تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     26-11-2016

جنگی مجرم

کسی بھی جنگ یا فوجی آپریشن کے دوران دشمن کے کسی بھی افسر یا جوان کو ہلاک کرنے کے بعد اس کا سر کاٹنا یا بے حرمتی کرنا عالمی جنگی قوانین کے تحت جنگی جرم کے زمرے میں شمار کیا جا تا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2(4) میں یہ واضح طور پر لکھا ہے کہ ''ایک ریاست کسی دوسری ریاست کے خلاف اس وقت تک سرجیکل سٹرائیک نہیں کر سکتی جب تک اقوام متحدہ کے چارٹرV11 کے تحت سکیورٹی کونسل اس کی اجا زت نہیں دیتی‘‘۔ لیکن بھارتی حکمران پارٹی کے سرکردہ وزراء اور لیڈروں کے علاوہ دوسری پارٹیوں کے لیڈر بھی پاکستان کے خلاف اپنے ادوار میںکئے جانے والے'' سرجیکل سٹرائیکس‘‘ کا یہ کہتے ہوئے فخریہ اقرارکر رہے ہیں کہ Mine was bigger than your's ۔ یہ جنگی جرائم کا اعتراف ہے۔ جولائی2011ء میں من موہن سنگھ کی وزارت عظمیٰ کے دور میں بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول کراس کرتے ہوئے ''آپریشن جنجر‘‘ کے نام سے کئے جانے والے فوجی آپریشن کے دوران پاکستانی پوسٹ پر حملہ کر کے تین پاکستانی فوجیوںکو شہید کردیا اور ان کے سر کاٹ کر بھارت لے گئے تھے۔ بھارتی وزیر دفاع اور فوجی قیادت اپنے اس ''کارنامے‘‘ کو بھارت کے ٹی وی چینلز پر فخریہ بیان کرتے ہوئے ذرا سا بھی نہیں شرمائے۔ پاکستانی فوج کے تین جوانوں کو شہید کرنے کے بعد ان کے سر کاٹنے کا فخریہ اقرار بھارتی فوج کے میجر جنرل ( ر) ایس کے چکر ورتی نے جو آپریشن جنجرکے انچارج تھے، یہ کہتے ہوئے کیا کہ ''ہاں آپریشن جنجر جس میں پاکستان کے تین فوجیوں کے سر لائن آف کنٹرول عبور کرنے کے بعد کاٹے گئے تھے، میری نگرانی میں کیا گیا تھا اور مجھے اس پر فخر ہے‘‘۔ میجر جنرل چکر ورتی کے اس اقرار جرم کے ثبوت موجود ہیں، بلاشبہ اس کا یہ جرم سرا سر غیر قانونی ہے جس کی دنیا بھر میں شدید مذمت کی جاتی ہے اور جسے انسانیت کی توہین قرار دیا جاتا ہے۔ فوجیوں کے سر کاٹ کر فتح کا نشان بنانے کا جو بد ترین عمل بھارتی فوج نے کیا یہی کچھ داعش اور تحریک طالبان کے تمام گروپ کر رہے ہیں۔ جنگی جرائم کی فہرست میں بھارتی فوج اور داعش میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟
کاش پاکستان میں ایسی حکومت آ ئے جس کی مودی جیسے موذی کے ساتھ دوستی نہ ہو، ذاتی تعلقات نہ ہوں، مودی کے دست راست سے تجارتی معاملات نہ ہوں اور وہ بھارتی فوج کو آپریشن جنجر میں کئے جانے والے گھنائونے جرم کے تحت اسے جنگی مجرم قرار دلانے کے لئے عدالت میں گھسیٹ سکے؟ جنیوا کنونشن میں Protection of Victims of International Armed Conflicts' کے نام سے کئے جانے والے فیصلوں کے تحت جس پر دستخط کرنے والوں میں بھارت بھی شامل ہے، مارے جانے والوں کی کسی بھی طریقے سے تذلیل جنگی جرائم میں شامل ہوگی۔ یہ ایسا جرم ہے جس کے دفاع میں کسی فریق کا یہ عذر قبول نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے یہ سب بدلہ لینے کے لئے کیا ہے۔ امریکہ کی مثال ہم سب کے سامنے ہے کہ اس کے بہت سے فوجیوں کا اس الزام پرکورٹ مارشل کیا گیا 
کہ انہوں نے عراق اور افغانستان میں مارے یا کچلے جانے والے فوجیوں کی تصاویر اتار کر اپ لوڈ کی تھیں۔ اگر امریکہ میں مارے گئے فوجیوں کی لاشوں کی بے حرمتی اور ان کے فوٹو شوٹ جنگی جرائم سمجھے جاتے ہیں، اگر اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت یہ جنگی جرم کے زمرے میں آتا ہے تو پھر اس پر اب تک خاموشی کیوں؟ کاش پاکستان کی بھی کوئی وزارت خارجہ ہوتی! کاش ہم بھی دشمن کے دوست نہیں ملک کے وفادار ہوتے!! نریندر مودی نے تو 15 اگست کو لال قلعہ دہلی میں اشاروں کنایوں میں انکشاف کیا کہ وہ بھی1971ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کے لئے پاکستانیوں کے خلاف بھیجی جانے والے مکتی باہنی کے لشکر میں شامل تھے۔ یہ اقرار جو مودی اشاروں کنایوں میں کر رہا ہے اس کی مکمل تفصیل اپنے اگلے کالم میں تفصیل سے کروں گا، انشاء اللہ !
انتہائی ضرورری ہو چکا ہے کہ پاکستان کے تمام ذمہ داران مودی کی سوچ اور ذہنیت کو سامنے رکھتے ہوئے ملکی پالیسی ترتیب دیں کیونکہ ان کا واسطہ ایک ایسے عیار اور مکار دشمن سے ہے جو مسلمان کا خون بہانے اور پاکستان کے نام اور وجود سے نفرت کو اپنا مقصدبنائے ہوئے ہے۔ اس کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہے کہ وہ پاکستان کی فوج کے اتحاد اور تنظیم کو تباہ کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ''ذاتی دوستیاں‘‘ پیدا کرنے میں جتا ہوا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس دوستی سے جس دن پاکستانی فوج کی تنظیم اور اتحاد میں دراڑ پڑ گئی (خدا نخواستہ) وہی دن پاکستان کی تباہی کا نقطہ آغاز سمجھا جائے گا۔ یاد رکھیے کہ اس شخص کے دل سے پاکستان کی نفرت اور دشمنی کبھی ختم نہیں ہو سکتی اور اگر ہو گئی تو وہ دن شاید اس کی زندگی کا آخری دن ثابت ہو۔اوڑی کیمپ واقعے کے بعد اب تک مودی کے کئے جانے والے اقدامات اس لئے معمولی کہے جا رہے ہیں کہ چند دن بعد یو پی( اتر پردیش) اور پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی بہار میں قبل از وقت مڈ ٹرم انتخابات کی بات بھی چل رہی ہے ورنہ مودی اب تک اپنی فسطائی ذہنیت کب کی اگل چکا ہوتا۔ مت بھولیں کہ مودی کا خمیر اس راشٹریہ سیوک سنگھ سے اٹھا ہے جس نے سب سے پہلے اپنے باپو گاندھی کو صرف اس لئے قتل کیا کہ وہ پاکستان کے حصے میں آنے والے وسائل اسے واپس دینے کی بات کر رہا تھا۔ 1928ء میں وجود میں آنے والی ہند و انتہا پسند عسکری تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ جس کا یہ پالک ہے، اس کی سوچ ہٹلر اور مسولینی جیسی ہے۔ غور کیجیے، آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستانی میڈیا کے طاقتور اور مشہور و معروف چینلز اور ان کے اینکرز نے ابھی تک کانگریس اور جنتا پارٹی کی سرجیکل سٹرائیک پر ہونے والی گولہ باری کی جانب توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی؟ سب سے زیادہ افسوس پاکستان کی وزارت خارجہ اور داخلہ پر ہے کہ وہ بے خبر ہو کر اپنی آنکھیں بند کر کے بیٹھی ہیں یا جان بوجھ کر بھینچ رکھی ہیں۔ بھارت اپنی زبان سے جنگی جرائم کا اعتراف کر رہا ہے جو اس کے وزیر دفاع اور میجر جنرل کی زبانیں اگل رہی ہیں۔ من موہن سنگھ سرکار کے وزیر اطلاعات منیش تیواڑی نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے نریندر مودی سرکار کے وزیر دفاع منوہر پاریکر کے لتے لیتے ہوئے فخریہ انداز سے کہا ہے کہ پاکستان کے خلاف اصلی سرجیکل سٹرائیک تو ہماری حکومت نے کیا تھا جب ہم تین پاکستانی فوجیوں کے سر کاٹ کر بھارت لے آئے تھے۔ تیواڑی نے کہا مودی سرکار جو سرجیکل سٹرائیک کے بڑے دعوے کر رہی ہے بھارتی جنتا کو بتائے کہ وہ اپنے ساتھ کتنے پاکستانی فوجیوں کے سر لے کر آئی ہے؟21 ستمبر کو قوام متحدہ کے 71ویں سیشن سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی نمائندے نے کہا: ''بد ترین دہشت گردی انسانی حقوق کی پامالی ہے اور اگر یہ کسی ریا ست کی جانب سے کی جائے تو یہ جنگی جرائم میں شامل ہو تی ہے‘‘۔ لیکن پاکستان کی حکومت ان اعترافات کو جنگی جرائم کی عالمی عدالت میں لے جانے کا سوچ ہی نہیں رہی، نہ جانے کیوں؟ ؎
کوئی تو پرچم لے کر اٹھے اپنے گریباں کا جالب 
چاروں جانب سناٹا ہے، دیوانے یاد آتے ہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved