آدمیوں کی طرح شہر بھی مر جاتے ہیں ۔ رفتہ رفتہ ، دھیرے دھیرے ، کسی کو خبر ہی نہیں ہوتی ۔ مرزا صاحب کی وفات کے بعد لاہورکچھ اور مفلس ہو گیا۔ وفاتِ حسر ت آیات کی راہ پر ایک قدم آگے ۔
بہت دن بیت گئے ، مرزا صاحب ملے نہ تھے ۔ میں ان کا مقروض تھا ، ایک پیمان کا قرض ۔ فوری ادائیگی ممکن نہ تھی ۔ ایسا نہ تھا کہ وہ طلب کرتے ۔ ایسے وہ ہرگز نہ تھے ۔ اسی ادھیڑ بن میں رہا کہ آج کل کوئی صورت نکل آئے ۔ اب وہ مٹی اوڑھے سو رہے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ یہ وعدہ کس طرح پورا ہوگا۔
اسد اللہ خاں غالبؔ نے کسی سے ایک اونی کشمیری شال کا وعدہ کیا تھا۔ برسوں ملاقات نہ ہو سکی ۔ ایک دن خبر ملی کہ وہ شخص سپردِ خاک ہوا۔ اس کی قبر پہ گئے اور شال مٹی کو اوڑھا دی ؎
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد
اس گلی میں دوسری جانب کوئی رستہ نہیں
پینتیس برس کی رفاقت تھی ۔ ہموار اورشائستہ ۔ گزشتہ ہفتے لاہور پہنچا تو خبر ملی کہ حادثہ ہوا۔ پیدل جاتے تھے کہ موٹر سائیکل سوار نے ٹکر ماردی ۔ بھاری بھرکم آدمی تھے اور فکر و خیال کی دنیا میں گم رہنے والے۔ ٹکر لگی تو فٹ پاتھ پہ گرے ۔ سر پہ چوٹ آئی۔ لاہور میں ٹریفک کا نظام فرسودہ ہے ۔ کبھی حکومت نے اصلاح کی کوشش نہ کی۔ نتیجہ یہ ہے کہ شہر میں دو لاکھ کے قریب موٹر سائیکل اڑے پھرتے ہیں ۔ کاروں ، بسوں اور ویگنوں والے بھی قوانین کا خیال کہاں رکھتے ہیں۔ موٹر سائیکل سواروں کی بڑی تعداد زیادہ سنگین مسئلہ ہے ۔ ہر روز نئی سڑکیں تعمیر ہوتی ہیں ۔ ٹریفک کو رواں رکھنے کی تدبیر کوئی نہیں ۔ کبھی ایک جامع منصوبہ نہ بنایا گیاکہ کم از کم رکاوٹوں کے ساتھ گاڑیاں رواں رہیں ۔ قوانین کی پاسداری پہ اصرار کرنے والی تربیت یافتہ ٹریفک پولیس کبھی نہ تھی ۔
شریف خاندان کے خمیر میں نہیں کہ افسروں کو اختیارات دے۔ لاہور کو ٹریفک کا ایک ڈی آئی جی درکار ہے ، اپنے دفتر میں براجمان رہنے کی بجائے بیشتر وقت جو اس کے مشرق و مغرب پہ نگاہ رکھے۔ اپنی مرضی سے ماتحت عملے کا انتخاب وہ کر سکے تو جان لیوا حادثات برائے نام رہ جائیں ۔ قانون کا دلوں میں احترام نہیں ۔ بارسوخ لوگوں کی پوچھ گچھ ممکن ہی نہیں ۔ کسی وزیر، کسی بڑے افسر، کسی رکنِ اسمبلی ، کسی جج اور کسی جرنلسٹ کا چالان کبھی نہیں ہوتا۔ چند سال ادھر کی بات ہے ، پنجاب اسمبلی کے ایک ممبر کو ٹریفک پولیس نے روکا۔ حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار یوں برہم ہو کر اٹھے ، جیسے کسی نے پنجاب اسمبلی پہ حملہ کر دیا ہو۔ کانسٹیبل جب تک معطل نہ ہوا ، وہ چیختے رہے ۔ اس حال میں ٹریفک کا کون سا نظام اور کیسی پولیس؟ ؎
خوفِ خدائے پاک دلوں سے نکل گیا
آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاںؐ گئی
سیاستدانوں کی تقاریر سنیے تو لگتاہے کہ قوم کے دکھ میں گھلے جاتے ہیں ۔ میڈیا کا حال بھی یہی ہے ۔ ہر شام، سعد اورچور ایک میز کے گرد جمع ہوتے اور ٹی وی سکرینوں پر ٹسوے بہاتے نظر آتے ہیں ۔ الفاظ اگر اعمال کا بدل ہو سکتے تو پاکستانی معاشرہ دنیا کا بہترین معاشرہ ہوتا۔ اسلم کولسری مرحوم کی طرح مرزا شفیق نے بھی سمجھوتہ کر لیا تھا، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ۔ اس سماج کی ساخت ایسی ہے کہ اگر کوئی چیخ کر نہ بولے، بارسوخ لوگوں سے اگر رہ و رسم نہ رکھے تو دوسرے تو کیا، اپنے بھی نہیں پوچھتے ۔
وہ ایک مرتب اور مہذب آدمی تھے ۔ ایسا شخص کہ کسی کو کبھی جس سے آزار نہیں پہنچتا ۔ بہت دیرمیں سوچتا رہا کہ جس دفتر سے عمر بھر وہ وابستہ رہے ، کیا اس میں ان سے زیادہ پڑھا لکھا کوئی موجود تھا ؟ انہی کا دفتر کیا، پوری اخباری صنعت میں ان کا ہم پلہ شاید ہی کوئی ہو۔اردو زبان کے شناور ، انگریزی ، عربی اور فارسی میں رواں ۔ عربی تو ایسی اچھی کہ ایک زمانے میں لاہور کے دو ممتاز دانشور ان کے طالبِ علم رہے ۔ اگرچہ ان کی ذمہ داری اور استحقاق تھا ، کالم میں قلم لگانے سے وہ گریز کرتے ۔ چھ سات سال اُدھر ، بار بار میں نے ان سے درخواست کی کہ اس ناچیز کی تحریر میں جہاں کہیں قطع و برید وہ کرنا چاہیں ، بلا تامل کر دیاکریں ۔ شاذ ہی کبھی کوئی لفظ تبدیل کرتے ۔ ایسی احتیاط کے ساتھ‘ رفو گری کا نشان تک نظر نہ آئے ۔
بدقسمت سماج ہوتاہے ، اہلِ علم سے جو استفادہ نہ کر سکے ۔ میرا خیال ہے ، خیال کیا، یقین ہے کہ فیصلہ صادر کرنے والوں کو ان کی صلاحیت اور کمال کا ادراک ہی نہ تھا ۔ ان کا اپنا مزاج یہ تھا کہ کسی نے سوال کیا تو اظہا رکرڈالا وگرنہ خاموشی اوڑھے رکھتے۔ بہت پہلے انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ یہ فتنوں کا زمانہ ہے اور اس میں گریز ہی احسن ہے ۔ اپنی کھال میں گم، اپنے خیالات میں سرشار ؎
گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا
بیدار مغز، بیدار تر احساس او رضمیر۔ ساٹھ برس پہلے ، ایک قادیانی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ہوش کی آنکھ کھلی تو سنگین سوال سامنے تھا۔ غور و فکر کیا، مطالعہ کیا، مشاورت کی اور ایک دن اسلام قبول کر لیا۔ یونہی نہیں ، کامل یکسوئی کے ساتھ ۔ زندگی کا سب سے اہم فیصلہ کرنے سے قبل ربوہ کا بغور جائزہ لیا ۔ شاہی خاندان کو کریدا اور معرکے کی ایک کتاب لکھی ''شہرِ سدوم‘‘۔ قادیانی تب بارسوخ تھے ۔ غیر مسلم قرار دینے کا مرحلہ ابھی دور تھا۔ کتاب پر پابندی عائد کر دی گئی ۔ رتی برابر مرزا صاحب نے پروا نہ کی۔ کبھی ذکر ہی نہ کرتے ۔ اس دو رمیں اور نہ اس کے بعد۔ بعض اہلِ علم سے رابطہ ضرور کیا۔ ان میں سے ایک سید ابوالاعلیٰ مودودی تھے۔ اپنی کتاب نہیں ، مسئلے کی ماہیت پہ گفتگو کی۔ سید صاحب نے کہا : قادیانیت اصلاً ایک باطنی تحریک ہے۔ معمول کے طریق سے نمٹائی نہیں جا سکتی ۔ قومی سطح کی بھرپور جدوجہد ضروری ہے ، رائے عامہ پر جو اس کے عزائم آشکار کر دے ۔ یہ تحریک بعد میں برپا ہوئی ۔ اہلِ دانش کو جگانے میں مرزا صاحب کی کتاب کا حصہ تھا، غیرمعمولی حصہ۔ پینتیس برس میں ایک بار بھی انہیں حوالہ دیتے نہ سنا گیا۔ اپنے اقدام پہ وہ شاد تھے۔ ان کی جنت ان کے قلب میں آسودہ تھی ۔
زیاں بہت ہے ۔ انسانی جوہر کا زیاں بہت ۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بہترین لوگ نظر انداز کر دئیے جاتے ہیں ۔ وہ اس بات کے مستحق تھے کہ صحافت کے طلبہ کی رہنمائی کریں ۔ خود وہ کسی سے کیوں کہتے ۔ دوسروں کو پروا کہاں تھی ۔
سچا اور کھرا آدمی ۔ کسی سے کبھی نہ الجھتے ۔ محتاط ایسے کہ کوئی دوسرا ان کے معاملے میں دخل دینے کی جرأت نہ کر سکتا۔ شکایت بھی کرتے تو اس طرح کہ گویا اپنا نہیں ، کسی اور کا ذکر ہو۔ عالی ظرف آدمی نے سب کو معاف کر دیا تھا۔ ایک زمانے میں ایسے ایک صاحب بربنائے عہدہ ان کی گردن پہ سوار تھے کہ حلال اور حرام کا امتیاز روا نہ رکھتے ۔ پوری بے دردی سے اخبار کو اپنی ذات کے لیے استعمال کرتے ، ادنیٰ مفادات کے لیے ۔ میں نے پوچھا: آپ کو رنج نہیں ہوتا ؟ بولے : کسی کا گھر اگر پبلک ٹائلٹ کے قریب ہو تو بدبو گوارا کرنے کا وہ عادی ہو جاتاہے ۔
یقین ہے کہ مالک کی بارگاہ میں وہ سرخرو ہوں گے ۔ اپنی مرضی اور منشا سے ، خطرات اور تنہائی مول لے کر ختم المرسلینؐ اور رحمتہ للعالمینؐ پر ایمان لانے والے کو اگر آپؐ کی شفاعت نصیب نہ ہوئی تو اور کس کو ؟
ہسپتال میں حاضر ہوئے۔ وہ بے ہوش پڑے تھے ۔ ملاقات نہ ہو سکی ۔ کس سے پوچھیں کہ ؎
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ اٹھ گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
آدمیوں کی طرح شہر بھی مر جاتے ہیں ۔ رفتہ رفتہ ، دھیرے دھیرے ، کسی کو خبر ہی نہیں ہوتی ۔ مرزا صاحب کی وفات کے بعد لاہور کچھ اور مفلس ہو گیا۔ وفاتِ حسر ت آیات کی راہ پر ایک قدم آگے ۔