورسٹی میں اسلامیات کے استاد۔ میرے ساتھ تین چار مرتبہ امریکہ میں دن رات کا ساتھ رہا۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں تعلیم کی شمع روشن کرنے والی تنظیم''غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ‘‘ کے ڈائریکٹر کے طور پر امریکہ میں فنڈ ریزنگ کے لیے امریکی چیریٹی آرگنائزیشن ''ہیلپنگ ہینڈز فار ریلیف اینڈ ڈویلپمنٹ‘‘ کے تعاون سے ہونے والے چیریٹی مشاعروں میں وہ ہمارے ہمراہ پاکستان سے جاتے تھے اور تمام تر امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی چھلنی سے گزرنے والی اے گریڈ کی مسلم چیریٹی آرگنائزیشن کی پارٹنر آرگنائزیشن کے نمائندے کے طور پر بار ہا امریکہ جانے والے نہایت ہی معتدل مزاج پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق گوندل کو آج سے پندرہ روز قبل دس نومبر کو اسلامک سنٹر پنجاب یونیورسٹی سے جوہر ٹائون جاتے ہوئے دن دیہاڑے مع ڈرائیور شاہراہ عام سے اغوا کر لیا گیا۔ نہ جرم کا پتہ ہے نہ کوئی اتہ پتہ کہ پیشہ انبیاء سے متعلق یہ شخص کہاں ہے اور اس کا قصور کیا ہے؟
سوال صرف یہ ہے کہ کیا ان تینوں افراد کو‘ اور ان جیسے سینکڑوں دوسرے لوگوں کے گھر والوں کو ان کاجرم بتانا کوئی ایسا معاملہ ہے کہ حل نہیں ہو پا رہا؟ ظاہر ہے انہیں کسی جرم کی بنیاد پر‘ یا کسی شک کی بنا پر یا کسی مجرم سے رابطے کے شبے میں ہی اٹھایا گیا ہو گا۔ ملکی سالمیت اور موجودہ حالات کے تناظر میں بھی اسے حق بجانب قرار نہیں دیا جا سکتا کہ کسی کو جرم بتائے بغیر مہینوں کے لیے غائب کر دیا جائے اورورثاء کو یہ بھی پتہ نہ ہو کہ انہیں کون لے گیا ہے۔ زندہ ہیں یا مر گئے ہیں گناہ گار ہیں یا بے گناہ ہیں اگر لے جانے والوں کے پاس ثبوت ہے تو سامنے لائیں اگر ثبوت نہیں اور بلا ثبوت کسی کو محض شک کی بنیاد پر لے گئے ہیں تو ایک مقررہ عرصے میں تفتیش مکمل کریں اور باقاعدہ ثبوتوں کے ساتھ سزا سنا کر جیل بھیجیں‘ پھانسی لگائیں یا بے گناہ پائیں تو گھر واپس بھجوائیں لیکن گھر والوں کو بے یقینی کی سولی پر لٹکانا بند کریں۔
بندے کو آسمانی فرشتہ لے جائے تو صبر آ جاتا ہے مگر زمینی فرشتے لے جائیں تو نہ صبر آتا ہے اور نہ قرار۔ عبداللہ کے گھر والے پانچ ماہ آٹھ دن سے انتظار کی سولی پر لٹکے ہوئے ہیں۔ راشد کمال کے گھروالے چار ماہ پانچ دن سے کسی خبر کے منتظر ہیں اور ڈاکٹر اشتیاق گوندل کے گھر والوں کے ساتھ ساتھ اس کے سٹوڈنٹس گزشتہ پندرہ دن سے اس کی راہ تک رہے ہیں۔ یہ صرف ان تین لوگوں کا قصہ ہے جن سے میرا ذاتی تعلق ہے ایسے سینکڑوں خاندان ہیں جو اسی کرب سے گزر رہے ہیں۔ کیا ان کے انتظار کے دن پورے ہوں گے؟ کیا اذیت کی یہ سیاہ رات کبھی ڈھلے گی؟ عربی کی ''کہاوت ہے کہ الانتظار اشد من الموت‘‘ انتظار موت سے شدید تر ہوتا ہے۔ انتظار کی سولی پر لٹکے ان لوگوں کو سکون کا سانس کب آئے گا؟۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved