ناروے اور یورپ کے سفر پر روانگی کے وقت لاہور ائیرپورٹ کے لائونج میں ہمارے رفیقِ سفر مولانا طاہر عزیز باروی نے پاکستان کے سابق سفیر جنابِ کرامت اللہ غوری کی کتاب ''بارِ شناسائی‘‘ہاتھ میں تھمادی ۔دورانِ پرواز اُسے پڑھنا شروع کیا اور ختم کر کے دم لیا ۔یہ دراصل ہمارے مختلف حکمرانوں کے بارے میں اُن کے مشاہَدات وتاثّرات ہیں ،جو انہوں نے بلا کم وکاست رقم کردیے ہیں ۔اس کتاب کا نام مصنف نے ''ہوئے جو خاک بسر‘‘ سوچا تھا ،لیکن اپنے دوست جنابِ رسول احمد کلیمی کے مشورے سے ''بارِ شناسائی‘‘رکھا۔جنابِ آغا شورش کاشمیری شخصیتوں کے قلمی خاکے لکھتے وقت یہ عنوان باندھتے تھے:''آنکھیں میری باقی اُن کا‘‘۔ایک اور صاحبِ قلم ''دیدشنید‘‘کا عنوان اختیار کرتے۔حفیظ جالندھری نے کہاتھا:
آنے لگا ہے اپنی حقیقت سے ڈر مجھے
کیوں دیکھتے ہیں غور سے، اہلِ نظر مجھے
''اے روشنیِ طبع تو برمن بلاشدی‘‘
پھر یہ نہیں، تو کھاگئی کس کی نظر مجھے
سو جنابِ کرامت اللہ غوری ''اے روشنیِ طبع تو برمن بلاشدی‘‘نام بھی رکھ سکتے تھے ۔مصنف نے اس کتاب میں چھ سابق حکمرانوں اور تین علمی وادبی شخصیات کے خاکے مرتّب کیے ہیں ۔مصنف چونکہ اہلِ زبان ہیں ،اس لیے قاری کواس کتاب میں اردوزبان کی لطافت اور چاشنی ضرور ملے گی ،جو آج کل نایاب نہیں توکم یاب ضرور ہے ۔جنابِ عمران خان کو انہوں نے ایک مقبولِ عام کرکٹر اور شوکت خانم ہاسپیٹل کا بانی ہونے کی وجہ سے قومی ہیرو کے طور پر لیا ہے۔اب خدا معلوم! سیاست دان عمران خان کے بارے میں اُن کا زاویۂ نظر کیا ہوگا ،اس کے لیے ہمیں اُن کی اگلی کتاب کا انتظار کرنا چاہیے۔اسی طرح انہوں نے پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام کے بارے میں لکھا:''ہیرا جس کی ہم نے قدر نہ کی‘‘۔جنابِ کرامت اللہ غوری کی خدمت میں عرض ہے کہ پاکستان کے دینی حلقوں کو قادیانی ہونے کی حیثیت سے اُن کے عقائد سے اختلاف ہے اور یہ مسئلہ دستورِ پاکستان کی دوسری ترمیم میں متفقہ طور پر طے ہوچکا ہے ۔ایک نوبیل انعام یافتہ عالمی سائنسدان کی حیثیت سے اُن کے مقام سے کسی کو اختلاف نہیں ، ہم دیگر غیر مسلم سائنسدانوں کی سائنسی ایجادات پربھی اُن کی تحسین کرتے ہیں اورانسانیت اُن ایجادات سے مستفید ہورہی ہے۔البتہ اُن کی سائنسی قابلیت سے فائدہ اٹھانا ہماری حکومت ،یونیورسٹیوںاور اعلیٰ تحقیقی اداروں کا کام تھا ،اس کے لیے مذہبی حلقوں کو دوش دینامناسب نہیں ہے۔اِسی طرح انہوں نے جنابِ حکیم محمد سعید کو ایک غیر متنازع قومی شخصیت کے طور پر لیا ہے ،یہ درست ہے۔مصنف نے بجا طور پر لکھا: ''وضع داری اور جامہ زیبی حکیم سعید پر ختم تھی ‘‘۔غوری صاحب جنابِ حکیم محمد سعید کا دردِ دل بیان کرتے ہیں :
''حکیم صاحب کا یہ گِلہ ،جو وہ مجھ سے اکثر کیا کرتے تھے ،غلط نہیں تھا کہ ہماری نئی نسل کے خود ساختہ رہنمائوں اور نیتائوں نے نوجوانوں کے ہاتھ سے قلم چھین کر کلاشنکوف تھمادی ہے اور اب سینۂ قرطاس پر علم کے موتی بکھرنے کے بجائے دھرتی کے سینے پر آئے دن لہو کی تحریریں لکھی جارہی ہیں۔ انہی ناسپاس اور بدبخت ہاتھوں نے حکیم سعید کے نجیب خون کو بھی پاکستان کی مٹی کی خوراک بنادیا‘‘۔ مصنف نے حکیم محمد سعید مرحوم کوایک شعر کی صورت میں غیرمعمولی خراجِ تحسین وعقیدت پیش کیا ہے ،اگر یہ کتاب اُن کی زندگی میں شائع ہوجاتی تو وہ یقیناقلبی اطمینان محسوس کرتے اور مصنف کی قدرومنزلت اُن کے دل میں اور بڑھ جاتی :
جن سے مل کر زندگی سے پیار ہوجائے، وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں، مگر ایسے بھی ہیں!
جنرل محمد ضیاء الحق کے اَخلاقی شِعار کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
''پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد اس بیان سے ضیاء الحق کی وفات کے دن بھی متفق نہیں تھی، نہ آج ہے اور نہ کل ہوگی۔ وہ بلاشبہ ایک انتہائی متنازع شخصیت تھے اور رہیں گے۔ لیکن ایک حقیقت، جس کا میں آج بھی بلا خوفِ تردید اعادہ اور توارد کرسکتا ہوں، یہ ہے کہ میں نے35 برس کی سفارتی اور سرکاری ملازمت کی تمام مدت میں ضیاء الحق سے زیادہ نرم خو اور حلیم انسان نہیں دیکھا۔ تاریخ ضیاء الحق کی ذات کے متعلق جو بھی فیصلہ کرے ،اس سے مجھے سروکار نہیں ہے، لیکن کوئی بھی دیانت دار مؤرخ ان کے خُلق اور اخلاق کے ضمن میں میرے بیان کی تردید نہیں کرسکے گا‘‘۔وہ اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں: ''میں نے تو اس سے پہلے اپنے سے بڑے منصب والے سرکاری افسر کو بھی اس درجہ شفیق نہیں پایا ،چہ جائیکہ صدرِ مملکت ایک انیس گریڈ کے افسر کو اس درجہ عزت سے نواز رہے تھے ، لیکن اُن کی یہ وضع داری جُز وقتی یا ایک مرتبہ کی کیفیت نہیں تھی ‘‘۔۔۔آگے چل کر لکھتے ہیں:''جتنی مرتبہ میں اُن کے دفتر یا رہائش گاہ پر گیا ،کبھی یہ نہیں ہوا کہ وہ مجھے گاڑی تک چھوڑنے نہ آئے ہوں ، اُن کی یہ وضع داری اور شرافتِ طبع پاکستانی زعمائ،قائدین اور سیاستدانوں کے زُمرے میں بلاشبہ اپنی مثال آپ تھی‘‘۔۔۔۔وہ مزید لکھتے ہیں:''اُن کے معترضین یہ کہا کرتے تھے کہ ضیاء الحق جو اس قدر عَجز اور انکسار کا مظاہرہ کرتے ہیں، تواصل میں یہ سب ڈراما ہے، سب بہروپ ہے ،اُن کے اندر جو میل ہے ،پاکستان پر زوروزبردستی سے قبضہ کرنے اور دھونس ڈالنے سے حکومت کرنے کا احساسِ جرم انہیں اندر ہی اندر کریدتا رہتا ہے ،اُسے چھپانے اور اس پر غازہ مَلنے کے لیے وہ یہ سب کچھ کرتے ہیں تاکہ لوگ اصل ضیاء الحق کو نہ دیکھ سکیں۔معترضین کی بات میں اور اُن کے دلائل میں وزن ہوسکتا ہے ،لیکن جو بے ساختگی ضیاء الحق کے ہاں میل جول کے حوالے سے میں نے دیکھی اور محسوس کی ،اُس میں کہیں بھی مجھے اداکاری یا ریاکاری کا شائبہ نہیں ہوتا تھا۔وہ سربراہانِ مملکت ،وزیروں اور سفیروں سے جس تپاک سے ملتے تھے ،اُس تپاک سے میں نے انہیں فرش پر جھاڑو لگانے والے خاکروب اور اُن کی گاڑی کا دروازہ کھولنے والے دربان سے بھی جھک کر ملتے اور گرمجوشی کے ساتھ مصافحہ کرتے دیکھا۔اگر وہ واقعی اداکاری تھی ،تو کمال کی تھی ‘‘۔
مصنف نظریاتی اعتبار سے لبرل آدمی ہیں ،مذہبی ذہن کے نہیں ہیں ،لیکن خود اُن کا کہنا ہے کہ میں نے حقائق کسی کتر بیونت کے بغیر بیان کیے ہیں،چنانچہ انہوں نے دیانت داری سے جنرل محمد ضیاء الحق کے سیاسی کردار سے قطع نظراُن کی اَخلاقی خوبی کو بیان کیا ہے ۔اس میں ہمارے ہر عہد کے حکمرانوں کے لیے سبق ہے کہ کسی میں کوئی خوبی ہو تو اُس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ، کیونکہ: ''عطر آنست کہ خود ببویدنہ کہ عطار بگوید‘‘۔آج کل ہماری سیاست کا شِعارمخالفین کو گالی گلوچ اور شخصی توہین وتذلیل بن گیا ہے ۔مصنف جناب ذوالفقار علی بھٹو کی متضاد شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
''میں نے اپنی زندگی میں ذوالفقار علی بھٹو جیسا ذہین انسان نہیں دیکھا اور میں نے اپنی زندگی میں بھٹو جیسا مغرور اور متکبر انسان بھی نہیں دیکھا۔وہ اس حقیقت کو بھی بیان کرتے ہیں کہ Lateral Entryکے ذریعے جنابِ بھٹو نے بیوروکریسی کا معیار گرادیا ‘‘۔وہ لکھتے ہیں:''لیکن یہ سب کچھ یوں ممکن نہیں ہوا کہ بھٹو کی بے نظیر ذہانت اور تخلیقی صلاحیت پر وڈیرہ شاہی اور جاگیرداری کی جو قلعی چڑھی ہوئی تھی ، اس نے اصل بھٹو کو کبھی آگے آنے کا موقع ہی نہیں دیا اور اس آسیب نے جو پیدائش سے ان کو گھیرے رہا تھا، آخر کار انہیں قبل از وقت قبرپہونچادیا‘‘۔وہ لکھتے ہیں:
''اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بھٹو جیسے زیرک اور سفاکی کی حد تک چالاک سیاست دان نے ،جس کی گھٹی میں وڈیرہ شاہی پڑی تھی، پاکستان کے کم تعلیم یافتہ اور سادہ لوح عوام کی کم علمی اور بھولپن سے بے انتہا ناجائز فائدہ اٹھایا‘‘۔
اس کتاب پرجنابِ رضا علی عابدی اور جنابِ عبدالرؤف کلاسرا کی طرف سے تبصرے قومی اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں۔ پبلشر کی معذرت کے سبب اس کتاب کی پہلی اشاعت پاکستان سے نہ ہوسکی، سو پہلا ایڈیشن دہلی سے شائع ہوا۔ ہمارا میڈیا روزانہ مسند نشین حکمرانوں کا جو حشر کرتا ہے، یہ کتاب تو اُس کا عُشرِ عَشِیر بھی نہیں ہے،پبلشر کی معذرت حیرت کا باعث ہے۔