تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     25-11-2016

شاہ سلمان، اردوان اور پاکستان کیخلاف کون خوارج کا پشتیبان؟

امریکہ کی صدارتی دوڑ میں شکست سے دوچار ہو جانے والی خاتون ہلیری کلنٹن کے پیغامات سے واضح ہو چکا ہے کہ داعش کی پشتیبانی کرنے والا امریکہ ہے۔ ترکی کے صدر جناب رجب طیب اردوان چند دن قبل پاکستان تشریف لائے تو انہوں نے واضح طور پر انکشاف کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ترکی میں دہشت گردی کے جو واقعات ہو رہے ہیں ان کے پیچھے مغرب ہے جو داعش کا پشتیبان بن کر کھڑا ہے۔ مسجد نبوی شریف کے صحن میں جس بدبخت نے حرم مدنی کی حرمت کو پامال کرنے کے لئے خودکش حملہ کیا اس کا تعلق بھی مذکورہ خارجی گروپ سے نکلا۔ اسی طرح مکہ مکرمہ کی جانب یمن کی طرف سے جو میزائل حملہ ہوا اور سعودی ایئرفورس نے اسے 65کلومیٹر دور فضا ہی میں تباہ کر دیا، یہ حملہ حوثیوں کے خارجی گروپ کی طرف سے کیا گیا۔ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان کی حکومت اب اس مسئلے کو او آئی سی کی جانب سے اقوام متحدہ میں لے جا رہی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں جو حملے سکیورٹی اداروں پر ہو رہے ہیں ان کے پیچھے بھی خارجی سرگرم ہیں اور یہ خارجی ہیں جن کے پیچھے انڈیا ہے۔ مذکورہ خوارج کو افغانستان میں پناہ ملتی ہے، اس پناہ کے پیچھے آخری ہاتھ امریکہ کا ہی دکھائی دیتا ہے۔ یوں تینوں ملکوں میں خونریزی کے پیچھے خوارج نظر آئیں گے اور ان کے پیچھے پشتیبان بن کر امریکہ اور مغرب کھڑے دکھائی دیں گے یعنی خوارج ایک ایسا فتنہ ہے کہ جس کے پیچھے انسانیت کی ہمدردی کا لبادہ اوڑھنے والے کھڑے ہیں، حقیقت میں یہ انسانیت کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں۔ کتاب و سنت کی رو سے یہ دنیا آزمائش اور فتنے کا مقام ہے لیکن آخری زمانے میں حضورﷺ کے فرامین بتلاتے ہیں کہ فتنوں میں اضافہ کی رفتار بہت تیز ہو جائے گی۔ یہ تیز ہوتے ہوتے قیامت کے قریب اس قدر تیز ہو جائے گی کہ حضرت حذیفہ بن یمانؓ بتلاتے ہیں اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا!
''مٹتے مٹتے آخرکار (قیامت کے قریب) اسلام اس طرح مٹ جائے گا جس طرح کپڑے کے رنگدار نقوش پھیکے پڑ کر مٹنے لگ جاتے ہیں۔ صورت حال ایسی ہو جائے گی کہ روزہ، نماز، قربانی اور صدقہ باقی نہیں رہے گا (قرآن پڑھنے والا باقی نہ رہے گا) یہاں تک کہ قرآن کو ایک ہی رات میں آسمان پر اٹھا لیا جائے گا اور ایک آیت بھی زمین پر باقی نہ رہے گی۔ لوگوں میں کچھ بوڑھے مرد اور خواتین باقی رہ جائیں گے جو کہیں گے کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو لاالہ الا اللہ کہتے سنا تھا لہٰذا ہم بھی کہہ دیتے ہیں‘‘۔ حضرت حذیفہ بن یمانؓ نے جب مذکورہ حدیث بیان کی تو ان کے شاگرد جناب صِلَہ بن زفرؒ نے تعجب سے پوچھا کہ جب ان لوگوں کو نماز، روزہ، قربانی اور صدقے تک کا علم نہ ہو گا تو کیا صرف اور صرف کلمہ سے ان کی نجات ہو جائے گی؟ حضرت حذیفہ بن یمانؓ خاموش رہے۔ شاگرد نے دوبار مزید یہی سوال کیا تو حضرت حذیفہؓ نے تین بار تکرار کے ساتھ اپنے شاگرد کو آگاہ کیا کہ ''اے صِلَہ یہی کلمہ (اس دور میں) ان کو جہنم کی آگ سے نجات دلا دے گا۔ (ابن ماجہ: 4049، صحیح)
یعنی ایک اللہ کی گواہی اور اس کے رسول حضرت محمد کریمﷺ کی رسالت کی شہادت مذکورہ لوگوں کو جہنم کی آگ سے نجات دلا کر جنت میں داخل کر دے گی۔ اس سے ثابت ہوا کہ فتنوں کے دور میں جس شدت سے فتنے ہوں گے ان کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے پوچھ گچھ کرے گا۔ جیسا کہ روس میں 70سالہ کمیونزم کا دور کہ جب مذہب کا نام لینا جرم تھا۔ اس دور میں جس مسلمان نے کلمہ ہی پڑھ لیا یا جس قدر اسے دین میسر آیا اس پر عمل کر لیا تو اس کے لئے اتنا ہی کافی تھا۔ آج کا روس بالکل بدل گیا اب مسلمانوں کو بھی آزادی ہے اور مسیحی لوگوں کو بھی آزادی ہے لہٰذا حالات بدل گئے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کلمے کی اہمیت بہت بڑی ہے۔ اتنی بڑی کہ حضورﷺ کے ارشاد کے مطابق یہ کلمہ ساری کائنات سے بھاری ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ خوارج لوگ کلمہ پڑھنے والے مسلمانوں کو مرتد قرار دیتے ہیں۔ کلمہ پڑھنے والوں کے حکمرانوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرتے ہیں اور پھر جیکٹیں پھاڑتے پھرتے ہیں۔ ان کے پیچھے مغرب کے خفیہ اداروں کے کارندے ہیں، پھر یہ کارندے دوہرا کام اس طرح کرتے ہیں کہ اسلام کو بدنام کرتے ہیں کہ دیکھو جی! یہ ہے اسلام جو دہشت گردی کا مذہب ہے۔ (اللہ کی پناہ جھوٹ کی اس سیاست سے) اور آج صورتحال یہ بن چکی ہے کہ امریکہ اور مغرب کے حکمران اپنے ملکوں میں آباد مسلمانوں پر زمین تنگ کرنے جا رہے ہیں۔ ان کو نکالنے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں یعنی خوارج کو وہ استعمال بھی کرتے ہیں اور ان کی دہشت گردی کے نتائج سے مسلمانوں کو بے گھر اور بے وطن کرنے کی بھی تیاریاں کر رہے ہیں۔ یہ ہے آج کے دور کا وہ فتنہ اور دجل جس کا سامنا سب سے زیادہ مذکورہ تین ممالک کر رہے ہیں اور مشرق وسطیٰ سمیت ساری دنیا کے بے گناہ عوام مذکورہ دہشت گردی کے بھیانک انجام سے گزر رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں اس کا توڑ اسی صورت میں ممکن ہے جب اہل علم آگے بڑھ کر اس فتنے سے انسانیت کو آگاہ کریں گے۔
قرآن کی سورت ''البلد‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے مکہ شہر کی قسم کھائی ہے۔ سورت ''التین‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے مکہ کو ''بلدالامین‘‘ یعنی امن والا شہر قرار دے کر اس کی قسم کھائی ہے۔ جبکہ حضورﷺ نے اپنے فرمان میں واضح کیا کہ مکہ کی حدودِ ''حرم میں کسی شکار کو ڈرا کر بھگایا نہ جائے، کانٹے دار درخت کاٹے نہ جائیں۔ (بخاری و مسلم) اہل اسلام کے لئے کتنا بڑا المیہ ہے کہ ایسے شہر کی طرف میزائل داغا جائے۔ اور جو دوسرا شہر مدینہ منورہ ہے اس کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ نے ان الفاظ کے ساتھ اس کی حرمت کا اعلان کیا، فرمایا: حضرت ابراہیمؑ نے (اللہ کے حکم سے) مکہ کو حرم قرار دیا تھا پھر مکہ کے لئے برکت کی دعا بھی کی تھی۔ اب (اللہ کے حکم سے) میں نے بھی مدینہ کو اسی طرح حرم قرار دے دیا ہے جس طرح حضرت ابراہیمؑ نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا۔ لہٰذا اس کی گیلی گھاس جڑ سے نہ اکھاڑی جائے۔ نہ اس کے درخت ہی کاٹے جائیں۔ یہاں جو جانور شکار کے ہیں ان کو بھگایا نہ جائے (بخاری و مسلم)۔ اللہ اللہ! جس شہر کے جانوروں کے لئے امن ہے، درختوں کے لئے امن ہے، اس شہر میں کوئی خارجی بدبخت سعودی سکیورٹی اداروں کے جوانوں کا خون بہائے، ان سعودی جوانوں کا جو مسجد نبوی میں عبادت کرنے والوں کی حفاظت کر رہے تھے۔ جی ہاں! ایسی حرکت خوارج ہی کر سکتے ہیں۔ مدینے کی شان تو یہ ہے کہ حضورﷺ نے اللہ سے دعا کی، اے اللہ! جتنی برکت آپ نے مکہ میں رکھی ہے اس سے ڈبل برکت مدینہ میں رکھ دے (بخاری و مسلم) اللہ کے رسولﷺ نے یہ بھی دعا کی: اے اللہ!ہمارے دلوں میں مکہ کی محبت سے بڑھ کر مدینے کی محبت ڈال دے(بخاری) اسی طرح اللہ کے رسولﷺ نے اس شخص کے خلاف اللہ کے حضور یوں فریاد کی جو مدینہ میں ظلم ڈھاتا ہے۔ فرمایا: ''اے اللہ! جس نے مدینہ کے لوگوں پر ظلم و زیادتی کر ڈالی اور انہیں ڈر اور خوف میں مبتلا کر دیا، آپ بھی ایسے ظالم کو ڈر اور خوف میں مبتلا کر دیں (الطبرانی اوسط و کبیر، صحیح) مزید فرمایا! جو شخص اہل مدینہ پر ظلم کرتا ہوا ڈرائے گا اللہ اسے خوف اور ڈر میں مبتلا کر دے گا، ایسے شخص پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ قیامت کے دن ایسے شخص کا کوئی عمل چاہے فرض ہو یا نفل قبول نہیں کیا جائے گا۔ (مسند احمد55\\4) جی ہاں! حضور کے مذکورہ فرمان سے معلوم ہوا کہ حرم کی سرزمین پر دہشت گردی کرنے والا کلمہ ہی پڑھنے والا ہو گا۔ یعنی خارجی ہو گا مگر لعنتی ہو گا کہ اس کے پیچھے امریکہ، انڈیا اور اسرائیل کے دہشت گرد ادارے ہوں گے۔ بہرحال! اللہ تعالیٰ تو اپنے رسولوں کے شہروں حرمین شریفین کی حفاظت فرمائیں گے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں عالم اسلام کیا کردار ادا کرتا ہے۔ ہم اس میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنے ایمان و ایقان کے مراکز کی حفاظت کیلئے حرمین کے خادم شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے پیچھے سیسہ پلائی دیوار بننا ہو گا۔ اردوان کا دیس ترکی ہو، پاکستان ہو یا باقی عالم اسلام سب کی حفاظت حرمین کی حفاظت سے جڑی ہوئی ہے۔ بقول علامہ اقبال!
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسبان ہیں وہ پاسبان ہمارا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved